خود سے متعلق لکھنا شوق نہیں


گزشتہ چند ماہ کے دوران اردو زبان میں لکھنے والوں میں شاید بلکہ غالباً یا یقیناً میں وہ واحد شخص ہوں جس نے اپنے متعلق سب سے زیادہ لکھا۔ یقین جانیے ایسا کرنا کوئی شوق نہیں نہ ہی نرگسیت پسندی۔ یہ پہلے تو ضرورت کے تحت کیا گیا اور دوسرے مجبوری کے تحت۔

ضرورت یہ تھی کہ گزشتہ برس چونکہ میری خود نوشت کا پہلا حصہ ”پریشاں سا پریشاں“ شائع ہوا تھا جس کی تقاریب پذیرائی کے انعقادات میں شمولیت کی خاطر مجھے پاکستان میں ہونا تھا۔ کتاب چھپنا چونکہ چھاپہ خانہ میں جانے کے بعد پبلشر کے بھی ہاتھ میں نہیں ہوا کرتا چنانچہ گزشتہ برس بھی مارچ میں لوٹ جانے کی بجائے جون کے شروع میں روس لوٹنا ممکن ہو سکا تھا۔

میں روس لوٹا ہی اس عہد کے ساتھ تھا کہ خودنوشت کے دوسرے حصے کا جو بیشتر حصہ میں ناول کی صورت میں تحریر کر چکا تھا، ایک تو اسے اپنے پبلشر زاہد کاظمی کی درخواست سے لے کر دوست افسانہ و ناول نگار و نقاد محمد حمید شاہد کے مشورے سے مہربان ذی وقار جناب افتخار عارف کی تلقین کے مطابق، پہلی کتاب کی ہی شکل میں ڈھالوں، خاص طور پر کرداروں کے فرضی نام حذف کر کے حقیقی نام ڈالوں اور کتاب مکمل کروں۔

یہ کام میں نے ستمبر میں مکمل کر لیا تھا۔ اپنے پروگرام کے مطابق اکتوبر کے اواخر میں پاکستان پہنچا تھا کیونکہ خیال یہ تھا کہ کتاب دسمبر یا جنوری میں شائع ہو جائے گی اور میں بہار میں ماسکو اپنے گھر لوٹ جاؤں گا۔ مگر کتاب کی اشاعت پھر تاخیر کا شکار ہوئی۔ زاہد کاظمی نے ارادہ کیا کہ بہر صورت کتاب اپریل میں منصہ شہود پر لے آئی جائے گی تاکہ میں رمضان سے پہلے یا رمضان کے دوران ماسکو لوٹ سکوں۔

مگر جب میں نے مارچ کے پہلے ہفتے میں زاہد کاظمی کے پاس جانے کا ارادہ کیا تو ”لاک ڈاؤن“ ہو گیا۔ کورونا کی وبا ایک اہم اور خطرناک واقعہ تھا اور ہے چنانچہ میں نے خود سے یہ سوچا اور پھر زاہد نے بھی درخواست کی صورت مشورہ دیا کہ کتاب چھاپہ خانے تک جانے سے پہلے، آپ اپنی زندگی کے واقعات و معاملات درج کرتے رہیے تاکہ جب کتاب اشاعت کے لیے جائے تو پوری اپ ڈیٹ کے ساتھ۔ یہاں تک تو تھی ضرورت۔

مجبوری یہ ہوئی کہ پہلی بات اپنے قصبہ علی پور ضلع مظفرگڑھ میں پھنس کے رہ گیا جہاں 1991 کے بعد میں تین چار ہفتے سے زیادہ کبھی نہیں رہا۔ اوپر سے 12 اپریل کو مجھے بیک وقت دو امراض نے جو ایک ہی وائرس سے ہوتی ہیں مگر بہت ہی کم اکٹھی ہوتی ہیں جن میں سے ایک کم تکلیف دہ ہے مگر کچھ عرصے کے لیے آپ کے بدن اور چہرے پر گہرے رنگ کے داغ چھوڑ جاتی ہے۔ یہ مرض وائرس کے باہر سے کیے حملہ کے سبب ہوتی ہے جبکہ دوسری مرض بہت ہی تکلیف دہ اور مضطرب کن ہوتی ہے مگر وہ ایک ہی نام کی اس وائرس کے سبب ہوتی ہے جو اٹھارہ ماہ کی عمر سے پہلے باہر سے ہوئے اس وائرس کے حملے کی وجہ سے ہوئی مرض کے بعد انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے کسی مہرے کے ایک جانب جم کے خفتہ ہو جاتا ہے، بیسیوں، تیسیوں سالوں کے لیے اور جونہی مدافعت کمزور پڑتی ہے یہ جسم کے کسی حصے کے ایک جانب کو نشانہ بناتا ہے۔

کورونا نے ویسے ہی پریشان کیا ہوا تھا اور کیا ہوا ہے کیونکہ ساری دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو سائنس اور خاص طور پر طب کی سائنس سے آگاہ ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں، ان میں سے ان معدودے چند کے علاوہ جو اختلاف کر کے اپنی شہرت چاہتے ہیں یا اختلاف کرنا ان کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے، بیشتر جانتے ہیں کہ یہ وائرس روئے ارض پر کورونا وائرس کی بالکل ہی نئی شکل ہے جس کے بارے میں کوئی بھی زیادہ آگاہ نہیں۔ وہ اب تک اس بارے میں ہوئی آگاہی سے محض متحیر اور پریشان ہی ہوئے ہیں۔ تحیر اور پریشانی سدباب کی راہ ڈھونڈنے کی جانب راغب کرتے ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سائنس اور طب سے کوئی سروکار نہیں۔ ایسے لوگ دنیا میں بہت زیادہ ہیں، وہ اس وائرس کے خطرناک ہونے سے متعلق یا متذبذب ہیں یا انکاری۔ میں چونکہ پہلے لوگوں میں سے ہوں اس لیے اس وائرس اور اس کی تباہ کاری سے متعلق مسلسل جانکاری حاصل کر کے اس قدر پریشان ہوا کہ اپنی قوت مدافعت کم کر کے دوسرے وائرس کو حملہ کا موقع فراہم کر دیا۔

پھر اور کیا لکھا جاتا کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی تسبیح کے منبر میں کوئی روحانی قوت پوشیدہ ہے جسے چھوتے، گھماتے انہیں کورونا سے محفوظ رہنے کی خاطر ماسک کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ کبھی کوئی بیان دے دیتے ہیں، کبھی کوئی بیان۔ کبھی لاک ڈاؤن کو سود مند بتاتے ہیں تو کبھی ”میرے پاکستانیو“ کے لیے بھوک سے مرنے کا سامان۔ کبھی پندرہ مئی سے پچیس مئی کو مرض کی معراج بتاتے ہیں تو کبھی پندرہ مئی کو ہی زندگی میں پہلی بار درخواست کرتے ہیں اور وہ بھی پبلک ٹرانسپورٹ کھول دینے کی۔ برا ہو اٹھارہویں ترمیم کا ورنہ وہ بھلا درخواست کیوں کرتے۔

دوسرا موضوع کورونا تھا۔ دو چار مضمون میں نے لکھے بھی مگر دیکھا کہ لوگوں کو تو پرواہ ہی نہیں ہے۔ بازار کیا کھلے، دیہاڑی دار اور غریب عوام ایسے ٹوٹ کے خریداری کرنے بھاگے جیسے بازار تین روز کے لیے ہی کھلے ہوں۔ حکومت ہے کہ غریب غریب کا رونا روئے جا رہی ہے اور کھولیں تو وہ بھی دکانیں اور شاپنگ مال۔ خیر بادشاہ لوگ ہیں۔ کھولنے کو تو اٹلی بھی 3 جون سے بین الاقوامی پروازیں اور سیاحت کی صنعت کھول رہا ہے لیکن یہ کہہ کے کہ ایسا کرتے ہوئے ہم ”نپا تلا ہوا خطرہ“ مول لے رہے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ہاں کورونا سے نمٹنے کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے سربراہ اسد عمر کہتے ہیں کہ وبا نے تو بڑھنا ہی ہے تو ڈرنا کیوں۔ فرماتے ہیں مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی، اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مگر حالات قابو میں ہیں۔ میں نے زندگی میں اتنا مضحکہ خیز بیان نہیں سنا جبکہ میں اسد عمر کو مناسب اور معقول شخص سمجھتا تھا مگر وہ تو ملازمت پکی رکھنے کی خاطر یہاں تک کہہ چکے کہ دنیا آہستہ آہستہ اسی جانب آ رہی ہے جو شروع سے عمران خان کا پالیسی بیان تھا۔ اللہ اکبر!

میرا تکلیف دہ مرض ویسے تو انجام تک پہنچا مگر درد کی اذیت تحفہ دے گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمیں کورونا کے ساتھ جینا ہوگا، میں خائف ہوں اللہ نہ کرے مجھے اس مضطرب کن درد کے ساتھ جینا پڑے۔ حکومت نے بسیں کھول دی ہیں کہ کرایہ بیس فیصد کم ہوگا مگر دو نشستوں پہ ایک بیٹھے گا یعنی اگر پہلے کرایہ ایک ہزار فی سواری تھا اب 1600 فی سواری ہوگا اور اوپر سے اے سی نہیں چلے گا یعنی پینتالیس ڈگری سنٹی گریڈ کی گرمی میں کئی گھنٹوں کا سفر کیجیے۔

چھاپہ خانے پتہ نہیں کب کھلتے ہیں۔ میں خود بہت گرمی میں رہ رہا ہوں مگر ٹھنڈے علاقے میں جانے کے لیے ایسے سفر کا خطرہ مول نہیں لوں گا۔ ذاتی کار میرے پاس نہ کبھی تھی اور نہ ہے، نہ ہی ہونے کا کوئی امکان ہے۔ بس کہیں اگست میں منہ سر لپیٹ کے ماسکو پہنچ جاؤں گا انشاءاللہ۔ ویسے بھی میرے منہ میں خاک، آئندہ موسم سرما میں پاکستان میں کورونا کی زیادہ ہلاکت خیز اور زیادہ پھیلاؤ والی شکل لوٹ آنے کا بہت امکان ہے۔ محفوظ تو ماسکو بھی نہیں ہوگا مگر وہاں کم از کم میں اپنے کنبے کے ساتھ تو ہوں گا انشاءاللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments