ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے


روایات کے بت کدے میں پوجا پاٹ کرتی سرد مہری کے ماتھے پہ ابھرتی شکنوں کی چبھن اس کے بدن میں اس وقت پیوست ہوتی گئی جب پہلوٹی کی اولاد بیٹی کو جنم دینے پہ پہلا خطاب کرماں جلی اس کے نام کے ساتھ جڑ گیا۔ اس سے ملتے جلتے خطابات کی ناگواریوں کے نہ تھمنے والے سلسلوں کے سامنے بے بسی کے بند باندھتی، درگاہوں اور خانقاہوں کی بالکونیوں میں منتوں کے چراغ جلاتی، درباروں و آستانوں کے بوڑھے درختوں تلے دوپٹے کے دامن پھیلاتی، آستانہ نشینوں کے دیے گئے تعویذ کے طوق چھپا چھپا کے گلے میں سجاتی، گھر کے در و دیوار پہ دوسروں کے بیٹوں کی تصویریں لٹکاتی، اور ان لٹکتی بے جان تصویروں پہ نظریں جما جما کے اپنی روح کی گہرائیوں میں اتارتی، محلے کی سیانیوں کے بتائے ہوئے ٹونے ٹوٹکوں کو احتیاط و توجہ سے آزماتی، سبز ستارے والی باجی کے مشوروں سے لے کر پرائیویٹ ڈاکٹرز کی بے لگام فیسوں کی بھینٹ چڑھتی، نئی نویلی دلہنوں کے آراستہ حجروں سے راندہ قرار دی جاتی، نحوستوں کے ٹیکے ماتھے سے صاف کرنے میں تب جا کامیاب ہوئی جب درد زہ کی چیخوں سے بغلگیر ہوتی ننھے کی چیخ مبارک ہو مبارک ہو کی صداؤں میں تحلیل ہوتی، یقینی و غیر یقینی کی کشمکش میں تنے ہوئے خدو خال پر مسکراہٹیں تھوپتی، دبی دبی سسکاریوں کی خار دار مسافتوں پہ چلتی نڈھال مرادوں کو منزلوں سے تعبیر کرتی، مامتا کی پیشانی پر کرماں والی بخت بھری کے الفاظ مرتسم کرتی، ماسٹر منظور کے گھرانے میں مسرتوں کے پھول کھلاتی، کاشف کے روپ میں پروان چڑھنے لگی۔

کھلتی باچھوں سے مبارکباد دینے والوں کا منہ میٹھا کراتے اس گھرانے کی تو دنیا ہی بدل گئی۔ میاں بیوی کی زندگی موسم بہار کی اٹکھیلیاں کرتی فضاؤں کے دوش پہ سوار ایک ہی مقصد کے پیچھے دوڑنے لگی۔ کہ بیٹے کی تعلیمی رفتار میں درکار وسائل کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ یہی کسک اسے گاؤں کے دوسرے بچوں سے قدرے ممتاز کرتی پرائیویٹ کالج کے واجبات تک اٹھانے لگی۔ ناز و نعم کے سلسلے جہاں بات بات پہ صدقے واری کے کلمات کا ورد کرتے وہاں اخلاق و تہذیب کے تربیتی مراحل بھی دوش بہ دوش کارفرما رہے۔

گریجوایشن سے فوراً بعد فرض شناسی سے سرشار بیٹے نے بابا کے ان کندھوں کو سہارا دینے کی کاوش کی جو دو بیٹیوں کے جہیز کے بوجھ تلے دبے تھے۔ یوں عملی زندگی کا آغاز ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے شعبے کو بطور ای ایم ٹی یکم مارچ دو ہزار سترہ کو جوائن کر لیا۔ سلیقہ مندی کی خوشبوؤں میں گندھے عادات و اطوار سے جلد ہی ڈیپارٹمنٹ کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ زندگی کو آوازیں دیتے افراد کے ساتھ مثالی حسن سلوک روا رکھنا تو جیسے گھٹی میں پڑا ملا تھا۔

حیات و موت کی سرحدوں کے بیچ تڑپتوں کی طرف دست مسیحائی بڑھانا اس کا منصبی فریضہ ٹھہرا۔ اسی تناظر میں مورخہ چھبیس اپریل کو ہیڈ انجری کے مریض کو موت کے پنجوں سے چھڑاتے ہوئے جیسے ہی ریسکیو کی گاڑی شہر لاہور میں داخل ہونے لگی ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آ گئی۔ لمحوں میں زندگی کی سرحد پہ کھڑے کاشف بحر کشمکش میں اپنی زندگی پانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ اڑتالیس گھنٹے جاری رہنے والی جنگ میں بالآخر موت جیت گئی۔

قارئین کرام۔ ریسکیو ون ون ٹو ٹو پنجاب ایمرجینسی ایکٹ دو ہزار چھ کے تحت ہنگامی حالات جیسے آگ بھڑک اٹھنا، حادثہ، یا کسی کو اچانک سے کوئی خرابی صحت کا معاملہ، ان حالات میں ہنگامی بنیادوں پہ طبی امداد کے ضرورتمند زخمی یا مریض کوئی بھی کہیں سے موبائل سے ون ون ٹو ٹو ڈائل کرنے پہ لمحوں میں کارکردگی دکھانے والا ہے۔ اس کا آغاز لاہور میں ایک کامیاب پائلٹ پراجیکٹ کے بعد پنجاب کے تمام اضلاع تک توسیع پہ منتج ہوا۔

بلا تشکیک ادارے کی تربیت، نظم و نسق، اور ان کے نتیجے میں خدمات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ آئے دن بڑھتے ٹریفک حادثات کے نتیجے میں تڑپ تڑپ کے جان دیتی انسانیت کے لیے یہ ادارہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ لیکن ان تمام تعریف و ستائش کے بعد راقم یہ کہنے پہ مجبور ہے کہ اس ادارے میں کام کرنے والے خدمتگار، جانباز اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پہ رکھے کبھی آگ میں کود رہے تو کبھی ڈوبتوں کو بچانے تلاطم خیز لہروں سے نبرد آزما۔

ادارے کے منتظمین اور خاص طور پر رضوان نصیر صاحب ڈائریکٹر جنرل کی تجربہ کار مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ ریا ہے کہ ان جوانوں کے لیے کوئی سروس سٹرکچر تک نہیں۔ ان جانیں قربان کرنے والوں کے پسماندگان کو کیا ملتا ہے۔ کیوں نہیں سوچا گیا۔ کہ ان کے یتیم ہونے والے بچوں کا کیا ہوگا۔ یہ سوالات ڈائریکٹر جنرل کی کارکردگی کے ماتھے پہ مرتسم ہوتے ہیں کہ لائق اتنا کہ تمام ادوار کی آنے والی حکومتیں اس کے عہدہ جلیلہ کی طرف نگاہ اٹھانا گناہ سمجھیں۔ مگر اس کے ادارے کے جانباز محض چند ہزار روپوں پہ ملازمت کرنے پہ مجبور کیوں۔ جب تمام شعبہ جات کے ملازمین کے لیے سروس سٹرکچر ہے تو ان سے سلوک ناروا چہ معنی دارد؟

آج سرگودھا کے نواحی گاؤں میں کاشف کی میت جب پہنچی تو یار و اغیار کی برستی آنکھیں مرحوم کی خدمات کو آنسوؤں کے خراج پیش کر رہی تھیں۔ جنازے کی پائنتی پکڑے کاشف کی ماں بین کرتی کہہ رہی تھی کہ ابھی تو ان منتوں منوتیوں کے شمار بھی پورے نہیں ہوئے۔ دونوں بہنوں کا مان منوں مٹی تلے دب گیا۔ اس جام شہادت نوش کرنے والے جوان اور ایسے کئی جاں بکف مجاہدین کے لیے ڈیپارٹمنٹ نے کیا کیا۔ پانچ فائر فائٹرز کی یاد میں اقوام عالم سالانہ بنیادوں پہ انہیں خراج دینے کے لیے ایک دن مقرر کر رہی ہیں اور ہم۔ ایوانوں میں بیٹھنے والوں سے کاشف کی ماں فریاد کناں ہے کہ واحد سہارا تو چھن گیا۔ اب وہ اس کی بیٹیوں کے مہندی کو ترستے ہاتھ کیا خالی رہیں گے۔ بابا کی کمزور آواز بمشکل اسلم کولسری کا یہ مصرع دہرا رہی تھی۔
ایسے تو کبھی چھوڑ کے بیٹے نہیں جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments