شب قدر کی تلاش اور ابدی اثاثوں کی سرمایہ کاری


یہ بات واقعی خوش کن ہے کہ تقریباً ہر مسلمان خواہ وہ پنچ وقتہ نمازی ہو یا ہفتہ واری جمعہ کی نماز پڑھنے والا یا سالانہ عیدالفطر و عید الاضحی کی نماز پڑھنے والا، اس ماہ مبارک میں جوش ایمانی سے بھرا ہوتا ہے۔ ہر سال مساجد کے علاوہ مختلف مقامات پر تراویح پڑھنے کے لئے حفاظ کرام کا نظم کرتا ہے اور خواہ دس دن میں سہی لیکن مکمل قرآن تراویح میں سننے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ مساجد کے تعلق سے لاک ڈاؤن کے اس تکلیف دہ حالات اور سوشل ڈسٹینسنگ کے دور میں بھی خواہ پانچ سات دس نمازیوں کے ساتھ گھروں میں تراویح پڑھنے والے بکثرت ملے۔ لیکن افسوس ان کے اس جذبہ ایمانی کو صحیح سمت اور پائیداری دینے کی طرف محنت نہیں کی گئی۔ یہ ایمانی حرارت اور رجوع الی اللہ کے جذبات سرمایہ assets ہیں انہیں صحیح طور پر انویسٹمنٹ کرنے کی ضرورت ہے ‌ ‌۔

لیلة القدر کے تعلق سے بھی اس رات کی اہمیت تلاوت قرآن اور نوافل پڑھنے تک محدود رکھی گئی۔ اس رات کی وجہ فضیلت نزول قرآن کے تناظر میں ان کو تدبر قرآن اور فہم قرآن کی ضرورت اہمیت اور افادیت سے آشنا نہیں کرایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس رات کو عموماً لوگ بخشش کی رات سمجھ کر صلوة التوبة، صلوة التسبیح اور تلاوت قرآن کریم کو کافی سمجھتے ہیں حالانکہ دعا کی قبولیت کے لئے شرط ہے کہ اس کا رزق حلال ہو۔

یہ جذبہ اور عبادت و تلاوت قابل ستائش ہیں اور انشاءاللہ ایسے لوگ ضرور عند اللہ ماجور ہوں گے تاہم یہ غلط فہمی نہ پالی جائے کہ شب قدر میں صلوة التوبة اور صلوة التسبیح پڑھنے سے بہن بھائی اور پڑوسیوں کے حقوق اور دیگر لوگوں کے مادی و معنوی حقوق ( حقوق العباد) معاف ہو جائیں گے۔ ۔ ۔ فضائل اعمال ایک پہلو ہے جس میں #عبادات کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن کل قیامت کے دن بہت سارے مسلمان، وضع قطع والے اور بغیر وضع قطع والے، #معاملات میں پھنسیں گے۔

‌ آج سے رمضان المبارک کی آخری رات تک شب قدر جو ہزار مہینوں کی عبادت بھری راتوں سے زیادہ اجر والی ہے اس کی قدر کریں لیکن ان راتوں میں آپ کی مصداقیت اور آپ کی عبادتوں کی معتبریت کا دار و مدار آپ کے معاملات کی صفائی پر ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جن کے مادی حقوق ہمارے ذمے ہیں وہ ادا کریں اور اگر کوئی مجبوری ہے فی الحال استطاعت نہیں ہے تو ان بندوں اور بندیوں سے معاف کرا لیں اور معنوی حقوق جیسے کسی پر تہمت لگائی کسی کے باپ بیٹے بہن بھائی دوست احباب شوہر بیوی میں غلط بیانی کر کے تفرقہ کرایا ان سے معافی چاہیں اور دل سے اپنی خباثت کا اعتراف کرکے سامنے والے کو اپنی غلطی پر شرمندگی کا احساس دلائیں۔

افسوس آج مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ دن کے چوبیس گھنٹے کی #عبودیت کو چھوڑ کر دین کو چند بدنی #عبادت نماز فرائض سنن و نوافل اور تسبیحات و اوراد میں محصور کر رکھا ہے جبکہ ہر مومن سے مطلوب #عبودیت یعنی چوبیس گھنٹے کی زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارنا ہے یہ چوبیس گھنٹے کی زندگی میں ہماری #عبادات پنچ گانہ نماز سنتیں اور نوافل ہیں، #معاشرت گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیرکم ہو خیر لاہلہ وانا خیر لاہلى تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں ؛ بیوی بچوں کے لئے اچھا شخص ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے اچھا شخص ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امہات المومنین کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے تھے چھیڑ چھاڑ مزاح بھی کرتے

تھے ام المومنین عائشہ صدیقہ رض کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ آرائی بھی کرتے تھے اسی طرح کہا گیا کہ بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث ثواب ہے۔ جس سماج میں رہتے ہیں ان کے ساتھ بھائی چارگی کار ثواب ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر کیا گیا ہر کام عبادت ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ #معاملات ہم بنی نوع انسان سماجی حیوان ہیں جس کے تحت سماج میں رہنے والوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا لین دین ناگزیر ہے۔ اگر ہمارے معاملات لین دین ملازمت تجارت زراعت شراکت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر ہوئے تو یہ بھی عبادت ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ افسوس اور صد افسوس آج مسلمانوں کی پہچان یہ بن گئی ہے کہ یہ معاملات میں کچے ہیں۔

اس لئے جب تک مکمل دین، جو مجموعہ ہے عبادت معاشرت اور معاملات کا، کی اتباع ہم نہیں کرتے ہم مومن کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر فرمایا یایھا الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل اے ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے مت کھاؤ اسی طرح ایمان والو ناپ تول میں کمی مت کرو الی آخرہ۔ ۔ ۔ ان سب مقامات پر ایمان والے تو کہا گیا لیکن ایمان والے کام کرنے کے بعد ہم ایمان والے ہوں گے ابھی بونفائیڈ مومن ہیں یعنی ایمان والے ہونے کے راستے میں ہیں۔

جس طرح میرے دوست کا بچہ انجنیئرنگ کالج میں داخلہ لیا ہے یعنی انجنیئر بننے کے راستے میں ہے مگر ہم سب متعلقین ابھی سے ہی اسے انجنیئر کہ کر بلاتے ہیں میری بچی ابھی میڈیکل کالج کی طالبہ ہے لیکن میرے دوست احباب اور رشتے دار ابھی سے ہی اسے ڈاکٹر صاحبہ کہتے ہیں۔ مگر جب تک وہ کورس پورا نہیں کرتی وہ حقیقی معنوں میں ڈاکٹر کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ لہذا ہمیں بھی ایمان کا کورس مکمل کرنا چاہیے تاکہ حقیقی معنوں میں مومن بن سکیں صرف کلمہ توحید کلمہ شہادت ایمان مجمل اور ایمان مفصل پڑھ لینا کافی نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments