یقین کا سفر


کبھی کبھی انسان خود کو وقت کے بہاؤ کے سپرد کر دیتا ہے کیونکہ وہ وقت سے لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے۔ اور پھر آخرکار ایسا وقت آ جاتا ہے کہ انسان ہمت ہی ہار جاتا ہے بے بس ہو جاتا ہے لڑنا چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے یا تو انسان یقین کی حد کو چھو کر کامیاب یو جاتا ہے اور یہ یقین کی حد اور یہ کامیابی اسے اس حقیقت سے بھی روشناس کراتی ہے کہ وہ جتنا بھی اس وقت سے لڑے گا منزل ایک ہی ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔ انسان جو بھی منصوبے جو بھی لائحہ عمل تیار کر لے بے سبب ہیں اگر اس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو۔ اور اسی یقین کو آ زمانے کے لئے ہی تو اللہ نے اس دنیا میں ہر انسان کے لئے اپنی اپنی نوعیت کی آزمائش رکھی ہے۔

کوئی انسان خود میں مکمل نہیں ہوتا ہے ہر انسان یہاں اس دنیا میں کسی نہ کسی مجبوری میں گھرا ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ تو خود ساختہ ہیں یعنی انسان کی خود سے ہی بنائی ہوئیں وہ یہی سوچتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو لوگ کیا کہیں گے یا پھر وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس طرح سے وہ اپنے سکون کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔

اسی طرح بہت ساری اور مجبوریاں ہیں جو کہ ہر انسان اس فانی دنیا میں برداشت کرتا ہے جیسا کہ کچھ لوگوں کے پاس اس دنیا میں سب کچھ ہوتا ہے عزت، شہرت، مال و دولت تو جسمانی طور پر کمزوری ان کے لئے آزمائش بنے گی۔ اسی طرح کچھ انسان دولت کی چاہ میں ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ کامیابی ہی اسی میں ہے کہ امیر ہو جائے۔ کچھ کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کے نہیں ملتی۔ کوئی اولاد جیسی نعمت سے محروم ہے اور کوئی اسی اولاد کو کوڑے کی ڈھیر کے سپرد کر آتا ہے۔

اب اگر یہ ساری مشکلات اور پریشانیاں حل ہو جائیں اور ہر انسان کو وہ سب ملے جس کی وہ چاہ کرتا ہے تو پھر تو انسان کا یقین تک پہنچنے کا سفر ہی نہیں ہوگا جو کہ اس دنیا کا مقصد ہے اگر انسان کی تمام خواہشات یہاں پوری ہو جائے تو وہ اللہ تک رسائی کے رستے سے ہی بھٹک جائے۔ کیونکہ انسان بڑا ہی خودغرض پایا گیا ہے وہ مشکلات اور مصیبتوں میں تو اللہ کو یاد کر لیتا ہے مگر یہی انسان جب اس کو تمام آسائشیں حاصل ہو تو سجدہ شکر بھی ادا نہیں کرتا ہے۔

تو ہم اپنی چھوڑی ہوئی بات پر واپس آتے ہیں کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں کہ ہر انسان کو امتحان سے گزرنا پڑے گا اور اسی امتحان سے وہ گزر کر اپنی آخری اور دائمی منزل کا تعین کرے گا۔ اور بحیثیت مسلمان ہمارا یہی کامل ایمان ہے کہ ہماری کامیابی جنت کے حصول میں ہے اور اس جنت تک پہنچنے کا رستہ دنیا کی آزمائشوں سے ہو کر جاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ ان آزمائشوں سے نکلنے کا یا پھر ان کو ہرانے کا کہ انسان یقین کی حد کو چھو جائے۔

اور یہ حد تب حاصل ہوگی جب ہم انسان اللہ کی دی ہوئی انگنت نعمتوں کا شکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا موازنہ اپنے عمل سے کریں یقیناً یہی ہمیں یہ یقین دینے کے لئے کافی ہوگا کہ جتنا ہمیں عطا کیا گیا ہے میں تو اس کے لائق بھی نہیں تھا اور یہی اسے اس کے منزل کے قریب کرے گا۔ جب انسان اس حد خو پالے تو وہ بے حد پرسکون ہو جاتا ہے۔ اسے اس دنیا کی بے معنی چکاچوند متاثر نہیں کرتی۔ نہ تو اسے بے ضمیر دولت کی چاہ اپنے شکنجے میں جھکڑ سکتی ہے اور نہ شہرت۔ وہ بس اس بات پر صبر اور قناعت اختیار کرتا ہے کہ یہ دنیا نظر کے دھوکے کے سوا کچھ نہیں اور یہاں کوئی کتنا ہی کامیاب کامران ہو جائے آخرکار اسے موت کا ہی سامنا کرنا پڑے گا اور یہ سب دولت، شہرت یہیں رہ جائے گا۔

نظیر اکبر آبادی کیا خوب کہتے ہیں :
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں، مت دیس بدیس پھر مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا کوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر، کیا آگ دھواں کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لعل زمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی پھر آن بنے جاں اوپر
نقارے نوبت بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن
ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن
کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بند چیلا نیک چلن
کیا مندر مسجد تال کنویں کیا گھاٹ سرا کیا باغ چمن
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
جب مرگ بنا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سینے اور ٹانکے گا
ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا
اس جنگل میں پھر آہ نظیر اک بھنگا آن نہ جھانکے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

پلوشہ لطیف
Latest posts by پلوشہ لطیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments