عدالت نے پاکستان تو کھول دیا مگر۔ ۔ ۔


ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ ملک کے اہم معاملات کے بارے میں عدالت مداخلت کر رہی ہو اور جو فیصلے اولاً صوبوں کو آپس میں اور ثانیاً وفاق کو اپنے اختیارات استعمال کر کے روبہ عمل لانے چاہئیں تھے۔ ان پر عمل درآمد کرانے کے احکامات عدالت عظمیٰ کو صادر کرنا پڑ رہے ہیں۔ بہت سارے دیگر معاملات کے علاوہ ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں بھی ملک کی جمہوری حکومتیں لیت و لعل سے کام لیتی رہیں تھیں اور جب ٹال مٹول کا سلسلہ ماہ و سال کی منزلیں طے کرتا ہوا سال ہا سال میں تبدیل ہوتا چلا گیا تو عدالت عظمیٰ ہی کو حکم دینا پڑا کہ ملک میں آئین و قانون کے مطابق مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے جائیں بصورت دیگر عدالت کوئی راست قدم اٹھانے پر مجبور ہو جائے گی۔ عدالت کا یہ حکم تمام صوبوں کی مجبوری تو ضرور بن گیا لیکن صوبوں نے بھی اپنی انا کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کے قوانین میں ایسی ایسی ترمیمات کیں کہ مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے اختیارات کسی محکمے کے چپڑاسی کے برابر بھی نہ رہے بلکہ ان کی حیثیت محکموں کے خاکروبوں سے کم ہو کر رہ گئی۔

مارکیٹیں کھول دینی چاہئیں یا نہیں، کھولنی چاہئیں تو کون کون سی کھولی جائیں اور کن کن کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جائے۔ کھول بھی دی جائیں تو ان کے سروں پر خود تراشیدہ قوانین کی تلواریں اس بری طرح لٹکا کر رکھی جائیں کہ جب مرضی ہو سر قلم کیا جا سکے، جیسے اقدامات نے ایک جانب عوام کی عام زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیا تھا تو دوسری جانب تاجروں کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھا ہوا تھا۔ ایک جانب یہ ذہنی دباؤ تو دوسری جانب صوبوں اور وفاق کی رسہ کشی کاروبار کھولوں نہ کھولوں کے بیچ ضدم ضدی نے پاکستان کے عوام کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو اس بات کا از خود نوٹس لینا پڑا اور اسے حکومتوں کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ آنے کی صورت میں یہ حکم سنانا پڑا کہ پورے پاکستان کی مارکیٹوں کو فوری طور پر نہ صرف کھولا جائے بلکہ ان کو کم از کم عید تک اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اپنے کاروبار کو جاری رکھ سکیں۔

خبروں کے مطابق چیف جسٹس نے حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”دکانیں کھول دی جائیں، ہفتے اور اتوار کو دکانیں بند کرنے کا حکم آئینی نہیں، حکومتوں کے کاروبار بند رکھنے کے فیصلے کالعدم قرار دیے جاتے ہیں۔ دکانداروں کو ڈرایا دھمکا یا نہ جائے، بندشوں کے بہانے ان سے رشوتیں طلب نہ کی جائیں، عوام حکومتوں کے غلام نہیں ہوا کرتے لہٰذا انھیں قرنطینہ سینٹروں میں قید نہ کیا جائے“ ۔ دوران سماعت کئی ایسے ریمارکس بھی آئے جو حکومتوں کے غلط اقدامات کی جانب واضح اشارہ تھے جس میں یہ بھی کہا گیا کہ کیا کورونا کچھ دن چھٹیاں کرتا ہے اور کچھ دن ڈیوٹیوں پر واپس آ جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے نہ صرف کاروبار کھولنے کی اجازت دینے کے احکامات جاری کیے بلکہ کئی معاملات میں حکومت سے سخت سوالات کے جوابات بھی طلب کیے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے عوام پر 500 ارب روپیہ خرچ کیا ہے تو عدالت کا کہنا تھا کہ 500 ارب روپیہ بہت ہوتا ہے۔ اگر اتنی رقم کورونا کے مریضوں پر خرچ کی جاتی تو اب تک سارے مریض کروڑ پتی بن چکے ہوتے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ پیسہ آخر جا کہاں رہا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوبے آئین اور قانون کے اتنے وسیع اختیارات رکھتے تھے کہ وہ اپنے اپنے فیصلوں میں حرف آخر تھے اور وفاق ان کے مقابلے میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا کہ وہ صوبائی حکومتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے سکے تو کیا اس کے پاس عدالت میں جانے کا راستہ بھی نہیں رہ گیا تھا جس وہ اپنے سر کسی قسم کی کوئی ذمے داری لینا نہیں چاہتا تھا؟ اس بات کا جواب تو وفاق یا وفاق کا کوئی ترجمان ہی دے سکے گا لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے ساتھ ہی پورے ملک کے چھوٹے بڑے تمام بازار کھل گئے۔

وہ تمام لوگ جو اب تک عید کی ضروری خریداری نہیں کرپائے تھے۔ انھوں نے بازاروں کی جانب دوڑ لگا دی جس کی وجہ سے وہ تمام احتیاطی تدابیر جو کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ضروری قرار دی گئیں تھیں، وہ تار تار ہو کر رہ گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب ہو پاتی ہیں جس نہیں۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے وبا ایک عفریت بن کر ٹوٹ پڑتی ہے تو اس کا ذمے دار کس کو قرار دیا جائے گا۔ وفاق کو، صوبوں کو، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یا پھر سپریم کورٹ کو؟ ، یہ ایک اور نئی بحث ہے جو چھڑنے والی ہے جس کا انجام بھی حسب سابق چیخ و پکار پر ہی اختتام پذیر ہونے کے علاوہ شاید ہی کچھ اور ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments