مفخر عدیل کیس: موجودہ چالان پر ملزم کو سخت ترین سزا دلوانا ناممکن ہے


’گلاس پر انگلیوں کے نشانات مفخر کو قتل سے جوڑتے ہیں‘

ان خدشات پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ دستیاب ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تفتیش کو مکمل کیا گیا ہے اور انھیں قوی یقین ہے کہ اکھٹے کیے گئے شواہد کی روشنی میں وہ ملزمان کو سزا دلوانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

’ہمارے پاس چار طرح کے شواہد ہیں جن میں فورینزک، موقع کے گواہان، سیف سٹی اتھارٹی کی فوٹیج اور واقعاتی شہادتیں شامل ہیں جو کہ اس کیس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تمام ملزمان کے بیانات صرف سی آر پی سی کے سیکشن 161 کے تحت ہی لیے گئے ہیں جبکہ سیکشن 164کے تحت کسی ملزم کا بیان ریکارڈ نہیں کروایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شواہد بھی اکھٹے کئے گئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ شہباز تتلہ کا قتل اسی مکان میں ہی ہوا ہے اور قتل کے بعد لاش کو تیزاب میں ڈال کر ضائع کیا گیا ہے۔

ذوالفقار حمید کا مزید کہنا تھا کہ ’مفخر عدیل کے جائے وقوعہ سے ملنے والے گلاس پر انگلیوں کے نشانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ موقع پر موجود تھا اور سارے کیس میں یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ ہم نے تفتیش میں اپنی طرف سے جو ہو سکتا تھا وہ کیا ہے۔‘

وجہ عناد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ملزم یہی کہتا ہے کہ اس نے اپنی سابقہ بیوی سے تعلقات کے شبے میں ہی شہباز کو قتل کیا ہے۔

استغاثہ کے وکیل فرہاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے جس میں واقعاتی ثبوتوں، شہادتوں اور سیف سٹی اتھارٹی کی فوٹیج سے حاصل ثبوتوں کی روشنی میں ملزمان کو سزا دلوائیں گے‘۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیف سٹی اتھارٹی ایکٹ 2016 کے سیکشن 14 کے مطابق عدالت سیف سٹی کے کیمروں سے لی گئی فوٹیج بطور ایکسپرٹ شہادت تصور کرتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کیس میں سب کڑیاں آپس میں ملتی ہیں کہ کیسے ملزمان نے شہباز کو اغوا کیا، پھر اس گھر میں لا کر قتل کر کے لاش تیزاب میں ڈالی‘۔

وکیلِ استغاثہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم مفخر کا پولیس کے سامنے اعتراف جرم بہت اہم نقطہ ہے ’کیونکہ وہ کیسے عدالت میں کہے گا کہ اس پر ایک ڈی ایس پی نے تشدد کر کے یہ بیان زبردستی لیا ہے کیونکہ وہ تین بار علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا ہے لیکن ایک بار بھی نہ ہی ملزم اور نہ ہی اس کے وکیل کی طرف سے تشدد یا زبردستی بیان لینے کے متعلق کوئی بات کی گئی اور نہ ہی کوئی درخواست دی گئی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون شہادت آرڈر کے سیکشن 37 اور 38 کے تحت جب ملزمان کے پولیس کے سامنے دیے گئے بیان میں موجود حقائق اگر بعد کی تحقیقات کے نتیجے میں اسی طرح سے ثابت ہو جائیں تو پھر قانون شہادت کی شق 40 لگتی ہے جس کے مطابق ان کے بیانات قابل ادخال شہادت تصور ہوں گے۔

چشم دید گواہان کے وقوعہ کے چار دن بعد منظرِ عام پر آنے کے متعلق ان کا کہنا تھا انھیں کچھ علم ہی نہیں تھا کیونکہ پہلے تو خاندان والے خود ہی ڈھونڈتے رہے لیکن جب مقتول کے اغوا کا پرچہ درج ہونے کی خبر میڈیا پہ چلی تو انھوں نے فوراً آگاہ کیا۔

پولیس کے جائے وقوعہ پر تاخیر سے پہنچنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے 12 فروری کو جائے وقوعہ کا پتا چلایا اور اسی روز گھر کے مالک کا کھوج بھی لگایا گیا۔ چونکہ گھر پر تالا لگا ہوا تھا اس لیے اگلے روز جب مالک مکان کو بلانے پر گھر کا تالا کھلا تو پولیس اندر داخل ہوئی تھی‘۔

اس کیس میں لاش نہ ہونے کے متعلق فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کہ ’جس کیس میں مقتول کی لاش نہ مل سکے تو کیا عدالت چارج فریم نہیں کرتی اور اس کو پراسیکیوٹ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے بقول بم دھماکوں میں بہت سے لوگوں کے اعضا بھی نہیں ملتے لیکن کیا ان کے کیس کا ٹرائل نہیں ہوتا‘۔

مفخر کی سابقہ بیویوں کو شامل تفتیش نہ کرنے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو ان کے بیان کی کوئی ضرورت نہیں تھی جبکہ ملزم کے قبضے سے مقتول کے شناختی کارڈ ملنے کے بارے میں سوال پر وکیل ِ استغاثہ کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے ملزم نے مقتول کا کارڈ اس لیے اپنے پاس رکھا ہو تاکہ وہ اسے کسی اور مقصد جیسے کہ کوئی پاور آف اٹارنی بنانے کے لیے استعمال کرنے کا سوچ رہا ہو‘۔

لاش نہ آلۂ قتل، کیا پولیس قتل ثابت کر پائے گی؟

ریمانڈ کے دوران ملزم مفخر کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سینیئر ایڈووکیٹ آفتاب باجوہ کا کہنا ہے کہ ان کا موکل بےقصور ہے کیونکہ اس نے کوئی قتل نہیں کیا۔

’پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ مفخر نے شہباز تتلہ کا قتل کیا ہے اور ہم یہ بات عدالت میں ثابت بھی کریں گے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مفخر نے تتلہ کو قتل کرنے کا اعتراف بالکل نہیں کیا۔ یہ بیان پولیس نے خود سے ہی لکھا ہے جسے ہم چیلنج کریں گے‘۔

آفتاب باجوہ کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو پولیس یہ ثابت کرے کہ تتلہ کا قتل ہوا ہے کیونکہ ابھی تک کوئی لاش نہیں مل سکی۔ ہو سکتا ہے وہ زندہ ہوں اور کہیں روپوش ہوں اور کسی دن خود ہی منظرِ عام پر آ جائیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ گھر جہاں بقول پولیس قتل کا وقوعہ پیش آیا وہ تو ملزم کے نام پر ہی نہیں لیا گیا تھا جبکہ لاسٹ سین گواہ بھی پولیس نے بعد میں بنائے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp