اے بازگشت ماضی


ہر گزرے دن کے ساتھ وقت کیسے ریت کی طرح پھسلتا جاتا ہے اور ہم اس وقت کی انگلی تھامے بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کا فاصلہ طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ تمہارے اس کٹھن سفر میں جب کچھ معصوم احساسات پختگی کے درجے کو چھوتے ہوئے سفر کے پر پیچ و خم برداشت کر نے سے قاصر رہتے ہیں تو تمہارے دشوار گزار راستے کے کسی ان چاہے موڑ پر بڑی بے دلی سے دم توڑ دیتے ہیں۔ پھر جب ان مردہ احساسات کی مٹی پر نئی تبدیلیاں جنم لینے لگتی ہیں تو تم ایک گزرے موسم میں بدل جاتے ہو، جسے پھر سے جینا ناممکن ہے اور نئے موسم کا انتظار بے حد مشکل۔

اور جب نیا موسم اپنی تمام تر رعنائیوں اور مسرتوں سمیت زندگی کے کینوس میں اتر کر اس میں نئے رنگ بکھیرنے کی کوشش کرتا ہے تو تمہارے سحر میں کھوئے ہم ماضی پرست لوگ اس خوشگوار تبدیلی کا خیر مقدم کرنے کی بجائے بے زاری کی تصویر بنے اس سے منہ موڑ پھیر لیتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے کب تک انحراف کیا جا سکتا ہے کہ تغیر میں ہی ثبات ہے!

آج شب موسم کی پہلی بارش بہت جوش سے برس رہی ہے۔ اے ماضی! تم تو جانتے ہو، کچھ برس پہلے تک میرے لیے ان بارشوں میں دلکشی کا روح پرور سامان تھا۔ زمین پر گرتی بارش کی ننھی ننھی بوندیں جب اپنی خوبصورتی سے میرے احساسات کو پر نور کرتی تھیں تو دل میں نئے شگوفے کھل اٹھتے تھے اور میرے لب و رخسار پر چاشنی بکھیرتی بے اختیار مسکراہٹ میرے وجود کے ہر گوشے کے پر مسرت ہونے کی نوید سناتی تھی۔ لیکن آ ج میں نے اپنے رائٹنگ ٹیبل کے سامنے لگی کھڑکی کے کواڑ کو اس بارش کے منہ پر بند کر دیا ہے۔

آج جب یہ بوندیں میرے احساسات تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو شاید مضطرب ہو کر میری ڈائری پر ترتیب سے سجے چند لفظوں کو مٹانے کی سازش کر نے لگی تھیں۔ میں ان کا مٹ جانا کیسے گوارا کرتی! میرے پاس لفظوں کے علاوہ ہے ہی کیا! ہاں اس حقیقت کو کیسے جھٹلاؤں کہ تمہاری یاد کا سفر بھی تو سنگ ہے جو ان بارشوں میں مجھے تمہاری طرف کھینچتا ہے تو میرے الفاظ ربط کھو بیٹھتے ہیں، چہرے پر ایک بیکراں اداسی چھانے لگتی ہے اور آنکھوں میں تمہارے اس غم کا سایہ لہرانے لگتا ہے جو اب شاید میرے وجود کے قفس سے آزادی کا خواہاں ہے۔

اے ماضی! اب تم ہی بتلاؤ کیا رہائی کے طلبگاروں کے لیے اس آزادی کو پانا اتنا سہل ہے؟ چار حروف پر مشتمل تمہارا وجود زبان پر تو بہت ہلکا محسوس ہوتا ہے لیکن تمہیں بھی علم ہے کہ اکثر زندگیوں پر تم کتنے بھاری گزرتے ہو۔ کچھ بدنصیبوں کے مقدر میں تم صحرا کے سوکھے پتوں کی طرح ویرانی بھر دیتے ہو تو کسی آنکھ میں ساون کی بوندوں کی طرح نمی چھوڑ جاتے ہو۔ کسی سے تمہارے درد کا بوجھ سنبھالے نہیں سنبھلتا اور کوئی تمہارے لمحات کو یکسر فراموش کرنا چاہتا ہے۔

کسی کو تمہارے آسیب سے نکلنے کے لیے تمہاری تلخیوں کو خود پر مسلسل گزارنا پڑتا ہے اور کسی کو آتش دان کی طرح تمہاری آنچ میں خود کو روز جلانا پڑتا ہے، ذہن میں تہہ در تہہ جمے ناگوار یادوں کے بوجھ کو پرت پرت کر کے ذہن کے ہر کونے سے نوچنا پڑتا ہے۔ کہیں تم ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے، شورش سے بھر ے سمندر کے مانند ہو جس کی خوفناک یادیں جب دل میں تہلکہ مچاتی ہیں تو زندگی کی کشتی میں سوار حساس مسافر اکثر ڈوب جاتے ہیں۔ اور کہیں تم اس وحشت زدہ قبرستان کی طرح ہو جہاں یادوں کی قبروں میں موجود گہری خاموشی اندر موجود عذاب کی بھنک بھی نہیں لگنے دیتی۔ اور قبریں بھی ایسی جن پر خاموش آنسوؤں سے رویا تو جا سکتا ہے، لیکن ان کے اندر دفن لمحوں کو پھر سے زندہ کرنا نا ممکن ہے۔

باہر بارش ذرا تھمنے لگی ہے۔ میں نے ابھی کھڑکی کا کواڑ کھول کر اس کی دم توڑتی بوندوں کی سسکیاں سننے کی کوشش کی ہے جو سوئیاں بن کر میرے ذہن میں چھید کرنے لگی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ یہ تمہارے کسی ویران گوشے میں سسکنے والی وہ بے حال آہیں ہیں، جو اب میرے لفظوں کے شور میں گم ہونا چاہتی ہیں۔ میں نے کھڑکی پھر سے بند کر لی ہے اور طے کیا ہے کہ اب دل کے مندمل زخم کو ہرا نہیں کرنا بلکہ اس پر خوش گمانیوں اور امیدوں کا ایسا مرہم رکھنا ہے کہ اب اس زخم کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ سوں آج میرا شمار ان لوگوں میں مت کرنا جو تمہاری یادوں کے کھنڈر میں کھڑے ہو کر تمہیں خزاں رسیدہ آنکھوں سے تکنے کے عادی ہوچکے ہے۔ اب سے میرے لیے تم وہ روداد غم نہیں جس پر میں ہر بارش میں آہ و زاری کروں۔

تمہارے وقت سفر میں تھوڑا دور تلک جھانکوں تو تمہاری راہوں میں میرے بہت سے دل نشین موسموں کی بہاریں آج بھی زندہ دکھائی دیتی ہیں۔ مجھے یاد ہے وہ تمہارے موسم گرما کی تپش جس نے کبھی میرے وجود کو اپنی حرارت سے پگھلنے نہیں دیا، وہ موسم سرما جو کبھی سرد مہری کی لہر لے کر میری زندگی میں داخل نہیں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ کیسے تمہارے موسم گل کی رنگینیاں میری زندگی میں ہمیشہ ہی عمدہ رنگ بھرتی تھیں اور عہد خزاں سوکھے اور بے جان پتوں کو گرا کر نئے پتوں کے جنم لینے کی امید بڑھاتا تھا۔ تو اے میرے دلفریب ماضی! یہ طے رہا کہ میری شاہراہ زندگی میں تمہارے ہر موسم کی یاد، رونق اور رعنائی آج بھی اپنی جگہ تر و تازہ اور شاداب ہے جسے کوئی برسات نہیں اجاڑ سکتی۔

مجھے گمان ہے کہ آج بھی تمہارے دالان میں ایسے کئی دریچے کھلتے ہیں جن میں میرے خوشگوار اور ناقابل فراموش دنوں کی دلکش یادیں سانس لیتی ہیں۔ تمہارے بام و در میں میرے بچپن کی شوخیاں اور میری بے فکر ہنسی گونجتی ہے۔ تمہارے در و دیوار پر میرے لڑکپن کی ناگزیر نشانیاں ثبت ہیں، جن میں موجود غیر معمولی ذہانت نے مجھے کبھی چوٹ کھانے نہیں دیا۔ سوچوں تو اس سنجیدہ عہد جوانی کا رستہ بھی کبھی اتنا دشوار گزار نہیں رہا کہ لڑکھڑا کے آگے کی مسافت طے نہ کر پاؤں۔ جہاں ایک طرف تمہارے قبرستان میں میری لغزشوں اور ناکامیوں کی قبریں سنسان ہیں، وہیں کہیں آس پاس تمہارے گلستان میں میری کامیابیاں سر اٹھائے بڑی شان سے آج بھی رقص کرتی ہیں۔

زندگی کی تگ و دو جب میرے وجود کے عکس کو چھوٹا کرنے لگتی ہے تو یہی کامیابیاں میرا حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ تمہاری گود میں اگر بے وفا دوستوں کی داستانیں سر جھکائے شرمندگی سے اندھیرے میں کہیں منہ چھپائے بیٹھی ہیں۔ تو تم ان مخلص لوگوں کے دم سے روشن بھی ہو جو میری زندگی میں اجالے کی نئی قندیل جلائے رکھتے ہیں۔

اے بیش قیمت ماضی! اب میرے لیے ہرگز تم وہ قصہ یا داستان نہیں ہو جس پر میں نوحہ خوانی کروں بلکہ تمہارے ہر دور کی یادیں، دکھ اور لاچاریاں میرا وہ اثاثہ ہیں جن سے میرے وجود کے نئے پہلو جلد استوار ہوں گے۔ میرے دل میں تمہاری کوئی یاد اتنی تلخ اور گہرائی تو نہیں ہے کہ میں اسے فراموش نہ کر سکوں۔ کوئی تقصیر اتنی بڑی نہیں ہے کہ اس کی پاداش میں خود کو تمہارے زندان میں عمر قید سنا دوں۔ کوئی دکھ اتنا اذیت ناک نہیں ہے کہ اپنی زندگی اجیرن کر ڈالوں۔ کسی محرومی کا جال اتنا زہر آلود نہیں ہے جس میں پھنس کر میں اپنے حال سے منہ پھیر لوں۔ تمہاری خوشحالی ہو یا تنگ دامنی، تمہارا سکون ہو یا بے امنی تمہارا ہر دور سبق آموز ہے، تو طے رہا اب تمہارا عطا کردہ ہر تجربہ مجھے خیر کا پہلو ڈھونڈنے اور شر کو دفن کرنے پر اکسائے گا۔

دیکھو! بارش نڈھال ہو کر پوری طرح تھم چکی ہے اور رات گہرے اندھیرے میں کہیں گم ہو رہی ہے۔ لیکن میری آنکھوں میں مقید امید کے خواب پھر سے روشن ہونے لگے ہیں۔ میرے حوصلے پھر سے بلند ہونے لگے ہیں۔ کل اک نئی صبح ہو گی، جس کا استقبال میں دل کھول کر کرنا چاہتی ہوں اس امید کو سجائے کہ تمہاری یادیں میرے ذہن کے کوچوں میں جب بھی سر گوشی کریں گی، تمہاری آہٹوں کی خوبصورت موسیقی میرے حال میں رچتی رہے گی۔ اے میرے یادگار ماضی!

تم اپنی تمام تر یادوں سمیت اس حال کی عکاسی ہمیشہ اسی مثبت زاویے سے کرتے رہو گے۔ تم تغیر کی وہ بنیاد بنو گے جس کے تجربوں کی اینٹوں پر میں اپنا آزاد مستقبل اطمینان سے تشکیل دوں گی۔ میں پر عزم ہوں کہ ایک دن پھر سے بارش کی لہریں میرے وجود کو سیراب کریں گی اور اس کی بوندوں میں رچی بسی مہک مجھے خوش نما تبدیلی کی وہ نوید سنائے گی جو میری روح کو ہمیشہ راس آئے گی۔ عہد رفتہ! الوداع۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments