وبا کے دنوں میں علالت۔ ۔ ۔


چچا غالب اللہ بخشے واقعی ولی تھے۔ جنت مکانی ڈیڑھ دو صدی قبل ہی کورونا وائرس کا خطرہ بھانپ کر چاہنے والوں کو احتیاطی تدابیر تک بتلا گئے۔

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

دوسرے مصرعے کو تو سر دست جانے دیجیے کیونکہ اگر آپ فوت ہوگئے تو سمجھیے کہ سارا ٹنٹا ہی ختم ہوا اور ویسے بھی کورونا کے دنوں میں خواہ مخواہ انتقال فرما جانا ایسی کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ نہ جنازے کا وہ روایتی اجتماع ہوگا نہ چار کندھوں کی سواری میسر آئے گی نہ نوحہ گروں کا ساتھ ہوگا نہ احباب کو پلاؤ کھانے کا موقع ملے گا کیونکہ فاتحہ کا انتظام کرنے والے صاحبان خود قرنطینہ میں ہوں گے اور نہ ہی کسی کو اتنی فرصت میسر ہو گی کہ وہ تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط کی برآمدگی کرا سکے۔ اوپر خواہ مخواہ کا لفظ استعمال ہوا تو مجھے مرحوم خواہ مخواہ حیدر آبادی یاد آئے۔ (واضح رہے کہ خواہ مخواہ محض ان کا تخلص تھا۔ انتقال کے واقعے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں )

بزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیا
ایک مئیچ (میں ہی) تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو (آکر) میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا!

کیا عجب نصیب پایا حضرت نے کہ بغیر تردد کیے وبا کے دن دیکھنے سے پہلے پہلے ہی جاں سے گزر گئے۔ صد شکر کہ کورنٹائن ہونے کے صدمے سے نہیں گزرے، نہ ایکسپو سنٹر میں رکنا پڑا نہ سرکاری لیبارٹری کے رزلٹ کی انتظار کی اذیت سے گزرے۔ کس سہولت سے جان جان آفریں کے سپرد کی وگرنہ خواہ مخواہ یہ قطعہ دیوان سے نکالنا پڑ جاتا۔ دیکھیے بات کہاں سے کہاں نکل گئی، تو صاحبو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ وبا کے دنوں میں اگر اہتمام زیست کرنا مثلاً تمام حفاظتی اقدامات کی ”پین دی سری“ ( معذرت کے ساتھ کہ آج کل ہمارا برتاؤ کچھ اسی قسم کا ہے ) کرتے ہوئے بازاروں میں بھاؤ تاؤ اور ہنسی ہنسی اپنی کھال (جلد؟) اتروانا، عزیزوں رشتے داروں کی پہلے دعوتیں (بصورت سحری و افطاری) کرنا اور پھر عداوتیں کرنا، بنکوں کے باہر قطاروں میں لگ کر اقساط میں بھتہ (بل) جمع کرانا، ہاتھوں سے لے کر چہرے، صابن، ہینڈ واش کے ڈبے، نل، واش بیسن کے کناروں اور واش روم کے دروازے کی دستیوں تک کو دھونا اور وائرس کے شبے پر پھر دھونا، تاخیر سے اور بادل نخواستہ دفتر کا رخ کرنا اور وقت سے پہلے ہی ”پھٹا“ مار جانا، چہرے پر ہمہ وقت چھیکو کی صورت ماسک چڑھائے رکھنا اور ساتھ ساتھ کانوں کو اپنے مقام پر رکھنا اگر آپ کے نزدیک بڑے دل، گردے اور ”پھیپھڑے“ کا کام ہے تو پھر جان لیجیے کہ ان دنوں میں بیمار پڑنا، چھ میٹر کے فاصلے سے کسی چارہ گر (مراد ڈاکٹر) سے آنکھیں چار کرنا اور حال بیان کرنا، ہسپتال کو کوچہ جاناں فرض کرتے ہوئے کمال باقاعدگی سے دو چار چکر لگانا بھی بہادری، جانبازی اور سچ کہیں تو مردانگی سے ہرگز کم نہیں، یقین نہ آئے تو کسی سابق مرد بیمار سے اس معرکہ روح و بدن کا احوال پوچھ لیجیے۔ زبان حال سے وہ یہی پکارے گا

علالت کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں!
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

وہ آہ بھرتے ہوئے بتائے گا کہ بستر علالت پر کیسے بستر مرگ کا شائبہ ہونے لگتا ہے۔ کھانسی (اگر خشک ہو تو سونے پہ سہاگا) تراہ ہی نکال دیتی ہے۔ تھرمامیٹر آلہ قتل لگتا ہے۔ جوں جوں پارہ اوپر چڑھتا ہے دل کی دھڑکن نیچے کو جاتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک اور ستم ظریفی دیکھیے کہ موجودہ وبا کے دنوں میں لگتا ہے پوری میڈیکل سائنس ایک پیناڈول کے گرد گھومتی ہے۔ آپ لاکھ کوشش کر لیجیے ڈاکٹر کی تان اسی پر آکر ٹوٹے گی۔

مثال کے طور پر ایک مریض اور معالج کا مکالمہ دیکھیے ”ڈاکٹر صاحب بخار ہے“ ”پیناڈول استعمال کیجیے“ ”ڈاکٹر صاحب بخار کم نہیں ہو رہا“ ”دو گولی صبح دوپہر شام لے لیجیے“ ”ڈاکٹر صاحب مجھے شک ہے ملیریا ہے“ ”دیکھیں بھیا ہم موجودہ حالات میں رسک نہیں لے سکتے، تین روز تک پیناڈول ہی لینی ہوگی“ ”سر دو دو گولیاں زیادہ نہیں؟ گلے سے کیسے گزریں گی“ ”آپ ایسا کریں دس دس منٹ کے وقفے سے لے لیجیے اور بھلے پیس کر کھا لیجیے“ یعنی کہ آپ ڈاکٹر کو گولی دینے کی جتنی بھی کوششیں کر لیں مآل کار آپ کی قسمت میں یہی گولی کھانی لکھی ہے۔ ہاں اگر زیادہ جی چاہے تو ساتھ ساتھ یہ بھی گنگنا لیجیے ”ہنس کر گزار لے یا رو کر گزار لے ( حلق سے )“

یہاں پہنچے تو ہمیں اپنے ڈیجیٹل تیماردار آئے، بقول کسے
ذکر پھر چھڑ گیا عیادت کا
بات پہنچی تری بیماری تک

عزیزو جس طرح بیماری سے مفر نہیں اسی طرح تیمارداروں سے بھی جائے پناہ نہیں۔ (اس باب میں یوسفی صاحب جو فرما گئے ہیں اس سے آگے کچھ لکھنا خاکسار کے نزدیک سخت بے ادبی ہے ) ویسے تو سیانے کہہ گئے کہ گاہک، موت اور تیماردار کا کوئی پتہ نہیں کہ کب آ جائیں لیکن یہ بھی آخر وبا کے دن ہیں۔ عیادت کے نام پر بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کسی گھر سے بخار کی خبر آئی اور مضافات میں کرفیو نافذ ہوا، مجال ہے جو کوئی بھول کر بھی قریب پھٹک جائے۔

جس کو ہو جان و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں۔ پہلے فون موجود تھا تو دو منٹ کی کال کر کے مریض کا حال احوال معلوم کر لیا جاتا تھا لیکن بھلا ہو مارک زکربرگ کا جس نے ساری ڈائنامکس ہی بدل دیں۔ اب سکائپ ہے، فیس بک میسنجر ہے، سنیپ چیٹ ہے اور سب سے بڑھ کر وٹس ایپ ہے جس پر ویڈیو کال کر کے فرمائش کی جاتی ہے کہ میاں ذرا چہرہ تو دکھاؤ، اوہو رنگت تو بالکل پیلی پڑ گئی ہے۔ ( چاہے موبائل پر کوئی فلٹر ہی لگا ہوا ہو) ہائے ہائے، کیسے آٹھ روز میں آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے ہیں ( جبکہ ہو سکتا ہے کہ مریض کوئی صحافی ہو جو سال ہا سال نائٹ شفٹ میں کام کر کے بڑی محنت سے یہ حلقے، حلقہ دام میں لایا ہو) چچ چچ، کتنے کمزور ہوگئے ہو بیٹا! (حالانکہ بیٹا پہلے بھی کوئی انضمام الحق نہیں ہوگا)

کئی کرم فرما ایسے ایسے ٹوٹکے بتائیں گے کہ آپ کے (بیماری کے بعد رہے سہے ) تمام طبق روشن ہو جائیں۔ بعض ماہرین غذائیت (جو خود بد پرہیزیاں کر کے مہینے میں 31 بار شوگر ہائی کروا لیتے ہوں ) ڈائٹ پلان بھیجیں گے۔ اپنی صحت کے لیے اٹھتے بیٹھتے دوسروں سے دعا کرانے والے فضائل اعمال سے آپ کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر وظائف تجویز کریں گے۔ تو صاحبو ایک طویل داستان غم ہے۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں مرزا مرحوم نہ ہوتے تو ہم یہ دبستان کیسے کھولتے۔ اب اختتام پر پہنچے ہیں تو جہاں پناہ بہادر شاہ ظفر مدد کو آئے۔ کیا خوب فرما گئے

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو کٹ گئے زکام میں اور دو بخار میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments