استاد رئیس خان…. پنچھی بانورا چاند سے پیت لگائے


\"muhammadستار نواز استاد رئیس خان صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ سے ہماری پہلی ملاقات 1993 میں ہوئی ۔ امریکن قونصلیٹ کراچی نے آپ کو ویزہ نہیں دیا۔ ہم اس وقت امریکن ایمبیسی اسلام آباد میں ملازم تھے۔ ہمارے سابقہ باس اور دوست ارجمند اظہر نے آپ کو ہمارے پاس بھیجا تا کہ کچھ کیا جا سکے۔ آپ کا ستار تو پہلے ہی سنا ہوا تھا اورعاشق بھی تھے اتنے قریب پا کربہت خوش ہوئے لیکن یہ خوشی فوراً کافورہو گئی۔ کیوں؟ آگے چل کر بتاتے ہیں۔

امریکی بھی بڑے بھولے ہیں۔ آپ پہلے بھی امریکہ جا چکے تھے ۔ سب کو معلوم تھا آرٹسٹ ہیں۔ اس وقت نو گیارہ بھی نہیں ہوا تھا۔ امریکہ کو ہر داڑھی والا دہشت گرد بھی نظر نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی ویزا نہیں دیا۔ خان صاحب ہمارے گھرمع اہل و عیال تشریف لائے۔ ہماری مرحوم والدہ بلقیس خانم کی پرستار تھیں۔ انہیں اپنے گھر پر دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ فرحان جو اب اچھا ستار بجا رہا ہے اس وقت بالکل بچہ تھا۔ وقت بہت تیزی سے پرواز کر جاتا ہے!

ہم نے بات کی اپنے باس سے اور اس نے خان صاحب کا کام کروا دیا۔ بس اتنا کہا کہ ویزہ کراچی سے مسترد ہوا ہے وہیں دوبارہ درخواست دینی پڑے گی اور کام ہو گیا۔ خان صاحب کافی دن اسلام آباد رہے۔ ہم نے ان سے چار لمبی نشستیں کیں۔ دل کا حال سنا۔ ان دنوں مرحوم ڈیوڈ لاک وڈ (اتائی ستار نواز) اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی میں بطور سربراہ کا م کرتے تھے۔ ان کی بیگم شہناز لاک ووڈ سے علیک سلیک تھی۔ ان کا ایک ہاﺅس کنسرٹ کروانے کی پوری کوشش کی جو کہ ناکام ثابت ہوئی کیونکہ شہناز پیسے انتہائی کم آفر کر رہی تھیں۔ خان صاحب پھر بھی بجانے کو تیار ہو گئے ہماری وجہ سے۔ لیکن پھر میزبان پیچھے ہٹ گیا۔

\"rais-khan\"

خوشی فوراً کافور ہونے کا سبب کچھ ایسا ہے کہ خان صاحب سے جب ان کے فن کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اپنے گھرانے اور ستار کا ذکر کرنے کے بجائے آفتابِ ستار استاد ولایت خان کے بارے میں انتہائی نازیبا گفتگو شروع کردی۔ ہم ان سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جو آپ کے ستار کو دوسروں سے جدا کرتی ہیںاور ان کا جواب ہے : ’ولایت خان فلاں ہیں اور یہ کہ ولایت خان ڈھمکاں ہیں!‘ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ ہماری عمر اس وقت صرف 23برس تھی۔ موسیقی سیکھنا بھی شروع نہیں کی تھی۔ پس منظرکچھ معلوم نہیں تھا۔ خان صاحب کی اس وقت کی وضاحت، ہماری عمر اور تجربے کا بڑھنا، ہمارا بھارت جانا اور نامی گرامی شخصیات سے ملنا، موسیقی سیکھنا اور یو ٹیوب کی بدولت بہت ساری چیزوں کی جانکاری کے بعدصورتِ حال واضح ہوئی کہ کیوں یہ ولایت خان صاحب کو سب کے سامنے برا بھلا کہتے ہیں۔

 ولایت خان بچپن میں ےتیم ہو گئے تھے ۔ سگے ماموں ہیں رئیس خان کے۔ چار سال رئیس خان کے گھر رہے اوران کے والد محمد خان صاحب سے ستار سیکھا ۔ بقول رئیس خان ولایت خان اس بات سے مکر گئے ۔ تفصیل اس لنک میں ہے۔

لیکن بھارت میں کئی بزرگوں نے ہمیںیہ بتایا کہ ولایت خان صاحب نے کبھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ انہوں نے محمد خان صاحب سے بھی تعلیم لی ہے۔ بس یہ ہے ٹنٹہ ماموں بھانجے کے بیچ۔ باقی بھارت میں بھی ایک سے ایک چیزے باز بھانڈ مراثی موجود ہیں جو دونوں پر جگتیں کستے ہیں۔ ان میں سے ایک سہیل یوسف ہے صابری خان کا بیٹا ۔ اس سے ملاقات کراچی میں ہوئی صفیہ بیگ، جو کہ موسیقی کی ایک چھوٹی سی تنظیم ’سمپورنہ‘ چلاتی ہیں، کے گھر۔ بقول سہیل ماموں اور بھانجھے کا دل ایک ہی لونڈیا پر آ گیا تھا ۔ ماموں نے بھانجے کو حکم دیا کہ تو پیچھے ہٹ جا۔ بھانجہ بولا ماموں ہم تیرے سے کم نہیں، مقابلہ کر لے ۔ اورپھر ایک ستارکا مقابلہ ہوا جس میں رئیس خان نے ولایت خان کو دن میں تارے دکھا دئے لیکن آخر میں ماموں ایسی تان اٹھے کہ بھانجے کا ستار بند ہو گیا اور پھر ماموں نے ایک تاریخی جملہ بولا: ’بیٹا گرو تو پھر گرو ہی ہوتا ہے نا!‘۔ جب سہیل ہمیں یہ بتا رہا تھا تو ہم اس کا چیزہ لے رہے تھے یہ تاثر دے کر کہ ہم بہت غور سے سن رہے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ بکواس کر رہا ہے اور تصدیق بھی ہو گئی !

\"vilayat-khan\"

سچ کیا ہے اللہ ہی جانتا ہے! مگر اتنی سی بات تو بچے کو بھی معلوم ہوتی ہے کہ گھر کے جھگڑے گھر میں ہی طے کیے جا تے ہیں۔ انہیں ہر ایرے غیرے تو دور کی بات گھر کے بھیدی کے سامنے بھی بیان نہیں کیا جاتا۔ لیکن آفرین رئیس خان پر۔ سٹیج پرپورے خاندان کی ’ڈرٹی لانڈری ‘دھونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 2011 میں ہم ان کا کنسرٹ سننے لوک ورثہ گئے۔ خان صاحب سٹیج پر بیٹھتے ہی شروع ہو گئے : ’ہم کسی اتاوا پتاوا کو نہیں مانتے!‘ ہم دعوی سے کہہ سکتے ہیں کہ جو خان صاحب نے کہا وہ دو چار لوگوں کے علاوہ سب کے سر کے اوپر سے گذر گیا ہو گا۔ لیکن یہ بات کہہ کر انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ بڑا ستار نواز بننے کیلئے بڑے ظرف کا ہونا ضروری نہیں۔ ’اتاوا پتاوا‘ طنز تھا استاد ولایت خان صاحب پر۔ ولایت خان صاحب اپنے آپ کو اتاوا گھرانے سے جوڑتے ہیں جبکہ رئیس خان بضد ہیں کہ اتاوا کوئی گھرانہ نہیں۔ گھرانہ صرف ان ہی کا ہے یعنی میوات۔ رنجش اس بات کی کہ ولایت خان میوات کا نام کیوں نہیں لیتے۔ دکھ کی بات یہ کہ جب اتاوہ پتاوہ ہو رہا تھا اس وقت ولایت خان صاحب ابدی نیند سو رہے تھے۔ اتاوا پتاوا والی بات پر ہر سمجھدار انسان نے نفرین کی۔ اور سرسوتی دیوی یعنی قدرت نے توسٹیج پر ہی سبق سکھا دیا۔ ایمن بجا رہے تھے اور بہت رنگ جما ہوا تھا اچانک تار ٹوٹ گیا اور سارا طلسم ٹوٹ گیا۔ تار ٹوٹنے کے بعد رئیس خان نے فرحان کا ستار ہاتھ میں لیا۔ جو ستار فرحان کے ہاتھ میں گونگا تھا وہ خان صاحب کے ہاتھ میں بولنے لگ گیا ۔ ایک بوڑھا کئی بیماریوں میں مبتلا لیکن ہاتھ ستار پر ایسا باکمال۔ ایمن کا لطف تو آیا مگر تار ٹوٹنے کے بعد وہ رنگ دوبارہ نہ جم سکا۔

تار ٹوٹنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں مگر طلسم دوبارہ قائم نہ ہو یہ واقعی سزا ہے۔ خان صاحب نے ساری عمر اپنے بزرگوں کی سرعام بے عزتی کی ۔ پاکستان میں ان کے بہت سارے پرستار تھے ہماری طرح جو ان سے متنفر ہو گئے اسی وجہ سے۔ یہ 77برس کے ہو گئے لیکن عقل آج تک نہیں آئی۔ ولایت خان صاحب کو دنیا چھوڑے بارہ برس بیت گئے مگر رئیس خان اب بھی انہیں گالیوں سے ہی نوازتے ہیں۔ ہمار ے دوست محفوظ کھوکھر اپنی موسیقی کی کتاب پیش کرنے ان کے پاس چلے گئے ۔ کبھی زندگی میں پہلے نہیں ملے اور چھوٹتے ہی خان صاحب نے ولایت خان صاحب پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اب محفوظ کو سر پیر تک نہیں پتہ اس خاندانی مخاصمت کا! بزرگوں کو سرعام بے عزت کرنے کی کڑی سزا انہیں قدرت نے دی۔ انہیں خود مجبور کر دیا کہ بھارت جیسے فن اور فنکاروں کی پوجا کرنے والے ملک کو چھوڑ کر پاکستان آ بسیں جہاں فن کاروں کو بھانڈ اور مراثی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بقول ان کے بلقیس خانم کو بمبئی کی آب و ہوا راس نہیں آئی اور یہ پاکستان آ بسے اور کچھ کر کرا کر پاکستانی شہریت لے لی۔ ایک بار فون پر جب ان سے ان کا حال پوچھا تو جواب یہ شعر پڑھ کر دیا: ’کیا پوچھتے ہو حال میرے کاروبار کا۔۔آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں!‘ بھارت اتنا بڑا ملک ہے۔ کراچی اور بمبئی کی آب و ہوا میں کچھ فرق نہیں۔ اگر سمندری ماحول راس نہیں آیا تو انسان دہلی بس سکتا تھا۔ بھوپال جیسی پرفضا جگہ بھی رہ سکتا تھا۔ یقینا اصل بات کچھ اور ہوگی یہ آب و ہوا والی منطق ہماری سمجھ سے باہر ہے۔

\"????????????????????????????????????\"

بہت جذباتی ہونے کے ناطے خان صاحب بولتے پہلے سوچتے بعد میں ہیں ۔ اخبارِ جہاں کو کسی انٹرویو میں یہ کہہ بیٹھے کہ بھارت نے میری منت سماجت کی کہ پاکستان چھوڑ کر دوبارہ ہندوستان آ جاﺅں لیکن میں نے اس پیشکش پر لات مار دی۔ غالباً یہ اپنے جذبہِ حب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہو ں گے پاکستانی سرکار کو ۔ لیکن بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ کیا حماقت کی۔ ایسا بیان بھارت کو ناراض کر دے گا اور جو چار پیسے وہاں جا کر کمائے جاتے ہیں اس سے بھی جائیں گے۔ ہماری منت سماجت کرنے لگے کہ بھائی تم ایک تردید شائع کروا دو۔ ہم نے عرض کی خان صاحب ہم تو انگریزی اخبارات میں لکھتے ہیں۔ آپ نے انٹرویو دیا اردو میگزین کو اور ان ہی کو تردید بھیجیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے بڑک مار ہی دی ہے تو قائم تو رہو۔ روزی روٹی تو سب کو مل ہی جاتی ہے۔

خان صاحب انتہائی سریلا ستار بجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ستار گا رہا ہو۔ لیکن معلوم نہیں کیا بیماری ہے جوانی سے کہ خوب سریلا بجانے کے بعد بے سرا گانا گانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا ستار مزید بہتر ہو سکتا تھا اگر یہ ساری توجہ اسی پر رکھتے۔ ہمارے بانسری نواز دوست عارف جعفری جو کہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ڈائریکٹر تھے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد اس کے مشیر ہیں ان کے ستار کے بارے میں فرماتے تھے کہ بہت ہی میٹھا ستار ہے مگر پندرہ منٹ کے بعد ختم ہو جاتا ہے یعنی یہ راگ کو پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں پھیلا سکتے ۔ اگر کسی کو یقین نہ ہو تو ہمارے ساتھ بیٹھ جائے ہم پورا راگ ان کا بجایا ہوا نوٹیشن میں لکھ دیں گے۔  دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ مگر یہ سچ ہے کہ پندرہ منٹ میں یہ جادو کر دیتے ہیں۔ اور مینڈھ بہلاوے انتہائی سریلے اور شہد کی طرح شیریں ہوتے ہیں۔ مگر جیسے ولایت خان صاحب یا شاہد پرویز راگ کو دہرائے بغیر ڈیڑھ گھنٹہ بجا لیتے ہیں یہ ان کے بس کا کام نہیں۔ دوسرے انہوں نے ساری عمر لے کاری میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ ستار میں یہ کام پنڈت روی شنکر کے بعد کیا شاہد پرویز نے۔ شاہد بھائی نے تو روی شنکر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ شاہد بھائی نے لے کاری بھی lyricalکی۔ شاہد بھائی ایک مکمل ستار نواز اور کمپوزر ہیں۔ ایسا رئیس خان کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا ۔ اگر خان صاحب اس بات کو نہیں مانتے (جو کہ یہ کبھی نہیں مانیں گے اور یہ اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں مانتے) تو اپنی کوئی ایسی پرانی ریکارڈنگ یو ٹیوب پر ڈال دیں جس میں انہوں نے راگ کی ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ سلسلے وار بڑھت کی ہو اور لے سے کھیلے ہوں۔ ہمارا طبلہ نواز دوست تاری طبعیت میں ایک عظیم مسخرہ ہے۔ ہر محفل میں فخر سے بتاتا ہے کہ کہاں کہاں خان صاحب کو بے تال کر چکا ہے۔ بمبئی میں ایک صاحب ہیں دیپک راجہ۔ ولایت خان صاحب کے قریبی دوست۔ جب ہم نے ان سے یہ پوچھا کہ ولایت خان صاحب کا کیا کہنا تھا رئیس خان کے ستار کے بارے میں۔ بولے ولایت خان صاحب کہتے تھے کہ اسکے ہاتھ بہت ہی خوبصورت ہیں لیکن ساری خرابی دماغ میں ہے!

رئیس خان کو ہم نے2005میں ایک گھسے پٹے ایوارڈ سے نوازا جس کا نام ہے پرائڈ آف پرفارمنس۔ یہ ایوارڈ دیتے ہوئے گدھے اور گھوڑے میں فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ طبلے میں ہی لے لیں۔ استاد شوکت حسین جیسے عظیم فنکار کو ملا اور انکے انتہائی نالائق شاگردشبیر حسین جھاری (جو اتفاق سے ہمارا بے حد پیارا اور بے تکلف دوست بھی ہے) کو بھی ملا ہوا ہے۔ یہ اس لیول کے ستار نوازتھے کہ اگر آج بھارت میں ہی رہ رہے ہوتے تو بہت ہی زیادہ عزت اور شہرت پاتے۔ کم از کم پدما بھوشن تو ضرور ہی پا لیتے۔ ایسے ملک میں آ گئے جس نے بڑے غلام علی خان جیسی عظیم شخصیت کی قدر نہیں کی اور انہیں بھارت جانے پر مجبور کردیا ۔ روشن آرا بیگم بمبئی سے لالہ موسی آ ئیں اور انکا فن ختم ہی ہو گیا۔ اور ادھر بھارت کو دیکھیں۔ ولایت خان صاحب کو پدما شری دیا گیا۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ پدما بھوشن دیا گیا، پھر انکار کر دیا۔ پدما وی بھوشن دیا گیا مگر پھر انکار کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ جو ایوارڈ تم نے ہر ایک کو دئے ہوئے ہیں وہ میں نہیں لے سکتا۔ میرا ستار ان سے بہت بڑا ہے۔ اور بھارتی سرکار کو ولایت خان کی بات ماننا ہی پڑی۔ بھارتی صدر فخرالدین احمد کو ایک آرڈیننس جاری کرنا پڑا جس کے تحت ’آفتابِ ستار‘ نامی ایوارڈ جاری کرنا پڑا جو ولایت خان صاحب کو دیا گیا۔ یہ ان ہی کیلئے بنایا گیا تھا اور انکے علاوہ نہ کسی کو ملا اور نہ ہی ملنے کا چانس ہے مستقبل میں۔ ایسے آرٹسٹ کو سب کے سامنے برا بھلا کہنا چاند پر تھوکنے کے سوا کچھ بھی نہیں جو کہ رئیس خان صاحب کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments