بحیرہ چین کے جزائر پر امریکہ اور چین میں کشیدگی


سب سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر بحیرہ جنوبی چین اور وہاں موجود جزائر کا قضیہ کیا ہے کیونکہ یہی وہ خطہ ہے جو آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چین کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے جو کسی بھی وقت ہمیں ایک بڑی عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ جنگ سیاسی غلبہ حاصل کرنے، دنیا کی معاشی ترقی میں سے بڑا کیک حاصل کرنے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگ ہے۔ یہاں تک بحیرہ جنوبی چین کا تعلق ہے تو اس سمندر کا شمار دنیا کی چند مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں ہوتا ہے۔

یہ چین، تائیوان، فلپائن، برونائی ملائشیا اور ویت نام سے وابستہ، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے متعدد علاقائی تنازعات کا شکار علاقہ ہے۔ یہ قضیہ دہائیوں سے حل طلب ہے لیکن اب ایشیا میں چین۔ امریکہ تعلقات کی گرم مہری کے حوالے سے فلیش پوائنٹ بنا ہوا ہے۔ اس تنازعے کے بارے میں چین، ویت نام، فلپائن، تائیوان، ملائشیا اور برونائی تاریخ اور جغرافیہ کے مختلف حوالوں پر مبنی، مختلف جڑے ہوئے ادوار میں جزوی یا کلی طور پر، مختلف سمندری حدود پر اپنے اپنے حق کا دعوی رکھتے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین کے ساتھ بارڈر رکھنے والے مختلف ممالک کی جغرافیائی ترتیب کچھ یوں ہے : عوامی جمہوریہ چین، تائیوان، فلپائن، مالدیپ، برونائی، انڈونیشیا، سنگا پور اور ویت نام۔

چین بحیرہ جنوبی چین کے اسی فیصد سے زائد علاقے کا دعویدار ہے، جبکہ ویت نام پارسل ؔجزائر اور اسپریٹلیؔ جزائر پر خودمختاری کا دعوی کرتا ہے۔ فلپائن جزیرہ نما اسپریٹلیؔ اور ساحلی علاقے اسکاربورو شوال ؔ کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، جبکہ برونائی اور ملائشیا سمندر کے جنوبی حصوں اور اسپریٹلی ؔکے کچھ جزیروں پر خودمختاری کا دعوی رکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے، ان دعویداروں نے سمندری چٹانوں، جزیروں اور کم سمندری بلندی کے علاقوں اور ساحلی پٹیوں سمیت سمندری خصوصیات کے مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔

چین کے دعوؤں کی بنیاد ”نائن۔ ڈیش لائن“ ہے، جو ایک جغرافیائی مارکر ہے، جس کی بنیاد پر چین اپنے دعوے پر زور دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جاپان کی شکست کے بعد، جمہوریہ چین نے قاہرہ ؔ اور پوٹسڈم ؔکے اعلامیوں کی بنیاد پر جاپانیوں نے ہتھیار ڈالنے کے بعد، پارسلز، پراٹاس اور اسپریٹلی جزیروں کی چین کے حق میں دست برداری کا دعوی کیا تھا۔ ”نائن۔ ڈیش لائن“ اصل میں ایک گیارہ ڈیش پر مشتمل لائن تھی جو پہلی بار دسمبر 1947 ء میں اس وقت کی جمہوریہ چین کی حکومت نے بحیرہ جنوبی چین میں اپنے دعوؤں کو جواز پیش کرنے کے لئے شائع کردہ نقشے پر دکھائی تھی۔ یہ لائن چینی سرزمین سے 2000 کلومیٹر دور تک انڈونیشیا اور ملائشیا کے قریبی پانیوں تک پہنچتی ہے۔

یہ خطہ کیوں اہم ہے؟

بحیرہ جنوبی چین ایک اہم تجارتی راستہ ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ کے ساتھ جوڑتا ہے، جب کہ اس کی سمندری پٹی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ عالمی جہاز رانی کا ایک تہائی حصہ، جس کی مالیت 3.37 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد ہے، بحیرہ جنوبی چین سے گزرتا ہے۔

چین کی تیل کی تقریباً 80 فیصد درآمدات انڈونیشیا میں آبنائے ملاکا کے راستے آتی ہیں اور پھر یہ بحری جہاز چین تک پہنچنے کے لئے بحیرہ جنوبی چین کی گزر گاہ کا استعمال کرتے ہیں۔

عالمی مائع قدرتی گیس کی تجارت کا تقریباً 40 فیصد بحیرہ جنوبی چین کے راستے منتقل ہوتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو چین کی کل تجارت کا 39.5 فیصد سے زائد بحیرہ جنوبی چین سے گزرتا ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سمندر قدرتی وسائل کے بڑے ذخائر، جیسے قدرتی گیس اور تیل سے بھرا پڑا ہے۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا تخمینہ ہے کہ اس علاقے میں کم از کم 11 بلین بیرل معدنی تیل اور 190 ٹریلین مکعب فٹ قدرتی گیس اور زیادہ سے زیادہ 22 ارب بیرل معدنی تیل اور 290 کھرب مکعب فٹ گیس یہاں موجود ہے۔ اس کی مقدار مختلف بھی ہو سکتی ہے کہ امریکیوں کے اپنے اندازے ہیں اور چینیوں کے اپنے۔

بحیرہ جنوبی چین دنیا کی ماہی گیری کا 10 فیصد حصہ بنتا ہے، جس کی وجہ سے یہ سمندر ی حصہ، سینکڑوں لاکھوں افراد کے کھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

چین نے 2013 کے بعد سے اسپریٹلی جزائر میں 3200 ایکڑ سے زائد ایک نئی سرزمین پیدا کی ہے یعنی ایک مصنوعی جزیرہ تخلیق کیا ہے۔

جب کہ دعویدار ریاستیں بحیرہ جنوبی چین کے مختلف حصوں کی سمندری پٹی میں ماہی گیری کے حقوق، خام تیل اور قدرتی گیس کی تلاش اور ممکنہ استحصال سے بچنے اور اہم بحری جہازوں کے اسٹریٹجک کنٹرول کو، برقرار رکھنے یا اس کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

اس تنازعہ میں امریکہ کا کیا کردار ہے؟

امریکہ نے مشرقی ایشیا میں وسیع پیمانے پر سکیورٹی کے وعدے کر رکھے ہیں جب کہ بحیرہ جنوبی چین سے متصل متعدد ممالک، جیسے فلپائن، سنگاپور اور ویت نام امریکہ کے اتحادی ہیں۔ مزید برآں، بحیرہ جنوبی چین عالمی سپلائی چین میں اہم تجارتی راستہ ہے، جسے اس خطے میں سامان تیار کرنے والی امریکی کمپنیاں استعمال کرتی ہیں۔

اگرچہ امریکہ سرکاری طور پر کسی بھی دعویدار کے ساتھ ایک سیدھ میں نہیں ہے، لیکن، اس مقصد کو چیلنج کرنے کے لئے، اس خطے کو واشنگٹن، ان ممالک کے دعوؤں کو ضرورت سے زائد خیال کرتا ہے۔ امریکہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ”فریڈم آف نیوی گیشن“ کے اصول کا استعمال کرتے ہوئے مختلف آپریشنز کا انعقاد کرتا رہتا ہے اور اپنے زیر دست پانیوں میں تجارتی بحری جہازوں کو مفت گزرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔ 2018 کے موسم گرما کے دوران، برطانوی اور فرانسیسی افواج نے بھی ان متنازعہ پانیوں میں اسی طرح کی کارروائیاں کی تھیں۔ ابھی چند دن پہلے مئی 2020 ء میں بھی امریکہ اور آسٹریلیا نے مل کر چین کو دھمکانے کے لئے یہاں کچھ کارروائیاں کی تھیں۔

حالیہ پیش رفت

چین نے فلپائن اور ویتنام دونوں کے مابین تناؤ کو حال ہی میں ٹھنڈا کیا ہے، یہاں تک کہ چین نے مارچ اور اپریل 2018 میں بحری ہتھیاروں اور مشقوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بحیرہ جنوبی چین میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کیا تھا۔ دریں اثنا، چین متنازعہ پانیوں میں تعمیر کردہ مصنوعی جزیرے پر فوجی اور صنعتی چوکیوں کی تعمیر بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ حالیہ برسوں میں اپنی فوجی سرگرمیوں اور بحری فوج کی موجودگی میں بھی تیزی لا رہا ہے جس میں نیویگیشن آپریشنوں کی آزادی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپؔ نے اس طرح کی کارروائیوں کی اہمیت، اور بحیرہ جنوبی چین تک فری اور کھلی رسائی کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ جب کہ مئی 2017 سے اپریل 2020 ء تک، ریاستہائے متحدہ امریکہ اس خطے میں فریڈم اف نیویگیشن کے اصول کی آڑ میں چھ مختلف اپریشنز کا انعقاد کر چکا ہے۔

عالمی کورونا وائرس کی وبائی مرض کے عین وسط میں، چین بحیرہ جنوبی چین میں اپنی موجودگی بڑھانے میں مسلسل مصروف ہے۔ اس بار اس کی توجہ کا مرکز ویت نام اور فلپائن کے وسط کے درمیان، بحیرہ جنوبی چین کے وسط میں اسپریٹلی جزائر اور پارسل جزائر کے دو متنازعہ جزیرہ نما ہیں۔ ابھی چند دن پہلے، بیجنگ نے یک طرفہ طور پر اس علاقے میں 80 جزیروں اور دیگر جغرافیائی خصوصیات کا ناموں کو چینی ناموں سے تبدیل کیا ہے جس سے ہمسایہ ممالک کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے جنھوں نے اسی علاقے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ اس سے پہلے 1983 ء میں بھی اپنے طور پر چین 287 جغرافیائی خصوصیات کے چینی نام رکھ چکا ہے۔

صورتحال پیدا کس طرح ہوئی؟

چین بار بار امریکہ پر ”اشتعال انگیزی“ کا مظاہرہ کرنے پر تنقید کرتا رہا ہے، جبکہ اس نے حالیہ برسوں میں اپنے دعووں کا زیادہ زوردار انداز میں دفاع کرنا شروع کیا ہے۔ اسی سال، بیجنگ نے اپنے زیر تسلط اسپریٹلی جزیرے میں حاصل کردہ کچھ خصوصیات کی بنا پر زمینی بحالی کی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے، جس سے انسانی تعمیر شدہ زمینی سطح کے رقبے میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ان پر فوجی تنصیبات تعمیر کی گئی ہیں۔

اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق دوسرے دعویداروں یا امریکہ کے ساتھ کسی بڑے تصادم کو متحرک کیے بغیر، بر سر زمین حقائق کو آہستہ آہستہ تبدیل کرنے میں چین نے کامیابی حاصل کی ہے۔ چین نے دیگر جزائر میں سے ایک جزیرے، ووڈی ذئی لینڈ سنشاؔ، پر ایک نیا شہر قائم کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں چینی سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔

جولائی 2016 میں، فلپائن کی درخواست پر، دی ہیگؔ میں ایک بین الاقوامی ٹریبونل کے ایک فیصلے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ چین کے پاس سمندر پر کوئی ”تاریخی حقوق“ حاصل نہیں ہیں اور اس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ متعدد ممالک کی طرف سے دعویٰ کی گئی کچھ چٹانوں کو قانونی طور پر علاقائی دعوؤں کی بنیاد کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ بیجنگ نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”ایسے کسی فیصلے کا پابند“ نہیں ہے۔

چین کی طرف سے سمندر پر خود مختاری کے صاف دعوی اور سمندری تخمینوں کے مطابق 11 بلین بیرل غیر مستعمل تیل اور 190 ٹریلین مکعب فٹ قدرتی گیس کی موجودگی نے مخالف دعویداروں برونائی، انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام کو چین کے خلاف دشمنی کے مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔

جب کہ چین نے اپنے دعوے کو برقرار رکھا ہے۔ چین کے مطابق، بین الاقوامی قانون کے تحت، غیر ملکی عسکریت پسند، خصوصی معاشی زون میں انٹیلی جنس اکٹھا کرنے والی سرگرمیاں، جیسے جاسوسی پروازیں، نہیں کر سکتے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے مطابق، دعویٰ کرنے والے ممالک کو، اقوام متحدہ کے قانون برائے سمندری قانون (یو این سی ایل او ایس) کے تحت، سمندر میں خصوصی معاشی زونز میں نیوی گیشن کی آزادی ہونی چاہیے اور انہیں مبینہ دعویداروں کو کسی بھی قسم کی فوجی سرگرمیوں کے متعلق مطلع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

جنوب مشرقی ایشین ممالک نے روایتی طور پر اس خطے کی اہم معاشی اور فوجی طاقت چین کے ساتھ دوطرفہ حل تلاش کرنے کی رائے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود، چین کے علاقائی دعوؤں کے خلاف تاریخی فیصلے کے ایک سال بعد، فلپائن کے صدر روڈریگو ڈورٹے ؔنے چین کے ساتھ تنازعہ کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اسی طرح چین کے خلاف سب سے زیادہ بولنے والے نقاد ویت نام نے بھی اپنے موقف کو نرم کر دیا ہے۔ اپریل 2018 میں، حکومت نے کہا تھا کہ وہ ”بین الاقوامی قانون کے مطابق“ علاقے میں تنازعات کے حل کے لئے چین کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار ہے۔ لیکن باقی ممالک ابھی بات چیت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

سفارتی ذرائع سے تنازعات کو حل کرنے میں چینی اور جنوب مشرقی ایشیائی رہنماؤں کی ناکامی بھی سمندری تنازعات پر قابو پانے والے بین الاقوامی قوانین کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اسلحے کے استحکام کو غیر مستحکم کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ علاقائی مبصرین اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ امریکی جنگی جہاز کی آمد کے بعد امریکہ کی یہاں موجودگی خطے میں صرف تناؤ کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کے کوئی علاقائی دعوے نہیں ہیں۔

تہذیبوں کا تصادم

امریکہ اور چین دو مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے، امریکہ اور چین کے مابین ہونے والی جدوجہد ”تہذیبوں کے تصادم“ کی ایک بہت گہری علامت ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ ساز سیموئل پی ہٹنگٹن ؔکے مطابق انسانی تنازعہ، روایتی طور پر نمایاں، زیادتی پر مبنی اور استحصالی کلچر کے ایک نئے مرحلے میں تبدیل ہو گیا ہے اور غیر مغربی دنیا کی اقوام بین الاقوامی ترتیب کی تشکیل نو میں تیزی سے نمایاں کھلاڑی بن چکی ہیں۔ چین کی زیر قیادت کنفیوشین ثقافت ان میں نمایاں ہے۔ ممکنہ طور پر چین کے اور مغرب کے مابین موجودہ مقابلہ، امریکہ کی سربراہی میں، بحیرہ جنوبی چین میں کھیلا جا رہا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ اور چین کے درمیان سخت اور نرم طاقت کا تصادم بنیادی انقطاع کے عوامل ہیں۔ دونوں ممالک خود کو ”غیر معمولی“ قوموں کے طور پر دیکھتے ہیں، جیسے ان کے پاس انسانیت کی رہنمائی کرنے کا کوئی ”آسمان سے ارسال شدہ“ مشن موجود ہو۔

چین اور امریکہ دونوں، سمندر کے قانون کی طرح، بین الاقوامی اصولوں اور قواعد کی ڈھٹائی سے اس طرح ترجمانی کرتے ہیں جس سے ان کے قومی مفاد کو تقویت ملتی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سخت اور نرم طاقتور تصادم کی موجودگی میں مقابلے کے تمام لوازمات موجود ہیں کیونکہ دونوں ہی بین الاقوامی نظم و ضبط اور تشکیل کو اپنا حق اور تقدیر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے تصادم ناگزیر ہے۔

ممتاز امریکی اسٹریٹجک مفکر اور کتاب ”ڈیسٹائنڈ فار وار“ کے مصنف گراہم ایلی سن ؔنے چین کو باور کرایا ہے کہ قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر ایک ایسا ”آرڈر ہے جس میں امریکہ قواعد بناتا ہے اور دوسرے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں“ ۔

اگر ان کی خواہشات ان کے قومی مفاد کے حصول کو ناکام بناتی ہیں تو موجودہ بین الاقوامی اصول اور قواعد کا اطلاق ان دونوں ممالک پر نہیں ہوتا۔

چین ”اصولوں پر مبنی آرڈر“ پر لیکچر دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کرتا ہے کیونکہ ان کے مطابق امریکہ نے تمام قوانین کو توڑا ہے۔ صدر ذی جن پنگؔ ثقافتی شناختوں اور عالمی نظریات کے اس بنیادی انحراف کو تسلیم کرتے ہیں۔ کسی انسانی تباہی سے بچنے کی کوشش میں، صدر زی جن پنگ ؔنے صدر براک اوباما ؔ کو بڑی طاقتوں کے مابین نئے تعلقات کی بابت بات چیت کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن امریکی پالیسی ساز، کچھ مستثنیات کے ساتھ، چین کے ساتھ تعلقات میں درپیش چیلنج کی نوعیت اور شدت کو سمجھنے میں اب تک ناکام رہے ہیں کہ کس طرح چین کے ساتھ نئے تعلقات کے لئے گفتگو کا سامنا کیا جائے۔

ایلی سن ؔنے کے مطابق کچھ امریکی پالیسی ساز ”بنیادی طور پر غلط“ حکمت عملی پر چپکے ہوئے ہیں کہ ”معاہدہ کر لیں، لیکن رکاوٹوں کے ساتھ“ اور ایک واماندہ امید کے ساتھ کہ ”چین ایک آزاد خیال جمہوریت بن جائے گا، یا کم از کم امریکی زیر قیادت بین الاقوامی نظم میں ایک ماتحت مقام قبول کر لے گا“ ۔ جب کہ، ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ کسی ایک بڑے چینی مفکر نے کہا تھا کہ ”چین یہ چاہتا ہے کہ اسے بطور چین تسلیم کیا جائے نہ کہ اسے مغرب اعزازی ممبر کی حیثیت دے۔“

امریکہ کے لئے، چین کے ساتھ نئے تعلقات بنانے کے لئے بات چیت کرنے کے متبادل راستے تاریک ہیں۔ ایک بڑے امریکی دانشور نے استدلال کیا ہے کہ واشنگٹن کو اپنے گھر کے پچھواڑے میں چین کے ساتھ محاذ آرائی میں ملوث کرنے کی ایسی کوئی بھوک نہیں ہے، جہاں اسے بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑے اور وہ جلد جیت بھی نہ سکے۔

در حقیقت، ان دونوں ممالک کا، سخت ترین ٹکراؤ، واضح طور پر، ان کے سیاسی اور معاشی نظاموں اور ان کے مقصد تخلیق کے بالکل برعکس ہے۔ ثقافتوں اور ذاتی تصورات کے اس تصادم کا نتیجہ خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک کہ جن کو ان دونوں ممالک کے مابین عمومی رقابت اور خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین کے معاملہ میں ٹکراؤ پر، فوری طور پر متاثر ہونے کا امکان ہے، خاص طور پر وہ اس معاملے کو بہت احتیاط سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن قضیہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ چین کے مشرقی سمندر پر بھی تنازعات موجود ہیں۔

ان تمام تنازعات پر گراہم ایلی سن ؔنے اپنی کتاب میں مختلف منظر ناموں پر روشنی ڈالی ہے جس میں ایک سائبر وار بھی ہے جس کا ذکر اگلے مضمون میں ہو گا۔

(جاری ہے )
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری کے لئے گراہم ایلی سن کی کتاب ”ڈیسٹائنڈ فار وار“ اور ساؤتھ چین مارننگ پوسٹ اخبار کے متعدد آرٹیکلز سے مدد لی گئی )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments