تین ماہ کی کارکردگی رپورٹیں کیا ہوئیں؟


پنجابی محاورہ کا ترجمہ ہے :بات کہتی ہے مجھے زبان سے نکال میں تجھے گھر سے نکالوں گی۔ ہم محتاط ہیں کہ مدتوں بعد تیسری پارٹی کی حکومت آئی اب بھٹکنے کی ہمت نہیں لیکن یہ جو وقفے وقفے سے پنجاب کابینہ میں رد و بدل کی بات آتی ہے وہ آخر کچھ دن بعد کہاں چلی جاتی ہے۔ پنجاب کابینہ کی کارکردگی سنا ہے وزیر اعظم عمران خان خود دیکھتے ہیں۔ ہفتے کے روز جب وہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہیں تو گھریلو مصروفیات کے ساتھ ساتھ ایک لازمی کام پنجاب حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔

اب دو برس ہوا چاہتے ہیں جب وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ وہ ہر تین ماہ بعد وزرا کی کارکردگی رپورٹ دیکھا کریں گے لیکن مرکز اور پنجاب دونوں جگہ تین ماہ بعد کارکردگی رپورٹ مرتب ہونے کا رواج نہ پڑسکا۔ ہمارے ایک عزیز کے ماشاء اللہ درجن بھر بچے ہیں۔ کسی عزیز رشتہ دار کو ان سارے بچوں کے نام یاد نہیں رہتے۔ حیرت یہ کہ خود صاحب اولاد کو بھی کچھ بچوں کے نام یاد کرنے کے لئے حافظے پر زور دینا پڑتا ہے۔ پنجاب میں صرف تحریک انصاف کا اقتدار نہیں اس کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ق لیگ بھی اقتدار کا حصہ ہے۔

یہ الگ بات ق لیگ کا چہرہ سمجھے جانے والے راجہ بشارت اور چودھری ظہیر الدین نے الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتا۔ اب تک ذرائع ابلاغ میں صوبائی کابینہ کے جن ارکان کے نام معروف ہو چکے ہیں ان میں اسلم اقبال، حافظ ممتاز، فیاض الحسن چوہان، عبدالعلیم خان، ہاشم جواں بخت، سبطین خان، مراد سعید اور ڈاکٹر یاسمین راشد شامل ہیں۔ ہاشم جواں بخت کا نام آٹا چینی سکینڈل کی وجہ سے مشہور ہوا جبکہ سبطین خان نیب گرفتاری کے باعث خبروں میں رہے۔

مذکورہ باقی وزراکے سوا باقی 25 کے قریب وزرا کیا کر رہے ہیں، ہمیں اندازہ نہیں۔ پنجاب 12 کروڑ کی آبادی کا صوبہ ہے۔ یہ آبادی دنیا کے پچاس ساٹھ ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ ہزاروں سال کی قابل فخر ثقافتی زرعی اور سماجی رنگا رنگیوں کی بات نہیں صرف پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے کی بات کر لیتے ہیں۔ اس وقت کی، جب پنجاب رنجیت سنگھ کے جانشینوں کے ہاتھ سے نکلا اور انگریز قابض ہو گئے۔ انگریز کو پنجاب میں وسائل کی بہتات نے متاثر کیا۔

انہیں افسوس ہوا کہ وہ اس سرسبز و شاداب اور مردم خیز علاقے پر ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح پہلے قبضہ کیوں نہ کر سکے۔ پنجاب 1841 ء اور 1849 ء کے درمیانی عرصے میں سکھوں اور انگریزوں کے مابین لڑی جانے والی لڑائیوں کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات میں شامل ہوا۔ ابتدائی معرکے کے بعد جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع کا برطانوی ہندوستان کے ساتھ الحاق کر دیا گیا جبکہ سکھ سلطنت میں شامل باقی ماندہ علاقوں کا انتظام ریجنسی کونسل کو سونپ دیا گیا جسے لاہور میں متعین انگریز ریذیڈنٹ کنٹرول کیا کرتا۔

یہ انتظام ناکام ثابت ہوا۔ سکھوں اور انگریزوں کے مابین ایک جنگ گجرات میں لڑی گئی۔ 21 فروری 1849 ء کو انگریز فتحیاب ہوئے۔ افغان سرحد سے لے کر دہلی تک پھیلا پنجاب ان کے مکمل قبضے میں آ گیا۔ 1901 ء میں انگریز نے پانچ سرحدی اضلاع کو پنجاب سے الگ کر کے صوبہ سرحد بنا دیا جو اب کے پی کے کہلاتا ہے۔ دس سال بعددہلی کو پنجاب سے الگ کر دیا گیا اور انگریز نے کلکتہ کی جگہ دہلی کو دارالحکومت بنا لیا۔ انگریز پنجاب پر صرف فوجی زور پر نہیں بلکہ اخلاقی برتری کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے تھے۔

ضلعی افسران کوشش کرتے کہ شدید محنت اور منصفانہ برتاؤ کے ذریعے دیہاتی عوام کا دل جیت سکیں۔ انگریز افسر جان بیمزر نے افسر کی فرض شناسی اور مستعدی کا نقشہ کھینچا ہے : ”ایک ضلعی افسر سخت جان شخص ہوتا، ہے یہ بوٹوں اور روایتی لباس میں ملبوس، زیادہ تر گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا۔ دن رات کام کرتا۔ جہاں وقت ملتا کھانا کھا لیتا۔ ایک لمحے کے نوٹس پر کہیں بھی جانے کے لئے تیار رہتا۔ گاؤں کے اکٹھ کے سامنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے فیصلہ کر دیتا۔

گاؤں کی دیوار کے ساتھ کسی درخت کے نیچے اپنے گھٹنے پر کاغذ رکھ کر فیصلہ لکھ دیتا۔ ”یہ ہے اس پنجاب کے حکمرانوں کے کام کرنے کی تصویر جو انگریز کا پنجاب کہلاتا تھا۔ انگریز نے نہری نظام قائم کیا جس سے 26 ملین ایکڑ اراضی سیراب ہوئی۔ مویشی پال خانہ بدوشوں کا علاقہ لائل پور انگریزوں نے منڈیوں اور چکوک میں بانٹ دیا۔ اگلے تیس سال میں اس کی آبادی چند ہزار سے 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ انگریز کی آباد کی گئی نہری کالونیوں میں دس لاکھ پنجابی کسان آباد ہوئے۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کی فوج میں 7 لاکھ 50 ہزار پنجابیوں نے حصہ لیا۔ زراعت اور ملازمت نے صوبے کی معاشرت اور سیاسی زندگی کو خوشگوار اثرات سے ہمکنار کیا۔ جب محدود جمہوریت کو متعارف کرایا گیا تو فوجی ملازمین اور زمینداروں کو غیر معمولی سیاسی اثرورسوخ حاصل ہوا۔ مسلمانوں میں سکندر حیات اور خضر حیات ٹوانہ نے یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی عروج حاصل کیا۔ آج کا پنجاب محرومیوں کا مارا ہے۔ پنجابی اپنے ہی علاقے میں بے بس اور اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔

اقتدار میں وہ لوگ آتے ہیں جن کے اجداد انگریز کے اتحادی تھے لیکن انگریز جیسے محنتی اور دیانتدار نہیں۔ کوئی یہ بتائے کہ اتنی بڑی سلطنت کو ٹکڑے کر کے اب تک کیا فائدہ ہوا۔ یہ بھی بتا دیا جائے کہ بلوچستان اور سندھ کے دیہی علاقے تو پنجاب میں شامل نہیں پھر ان کی محرومیوں کا الزام پنجاب پر کیوں۔ پنجاب میں چند سڑکوں اور انڈر پاسز کے سوا سابق حکومتوں نے کیا بنایا۔ اراکین پنجاب کابینہ کی تاریخ سے واقفیت اور انتظامی صلاحیت کا ظہور دو سال سے نہیں ہو سکا۔

معلوم نہیں پنجاب کی ترقی کے لئے جدید سوچ اور ٹیکنالوجی کب سامنے آئے۔ اس بار وزیر اعظم صوبائی کابینہ کے گمنام ارکان سے ترقی کا مطلب ضرور پوچھیں۔ میں نے ایک وزیر سے ویسے پوچھا تھا، اس نے کہا: ”جی، آئی ٹی میں ہم بہت سے منصوبے لا رہے ہیں“ ۔ ایک اور بات، تین ماہ کی کارکردگی والی کافی فائلیں جمع ہو چکی ہیں۔ ایک نظر اس طرف بھی۔
بشکریہ روزنامہ 92


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments