دم، دھڑ اور پنجے کے بغیر شیر


کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں ایک نامور پہلوان کی طاقت کے بڑے چرچے تھے۔ وہ پہلوان جس اکھاڑے میں گھسا مخالف کو چت کر کے ہی باہر نکلا۔ اس پہلوان کی ہر جگہ ایک دھوم مچی ہوئی تھی کوئی بھی اس نامور پہلوان کو چیلنج کرنے سے گھبراتا تھا۔ ایک دن پہلوان کے دوستوں نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بازو پر ایک شیر کی تصویر کندہ کرائے اس طرح جب وہ اکھاڑے میں اترے گا تو بازو پر بنے شیر کو دیکھ کر مخالف پر ہیبت طاری ہو جائے گی۔

مشورہ صائب تھا پہلوان نے حامی بھر لی اور ایک کاریگر کے پاس پہنچا جو اس کام کا ماہر تھا اور اس سے کہا کہ میرے بازو پر ایک ہیبت ناک شیر کی تصویر کندہ کردو۔ کاریگر نے حامی بھرتے ہوئے اس کو بٹھایا اور تصویر بنانے کے لئے جملہ لوازمات اکٹھے کرنے لگا۔ بالآخر تصویر بنانے کا مرحلہ شروع ہوا اور پہلوان کے بازو پر جب سوئی چبھی تو پہلوان کی حالت دیکھنے والی تھی۔ خیر جب معاملہ برداشت سے باہر ہوا تو پہلوان نے پوچھا کہ بھائی کیا بنا رہے ہو تو جواب ملا کہ شیر کی دم بنا رہا ہوں تو پہلوان نے کہا کہ یار دم کو رہنے دو باقی کا شیر بنا دو۔

کاریگر نے حامی بھری اور کام دوبارہ شروع کر دیا پھر جب تکلیف حد سے بڑھی تو پہلوان نے پوچھا کہ اب کیا بنا رہے ہو تو بنانے والے نے کہا کہ شیر کا دھڑ بنا رہا ہوں تو پہلوان نے درد سے کراہتے ہوئے کہا کہ دھڑ رہنے دو باقی کا شیر بنا دو۔ کاریگر نے سن کر دوبارہ کام شروع کر دیا اب جب سوئی چبھنے کی تکلیف حد سے بڑھ گئی تو پوچھا کہ اب کیا بنا رہے تو کاریگر نے کہا کہ شیر کے پنجے بنا رہا ہوں تو پہلوان جی نے سسک کر کہا کہ پنجے رہنے دو باقی کا شیر بنا دو۔ یہ سنکر کاریگر نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا تو پہلوان نے پوچھا کہ کیا ہوا تو کاریگر نے کہا کہ بھائی دم، دھڑ اور پنجے کا شیر میں نے کبھی نہیں دیکھا جس نے دیکھا ہو اس سے جا کر بنوا لیں۔

2018 کے عام انتخابات سے قبل الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص سوچ کو پروان چڑھایا گیا اور عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ ان کے مسائل کا سبب ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں۔ اس بات کو تکرار کی گئی کہ موجودہ سیاسی قیادت چونکہ معاشی طور پر کرپٹ ہے تو اس لیے ان کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک کے ان کرپٹ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سے جان نا چھڑائی جائے۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی منظم انداز میں کردار کشی کی گئی۔ پاکستان کی سیاست کو نئے رخ پر ڈالا گیا اور پہلی بار سیاسی ایشوز پر بحث مباحثہ کی بجائے یہ انتخابی مہم کردارکشی پر تشکیل دی گئی اور ستم یہ کہ کردار کشی کے لئے باقاعدہ طور پر میڈیا گروپس بنائے گئے۔

ان عام انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ایک مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کی دلیل کے طور پر کے پی کے میں تحریک انصاف کی 2013 سے 2018 تک صوبائی حکومت کی کارکردگی کو پیش کیا گیا جس کے تحت یہ بتایا گیا کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں کے پی کے کی حکومت کی پرفارمنس شاندار رہی۔ کپتان نے لاہور کے جلسہ میں 11 نکاتی منشور پیش کر دیا۔ اگر یاد کریں تو انتخابات سے کچھ دن قبل تک یہ بات گویا طے ہوچکی تھی کہ اگلا وزیراعظم کپتان ہوگا۔

کپتان کی تقاریر سے عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل کی امیدیں اور توقعات آسمان کو چھو رہی تھیں۔ نئے پاکستان کا خواب اپنی تکمیل کے قریب تھا اور بالآخر 25 جولائی کا سورج طلوع ہوا اور عوام کے ووٹوں سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اور بلاشبہ 25 جولائی کی شام کو پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں عمران خان جیسے طاقتور پہلوان نے ہر مخالف سیاسی پہلوان کو چت کر دیا۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑی جیت تھی۔ اور بلا شک و شبہ ملک اب محفوظ ہاتھوں میں تھا۔

اب اکھاڑے میں مخالفین پر دھاک بٹھانے کے لئے شیر کا نشان بازو پر کندہ کرانا تھا۔ مطلب انتخابی وعدے پورے کرنے تھے۔ 50 لاکھ سستے گھروں کی سوئی چھبی تو احساس ہوا کہ تکلیف ہو رہی ہے ایک کروڑ نوکریوں والی سوئی سے زیادہ تکلیف ہونے لگی تو اس کو بھی معطل کرنے کا سوچ لیا۔ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی والی سوئی سے درد میں اضافہ ہونے لگا تو اس کو بھی رد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈھائی کروڑ بچے جو سکول سے باہر تھے اور وہ بچے جن کی بہتر جسمانی نشوونما کے لئے مطلوبہ خوراک مہیا کی جانی تھی کی سوئی کی چبھن سے سوائے تکلیف کے کچھ حاصل نا ہوا۔ آئی ایم ایف نہیں جاؤں گا سے لے کر کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا تک کی سوئیوں کی تکلیف بیان سے باہر ہے۔

مدعا یہ نکلا کہ کاریگر نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا کیونکہ یہ تو طے ہے کہ بغیر دم، دھڑ اور پنجے کے شیر کی تصویر مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ پہلوان یہ سب بنوانے کے لئے تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ بات گھوم پھر کر دوبارہ اسی بند گلی میں پہنچ گئی کہ زوال پذیر جی ڈی پی، قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم، کمزور اور بے سمت طرز حکمرانی سے کیا عوام کے مسائل حل ہوں گے؟ کاریگر شاید اس غبارے میں ہوا بھرنے کی آخری کوشش کر رہے ہیں اور ہر اہم عہدے پر اپنے بندے لگا رہے ہیں کہ شاید حالات سنبھل جائیں مگر قوم کے دو سال اس ہڑبونگ میں ضائع ہو گئے بقیہ تین سال میں دیکھتے ہیں کہ شیر کی تصویر کیسے مکمل ہوتی ہے۔ جو کہ یقینی بات ہے کہ نہی ہو سکے گی۔

ویسے ارباب اختیار دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا ملک چل رہا ہے؟ ان کو ضد چھوڑ کر سنجیدگی سے قومی حکومت سے متعلق سوچنا چاہیے۔ کیونکہ کورونا کے سبب ان حالات میں انتخابات تو ممکن نہیں ہیں ویسے آپ آج نہیں تو کل میری اس بات سے اتفاق ضرور کریں گے کہ کورونا حکمران اشرافیہ کے لئے رحمت ہی ثابت ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments