اسرارِ خودی سے رموزِ بےخودی تک


یومِ اقبال  کے نام پر اس برس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتنی گفتگو ہوئی کہ ایک اندازے کے مطابق اتنا تذکرہ 139 برس میں امن کی فاختہ کا نہیں ہوا۔ اقبال بھی اپنے مخصوص انداز میں بیٹھے سوچتے ہوں گے کہ جتنی کاوش چھٹی کی بحالی کے لیے کی گئی ہے اتنی محنت تو شاید ان کی قوم نے کبھی عربی یا فارسی کا اختیاری مضمون پاس کرنے میں نہیں لگائی۔

جلاؤ گھراؤ، شہر بند،مقامی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف عرس کی چھٹیاں، شٹرڈاؤن، یومِ سیاہ اور آدھی دنیا کا غم پال کر آئے روز سکول دفاتر بند کروانے کے علاوہ یومِ مزدورپر آپ نے کبھی کسی دیہاڑی دار کو پکنک مناتے دیکھا ہو یا کشمیر ڈے پر کشمیری پلاؤ کے علاوہ کوئی اہم پیش رفت دیکھی ہو تو آگاہ کیجیے گا۔ یومِ تکبیر کے نام پر چھٹی سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو خراجِ تحسین پیش کر لیجیے۔ یومِ دفاع ہو یا پھر یومِ پاکستان ہم بھرپور ملی جذبے سے سو کر گزارتے ہیں۔ عید الاضحیٰ کی تین اور ہفتہ اتوار جوڑ کر پوری پانچ چھٹیوں کے بعد بھی دفاتر و سکولز میں حاضری قابلِ رشک نہیں ہوتی۔ عیدالفطر کی دوچھٹیاں ہوں یا عاشورہ کی، عید میلاد النبیﷺ ہو یا پھر یومِ آزادی۔۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے تعطیلات کے نام پر۔ اس کے باوجود 25 دسمبر کو ولادتِ جناحؒ اور کرسمس کی چھٹی کفایت شعاری میں نبٹاتے اعتراض ہوجائے گا۔

مشاہیر نے کب چاہا ہوگا کہ ان کے نام پر چھٹی منائی جائے اور معیشت کو اربوں کا ٹیکہ لگے۔ 21 اپریل ہو یا 11 ستمبر دونوں چھٹیاں متروک ہوئیں تو عوام ایک دو سال میں بھول بھی گئے۔ وجہ شاید ان دنوں سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ اور معاوضہ وصول کرتی ٹیموں کا نہ ہونا ہے۔
جتلایا گیا کہ ہمارے ہاں تو دنیا میں سب سے کم چھٹیاں ہورہی ہیں۔ حساب لگانے بیٹھی تو صرف سرکاری سطح پر ہی 2014 تک اٹھارہ چھٹیاں موجود تھیں۔ اس برس وفاق کو جانے کیا سوجھی کہ اقبال کے شاہینوں کو آدھے دن منہ کھول کر سونے اور بھرپور ناشتہ کر کے خاندان کیساتھ پکنک منا کر اقبالؒ کے \”رموزِ بےخودی\” پر بحث سے روک دیا گیا۔

خدا سلامت رکھے گوگل سرچ انجن کو کہ جس کی بدولت ہمارے علم میں اضافہ ہوا اور اُن اقوام پر بہت ہی ترس آیا کہ جن کے ہاں سرکاری چھٹیوں کی تعداد اس قدر کم ہے۔ ہمارا \”ازلی دشمن\” بھارت سرکاری طور پر چھ چھٹیوں کی عیاشی کرتا ہے۔ برطانیہ میں سنا ہے کہ آٹھ اور امریکہ میں فقط بارہ جب کہ چین میں دس اور نیوزی لینڈ میں شاید سات سرکاری تعطیلات ہوا کرتی ہیں۔ مگر ہمیں ان اعداد و شمار سے کیا غرض۔
شاعرِ مشرق کے یومِ ولادت پر چھٹی منسوخ ہونے کا غم یوں بھی دو گنا ہے کہ مووی اور لنچ کے سب منصوبے دھرے رہ گئے۔ جواز یہ پیش کیا جاتا رہا کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ ایک دو سے پوچھا کہ اجتہادی بصیرت، اتحاد اور مسلمانوں کی زندگی میں محنت اور عمل پیدا ہوتے دیکھنا شاید علامہ کا اصل خواب تھا؟ تو جواب میں کچھ القابات سے نواز دیا گیا۔ شکر کیا کہ چوھدری رحمت علی ایسے کسی بھی مسئلے سے مستثنیٰ ہیں کہ نہ ان کے یومِ ولادت کا مسئلہ اور نہ ہی یومِ وفات کی چھٹی وغیرہ پر واویلا۔

ایک وہ گروہ ہے جس نے اقبال کے چند اشعار کی بنیاد پر دل میں ایسی مخاصمت پال لی ہے کہ اُنہیں نیچا دکھانے کو نجی زندگی اور مشاغل کو زیرِ بحث لانے کے علاوہ اقبالیات کے نام پر ایک لفظ پڑھ کر نہیں دیکھا۔ ساری تحقیق اور تمام مطالعہ اُن کی شادیوں، بچے، گھریلو حالات اور مصائب کے گرد ہی گھومتا ہے۔ نہ کبھی  جاوید نامہ کھول کر دیکھا اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ غالب سے لے کر کارل مارکس اور جمال الدین افغانی کے ذکر سے لے کر رومی کے ساتھ افلاک کے تخیلاتی سفر میں اقبال کیا کچھ کہہ گئے۔۔ فارسی میں ہے تو شاید زبان کا مسئلہ ہو۔ اردو ترجمہ پڑھ لیجیے جناب۔ بس مخالفت برائے مخالفت۔ دلائل اور حوالہ جات علمی رہیں تو مناسب رہتا ہے۔

دوسرا گروہ فتوے کا بیانیہ ضرور دے گا، وہ الگ معاملہ کہ تینوں مساجد/مدارس کا نام معلوم نہیں ہوگا جبکہ مسالک والی بات کو ہڑپ کر جائیں گے۔ آج اقبالؒ کے خلاف مولوی دیدار علی اور مولانا احمد علی کے فتوے کہاں کھڑے ہیں؟ ہاں مگر انہی کے نام لیوا چھٹی منسوخ ہونے پر چلاتے ضرور پائے گئے ہیں کہ \”ہمارے ہیں اقبال\”۔۔۔

اُس دور میں پنجاب کی ابھرتی مڈل کلاس متضاد خیالات کی مالک سمجھی جاتی تھی اور علامہ اقبال کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا۔
بعض جگہوں پر اقبال سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کا یہ اعترافی جملہ  \”میری ایک ہی خصوصیت ہے اور وہ ہے میرا ذہنی ارتقاء۔۔۔ \” قابلِ غور ہے۔

سوچ کو جمود کا شکار نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے \”اسرارِ خودی\” میں انفرادی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچاننے کا سبق دیا تو \”رموزِ بےخودی\” میں ملت کے ساتھ فرد کا ربط، عائلی زندگی اور ریاست کا نظم و ضبط بیان کر کے فلسفہ خودی میں غرور کا عنصر تلاش کرنے والوں کو خاموش کروا دیا۔ آج کی تاریخ میں سیاستدان، دانشور، صحافی اور سوشل میڈیا پر بیٹھے بقراط فلسفہ خودی کی ضرورت پر زور دیں گے مگر اس کی روح کو سمجھ کر مفہوم بتانے اور عمل کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ رموزِ بےخودی کو یکسر نظر انداز کر کے ریاست سے رابطہ کیسے قائم رہے گا۔ یہ تذکرہ کون کرے؟

ایک اور گروہ پایا جاتا ہے جس نے \”اسلام میں مذہبی خیالات کی تشکیلِ نو\” پڑھے بنا ہی فیصلہ کرلیا ہے۔ انہیں چاہیے کہ \”محاورہ مابین خدا و انسان\” پڑھیں۔ شاید بغض سے چھٹکارہ مل جائے۔

التماس تو یہ بھی ہے کہ علامہ محمد اقبال کو وہی حضرتِ انسان رہنے دیجیے جس کو ملائکہ نے سجدہ کیا۔ خطاؤں سے مبرا کوئی بھی نہیں۔ عقیدت کے بتوں کو پوجنے کی بجائے انسانوں کے بہتر معاملات کی تقلید مناسب راہ سجھا سکتی ہے۔ ادبی تشبیہات و استعارے اور اسلوب پر فتوے لگانا اگر ناجائز ہے تو اُنہیں زمانے و حالات کے مطابق ڈھال کر سمجھنے کی سعی نہ کرنا بھی جرم ہے۔

باقی یہ کہ شیر، شاہین، کرگس،عقاب اور فاختہ و مینا کے لاحاصل موازنے سے انسانوں کی بھلائی ہونے والی ہوتی تو انسان پتے باندھ کر، پتھر رگڑ کر آگ تاپتا اور بچے جنتا رہتا۔ اور یوں سرکاری و مقامی تعطیلات والا جھگڑا بھی جنم نہ لیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments