جب آپ جوان ہوں گے تو آپ کے پاس کوئی روزگار نہیں ہوگا


مثال کے طور پر، بہت سے ڈرائیور ٹریفک کے بدلتے ہوئے تمام قواعد و ضوابط سے ناواقف ہیں اور وہ اکثر ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، چونکہ ہر گاڑی ایک الگ خود مختار حیثیت رکھتی ہے اس لیے جب دو گاڑیاں ایک ہی جنکشن پر ایک ہی وقت میں پہنچتی ہیں تو عین ممکن ہے کہ ڈرائیور اس صورتحال کو درست انداز میں نہ سمجھ پائے اور حادثہ ہو جائے۔ اس کے برعکس، خود کار گاڑیاں ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتی ہیں۔ جب اس طرح کی خود کار گاڑیاں ایک ہی جگہ پر پہنچتی ہیں تو وہ حقیقت میں وہ دو مختلف خودمختار گاڑیاں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی قسم کے الگورتھم سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ اگر وزارت ٹرانسپورٹ کچھ ٹریفک قوانین کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو خود کار گاڑیاں اسی لمحے بالکل آسانی کے ساتھ اپ ڈیٹ ہو سکتی ہیں اور پروگرام میں کسی جگہ تھوڑی بہت خامی کو چھوڑ کر باقی سبھی نئے ضابطے پر عمل کرنا شروع کردیں گے۔

اسی طرح اگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کسی نئی بیماری کی نشاندہی کرتی ہے، کوئی لیبارٹری نئی دو ا تیار کرتی ہے تو ان پیشرفتوں کے بارے میں دنیا کے تمام ڈاکٹروں کو اپ ڈیٹ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کے پاس ساری دنیا میں دس بلین مصنوعی ذہین ڈاکٹر ہیں (جس میں سے ہر ایک ڈاکٹر کے ذمے ایک انسان کی صحت کی نگرانی کرنا ہے ) تو پھر بھی آپ ان سب کو ایک سیکنڈ میں اپ ڈیٹ کر سکتے ہیں اور سبھی ایک دوسرے کے ساتھ نئی دوا اور بیماری پر اپنے اپنے خیالات کا تبادلہ کرسکیں گے۔ باہمی ربط اور خود کو اپ ڈیٹ کر لینے کے ممکنہ فوائد اس قدر بڑھے ہیں کہ کچھ جگہوں پر انہیں انسانوں کے متبادل استعمال کرنے کی سمجھ آتی ہے۔ حتی کہ کچھ انسان اپنی ذاتی حیثیت میں ابھی مشینوں سے بہتر کام کرتے ہیں۔

آپ کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ انسانی نظام کو کمپیوٹر نیٹ ورک سے تبدیل ہونے کی بنا پر ہم اپنے تشخص سے محروم ہوجائیں گے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک انسانی ڈاکٹر غلط فیصلہ کرتا ہے تو وہ دنیا کے تمام مریضوں کو نہیں مارتا ہے اور وہ تمام نئی ادویات کی تیاری کو نہیں روکتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر واقعتاً تمام ڈاکٹر ایک ہی نظام سے منسلک ہوں اور اگر اس نظام سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس امر کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔

تاہم حقیقت میں ایک مربوط کمپیوٹر سسٹم سے (اپنا انسانی تشخص کھوئے بغیر ہی) رابطے کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ ایک ہی نیٹ ورک پر بہت سے متبادل الگورتھم چلا سکتے ہیں تاکہ دور دراز جنگلوں میں ایک مریض اپنے سمارٹ فون کے ذریعے نہ صرف ایک مستند ڈاکٹر سے رابطہ کر سکے بلکہ ایسے سینکڑوں مختلف مصنوعی ذہین ڈاکٹروں تک رسائی حاصل کرسکے۔ جن کی کارکردگی کا مسلسل موازنہ کیا جا رہا ہو۔ آپ کو جو کچھ بھی آئی بی ایم کے ڈاکٹر نے بتا یا ہے کیا آپ اسے پسند نہیں کرتے؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ مصنوعی ذہانت کی موجودگی میں یہاں تک ممکن ہے کہ اگر آپ ’کلی مانجرو‘ پہاڑ کی ڈھلوان پر کہیں پھنس گئے ہیں تو آپ ایک دوسری ڈاکٹر سے رائے لینے کے لیے انتہائی آسانی کے ساتھ ’بیدو‘ کے ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

انسانی معاشرے کو بہت زیادہ فوائد ملنے کا امکان ہے۔ مصنوعی ذہین ڈاکٹر اربوں لوگوں کو صحت کی نگہداشت کے سلسلے میں کافی بہتر اور سستی سہولیات مہیا کر سکتے ہیں۔ یہ سہولیات خاص طور پر وہ لوگ حاصل کرنے کے اہل ہوجائیں گے جنہیں فی الحال صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ الگورتھم اور بائیومیٹرک سینسر سیکھنے کی بدولت ایک پسماندہ ملک میں ایک غریب دیہاتی اپنے سمارٹ فون کے ذریعے کہیں بہتر صحت کی نگہداشت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے جو آج کی دنیا کے سب سے امیر ترین شخص کو جدید ترین ہسپتال سے ملتا ہے۔

اسی طرح خود کار گاڑیاں لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر خدمات مہیا کر سکتی ہیں۔ خاص طور پر ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات کو کم کر سکتی ہیں۔ آج ٹریفک حادثات میں سالانہ 1.25 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں، یہ تعداد جنگ، جرائم اور دہشت گردی سے مل کر مرنے والوں سے دگنی ہے۔ ان میں 90 فیصد سے زیادہ حادثات انسانی غلطیوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں، جیسے کوئی شراب پیتے ہوئے، میسج چیٹنگ کرتے ہوئے، سوتے ہوئے یا کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہوئے گاڑی چلا رہا ہوتا ہے۔

یو ایس ایس ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن نے 2012 میں اندازہ لگایا تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اکتیس فیصد ہلاکت خیز حادثات میں شراب نوشی، تیس فیصد تیز رفتاری اور اکیس فیصد منتشر الخیال ڈرائیور ملوث ہیں۔ خود کار گاڑیاں کبھی بھی ان میں سے کوئی کام نہیں کریں گی۔ اگرچہ ان کے اپنے مسائل اور تحفظات ہیں، اور کچھ حادثات کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے، لیکن پھر بھی تمام انسانی ڈرائیوروں کو کمپیوٹر کے ذریعہ تبدیل کر کے توقع کی جاسکتی ہے کہ سڑک پر ہونے والی نوے فیصد اموات اور زخمیوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔ اسی بات کو اگر دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو یوں ہوگا کہ خود کار گاڑی گاڑیوں کے نظام کی طرف جانے سے ہر سال دس لاکھ افراد کی جانیں بچانے کا امکان ہے۔

لہذا محض انسانی نوکریوں کو بچانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور صحت کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں آٹو میشن کے عمل کو روکنا بے وقوفی ہوگی۔ بہرحال آخر کار جس کی ہمیں حفاظت کرنی چاہیے وہ ملازمتیں نہیں انسان ہیں۔ بیروزگار ڈرائیوروں اور ڈاکٹروں کو کوئی اور کام ڈھونڈ لینا ہوگا۔

نوٹ:
تحریر میں موجود اصطلاحات کی مختصر وضاحت
لڈوڈائٹ: یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتاہے جو نئی ٹیکنالوجی کو ناپسند کرتے ہیں
ہسٹیریا: مبالغہ آمیز یا بے قابو جذبات
بائیو کیمیکل: یہ کیمیائی عمل اور مادوں سے متعلق ہے جو زندہ حیاتیات کے اندر پائے جاتے ہیں
آٹومیشن: ایسی ٹیکنالوجی جس کے ذریعے کوئی کام کم سے کم انسانی مدد سے سر انجام دیا جائے

نیورو سائنس: یہ عصبی نظام کے سائنسی مطالعہ سے متعلق ہے۔ اس کا تعلق حیاتیات کی مختلف شاخوں (اناٹومی، سالمیاتی حیاتیات، ترقیاتی حیاتیات، سائٹالوجی، ریاضیاتی ماڈلنگ اور نفسیات) کو ملا کر اعصابی نظام کی ساخت اور اس کے افعال کے مطالعہ سے وابستہ ہے۔

ہیکنگ: کسی سسٹم یا کمپیوٹر میں ڈیٹا تک غیر مجاز رسائی کا حصول
ایم آر آئی سکین: اعضا اور ٹشوز کی تفصیلی تصویر

امیگدل: یہ غصے، خوف اور غم کے جذبات کے علاوہ جارحیت پر قابو پانے کا ذمہ دار بھی ہوتاہے۔ دماغ کا یہ حصہ واقعات اور جذبات کی یادوں کو ذخیرہ کرنے میں مدد کرتا ہے، تاکہ مستقبل میں کوئی فرد اسی طرح کے واقعات کو پہچان سکے

سیریبلم : سیریبلم حسیاتی نظام، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کے دوسرے حصوں سے معلومات حاصل کرتا ہے اور موٹر موومنٹ کو منظم کرتا ہے۔ یہ رضاکارانہ حرکات (جیسے بیٹھنے کا انداز، جسم کا توازن، اعضا کا آپسی رابطہ، گفتگو وغیرہ) کو مربوط کرتا ہے

کلی مانجرو: تنزانیہ میں ایک غیر فعال آتش فشاں، یہ افریقہ کا سب سے اونچا پہاڑ ہے
بیدو: چینی ملٹی نیشنل کمپنی، یہ مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے

اس سیریز کے دیگر حصےاکیسویں صدی کے اکیس سبق – آزاد پرندہ (قسط 3)۔اکیسویں صدی کے اکیس سبق: موزارت بمقابلہ مشین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments