کرونا وائرس سے نبر آزما، خطۂ کشمیر کی پر کیف فضا


وبا کے دنوں میں دن میں کم از کم ایک بار کرونا وائرس کے متاثرین کے اعداد و شمار پر نظر پڑ ہی جاتی ہے۔ پاکستان میں وائرس سے متاثرین کی تعداد مغربی ممالک کے تناسب سے تشویشناک نہیں ہے۔ اندرون ملک نظر دوڑائیں تو حکومت پاکستان کی محکمہ صحت کی ہیلپ لائن کی ویب سائٹ پر کرونا سے متاثرین کی سب سے کم تعداد آزاد کشمیر میں ہے چونکہ لمحۂ موجود تک تو وائرس کے خلاف جنگ قوت مدافعت ہی سے لڑی جا رہی ہے، اس کی ایک وجہ ریاست آزاد کشمیر کے باسیوں کی قوت مدافعت ہو سکتی ہے۔ میری ناقص رائے میں فطرت سے قریب اور قدرتی و سادہ خوراک سے نمو پذیر مشقت انگیز زندگی اپنے اندر بے پناہ قوت مدافعت رکھتی ہوگی۔

یہ سوچتے ہوئے میں یادوں کے دریچوں میں کھو جاتا ہوں اور خطہ کشمیر میں گزرے اپنے بچپن کے دن یاد کرتا ہوں۔

یہ صرف چالیس پینتالیس سال ادھر کی بات ہے۔ ہمارا متوسط طبقے کا خاندان آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر کی تحصیل سماہنی کا رہائشی ہے۔ کشمیر کے دشوار گزار اور دور دراز پہاڑی علاقے میں چاروں طرف سے سر سبز پہاڑی سلسلے میں گھری، تیس میل لمبی اور دس میل چوڑی وادیٔ سماہنی لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ پہاڑوں کے بیچ سے پھوٹتے چشموں اور برساتی نالوں کی ڈھلوانوں میں بہتے صاف و شفاف پانیوں کی منزل وادی ٔ کے درمیان بہتی واحد ندی ہے۔

اندرون وادی کے آمد و رفت کا واحد ذریعہ ایک کچی سڑک ہے جو بھمبر اور میرپور کو سماہنی کے راستے ملاتی ہے۔ اس سڑک پر صرف تین بیڈفورڈ بسیں چلتی ہیں، جو صبح سماہنی سے ایک ایک گھنٹے کے وقفے سے چل کر جگہ جگہ رکتی دوپہر کو میرپور پہنچتی ہیں اور بعد از دوپہر میرپور سے چل کر، پینتیس میل کا پہاڑی سفر طے کر کے شام کو سماہنی آ کر اپنے عملے کے ساتھ رات کو اس حسین وادی کی گود میں چین کی نیند سو جاتی ہیں۔ مگر مقامی سفر زیادہ تر سفر پیدل طے ہوتے ہیں۔ موسم برسات میں تو پیدل سفر مجبوری بن جاتا ہے۔ اس سڑک کی تواتر سے مرمت کے لیے سرخ کپڑا سر پر لپیٹے بیلدار جگہ جگہ گینتی اور بیلچے سے کام کرتے نظر آتے ہیں۔

طشتری کی طرح بچھی وادی کے چاروں اطراف کے پہاڑوں کے لاکھوں برس پرانے مضبوط قوی ہیکل بدن چیڑھ کے جنگل لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ چٹانوں سے ہٹ کر مٹی کی زرخیز نرمی میں خود رو جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں کی بہتات ہے۔ جو نام مقامی زبان میں مجھے یاد رہ گئے ہیں، ان میں گرنڈہ، بیکڑھ، کمیلہ، آملہ، لسوڑہ، بنفشہ، سنتھہ، کوار گندل، کیوڑہ، جھڑ بیر، اور سیو بیری ہیں۔ وادی کی قدرے ہموار سطح پر شہتوت، پھگواڑی، شیشم (ٹاہلی) ، تمہڑ، ، بوڑھ، پلاہی، برگد اور کیکر کے درخت عام ہیں۔ اجناس میں مکئی، گندم، باجرہ، جوار، چنے اور تل پیدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں آم، آڑو، ناشپاتی، خوبانی، بادام، اخروٹ، سبز بیر اور سرخ بیر جبکہ گھریلو باغیچوں کی سبزیوں میں ساگ، بینگن، پھلیاں، پیٹھا، توری، کریلے، بھنڈی، پھلیاں، چرانگلی، کدو اور دال مونگ ہیں۔

قدرتی چشمے، کنویں اور باؤلیاں خال خال ہیں لہذٰا صاف پانی کا حصول خواتین کے لیے ایک دشوار کام ہے۔ جو موسم گرما میں اور بھی جاں گسل ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات ان کو دو یا تین گھڑے اٹھا کر ایک دو میل دور سے لانے پڑتے ہیں۔ اس تکلیف کو وہ گیت گا کر، پرانے قصے سنا کر رومانوی باتیں کر کے ہنسی خوشی کاٹ لیتی ہیں۔

کھیتی باڑی زیادہ نہیں ہے۔ پڑھے لکھے جوانوں کی اکثریت اندرون اور بیرون ملک ملازمت پیشہ ہے جبکہ تقریباً ً اتنی ہی تعداد کھیت کھلیانوں میں نظر آتی ہے جہاں خواتین بھی ان کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ مویشیوں کے لیے جنگل سے گھاس کاٹ کر لانا، ایندھن کے لیے لکڑی کا اہتمام کرنا، زراعت کرنا کرنا جیسے مشکل کام مردوں کے حصے میں آتے ہیں۔

فصل کی کٹائی ہو، مکان کی لاد ہی ہو، گندم کا گاہن ہو، سب کا اہتمام ایک ونگار ( کسی بلامعاوضہ مدد کے لیے بلائے گئے کام کے بعد اہل دیہہ کو کھانے کی دعوت کی جاتی ہے ) کی صورت کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وادی کے باسی باہمی پیار، محبت اور ہمدردی سے سر شار ہیں۔ ۔ کسی کی ناگہانی موت یا علالت کی تکلیف فوراً بانٹ لیتے ہیں۔ گھر کا صحن عزیز و اقارب سے کئی ہفتوں تک بھرا پرا صحن تنہائی اور اداسی کو کئی گنا کم کر دیتا ہے۔ اور یہ ایسی دوا ہے جو روحانی خوشی دیتی ہے۔ پوری وادٔی کے لوگ ایک گھرانے کی طرح بستے ہیں۔ موت مرگ پر پرسا دینے کا رواج لواحقین کے لیے بعض اوقات بہت بڑی مالی امداد بھی ثابت ہوتا ہے۔

بجلی کا نام و نشان بھی نہیں۔ روشنی کے لیے لکڑیوں کی مشعل، سرسوں کے تیل کا دیا یا لالٹین استعمال ہوتی ہے۔ تقریباً تمام گھر پتھر، لکڑی کی شہتیروں اور بالیوں سے بنے ہیں۔

وادیٔ کے تقریباً مرکز میں ہمارے گھر سے دو میل پیدل مسافت پر قائم ہمارا ہائی سکول ایک جنوبی پہاڑی کی بغل میں ہے۔ سکول کی عمارت پہاڑ کے عین نیچے واقع ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں زیادہ وقت سورج کی حدت سے محروم رہتی ہے۔ البتہ آدھی چھٹی یعنی تفریح کے وقت یہ نعمت میسر ہوتی ہے جس دورانیے میں لڑکے بالے شمالی چٹان جس پر سائیں کوڑے شاہ کا مزار ہے، کسی (چھوٹی ندی) کے کنارے دھوپ میں بیٹھ کر صبح گھر سے لایا ہوا پراٹھا اور سالن کھا سکیں۔ جو ہماری مائیں بڑے اہتمام سے ایک ہمارے لیے اور ایک اور کسی اور ہم جماعت کے لیے دیتیں جو کھانا نہ لا سکا ہو۔

البتہ گرمیوں میں قدرے گرم مگر موسم سہانا ہو جاتا ہے۔ سکول میں پانچویں جماعت تک اردو اور فارسی پڑھائی جاتی ہے، انگریزی زبان چھٹی جماعت سے شروع ہوتی ہے۔ کمرہ ٔہائے جماعت کو اندر سے بھوسہ بھرے گارے کی لپائی کرنے کے بعد چونے سے معتبر بنایا گیا ہے۔ جن کی دو کھڑکیاں پیچھے پہاڑ کی طرف کھلتی ہیں۔ سکول کی عمارت شیشم، بوڑھ اور شہتوت کے درختوں میں چاروں سمت سے گھری ہے۔

باد و باراں کے علاوہ اکثر جماعتیں سارے میں شیشم کے درختوں کے نیچے منعقد ہوتی ہیں۔ گرمی کے دنوں میں ( لانگ بریک ) تفریح کے وقت بڑے بچے اپنا دن کا کھانا کھانے کے لیے چھوٹی ندی کے اوپری سرے پر بنی آبشار کا رخ کرتے ہیں، جس کے رد پرکیف ٹھنڈک اور تازگی گرمی کی حدت کو بھلا دیتی ہے۔

گاؤں میں جگہ جگہ بکھرے گھروں کے اندر قدرتی سماجی فاصلے ہیں۔ ٹریکٹر، گاڑیاں اور موٹر سائیکل ابھی تک یہاں نہیں پہنچے۔ لہذٰا اکا دکا فوجی گاڑی یا اجناس شہروں سے لانے والے چھکڑوں کے علاوہ ہماری واحد کچی سڑک سے دھول اڑانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔

فضا میں آلودگی صرف گھروں کی رسوئیوں سے نکلتے ہوئے دھوئیں تک محدود ہے۔ مگر چیڑھ کے جلنے کی باس سے مسحور کن بھی ہے۔ گاؤں کی فضا اس قدر صاف شفاف اور دہلی ہوئی ہے کہ گرمیوں میں سورج کی شعائیں بلا واسطہ زمیں پر پڑتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر نکسیر پھوٹتی رہتی ہے۔ جس کا علاج چشمے کے ٹھنڈے پانی کو سر پر ڈال کر اور گڑ ستو کا ٹھنڈا شربت پی کر کیا جاتا ہے۔

طالب علمی کے زمانے کی مصروفیات میں فارغ اوقات اور چھٹی کے دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا، گھاس کاٹ کر لانا، اور ندی پر چلنے والے تایا عبدالکریم کے جندر سے آٹا پسوا کر لانا شامل ہیں۔ موسم گرما کی شاموں میں اکثر ہم ندی میں تیراکی کرنے جاتے ہیں۔ گہری اور وسیع ڈابوں ( پانی کے قدرتی ذخیروں ) میں اونچی چٹان سے چھلانگ لگانے کے مقابلے، تیراکی کے مقابلے، پانی کی گہرائی میں زیادہ دیر رہنے کے مقابلے دیدنی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مچھلی کا شکار، شہد اتارنا، خرگوش اور تیتر کا شکار کرنا عام مشغلے ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے اور دن رات سفر کرتے، گھاس کاٹتے، اور کھیت کھلیانوں میں پھرتے ہوئے، بھڑ، ڈھڈار، شہد کی مکھی، بچھو، پانی کی جھونک اور دیگر آبی اور خشکی کے کیڑے مکوڑے عموماً کاٹتے رہتے ہیں۔ تکلیف بڑھ جانے پر بھی تردد نہیں ہوتا کیونکہ دیسی ٹوٹکے موجود ہیں۔ سانپ کے کاٹے کا علاج بھی موجود ہے۔

لوگوں کی عام خوراک نہایت سادہ ہے۔ سردیوں میں دن میں مکھن سے چوپڑی مکئی کی روٹی، لسی اور لسوڑے یا آم کا اچار۔ جب کہ شام کو ساگ یا دال یا کوئی اور سبزی وغیرہ۔

گرمیوں میں تندور میں پکی گیہوں کی روٹی دیسی گھی، تمبر یا آم کی چٹنی اور لسی وغیرہ شام کو کڑی یا دال وغیرہ۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جو، دیسی مرغ، گائے، بھینس یا بکری کے فوائد سے محروم ہو۔ لہذٰا دودھ، مکھن، لسی اور دیسی گھی عام خوراک کا حصہ ہے۔ جو کھانا بنتا ہے اسی دن ختم ہو جاتا ہے۔ کوئی چیز باسی نہیں کھائی جاتی۔ گاؤں والوں کی خوراک نہایت سادہ زود ہضم اور ذائقہ دار ہے۔

اب پچاس سال قبل والا اسلوب زندگی ایک حسین خواب ہی لگتا ہے کیونکہ آج کی تیز رفتار زندگی میں بہت سی آسانیاں در آئی ہیں۔ مگر وہ قانون فطرت آج بھی قائم و دائم ہے کہ فطرت سے قریب اور قدرتی و سادہ خوراک سے نمو پذیر مشقت انگیز زندگی اپنے اندر بے پناہ قوت مدافعت رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments