قیام کے وقت سجدہ سہو: کیا صحافت آزاد ہے؟  


کیا پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟ یہ سوال سادہ نظر آتا ہے۔ سماجی سائنس کے ایک طالب علم کے طور پر میرے لیے یہ سوال اور اس کے ممکنہ جواب دونوں ہی بہت زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں۔

پہلے اس سوال کو دیکھیے۔ اور اس کو پاکستان سے باہر نکال کر پوری دنیا پر پھیلایے اور پوچھیے کہ کیا دنیا بھر میں صحافت آزاد ہے؟

سوال میں موجود لفظ صحافت سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد واقعات کی رپورٹنگ ہے یا پھر ان واقعات کا تجزیہ؟ صحافت کے ان دو بنیادی امور میں بھی بے پناہ تفصیلات پوشیدہ ہیں۔ مثلا یہ فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کرے گا کہ کون سا واقعہ رپورٹ ہونا ہے اور کون سا نہیں۔ کس واقعے کو کس طرح اور کس سکیل پر رپورٹ کرنا ہے۔۔ پھر کیا اسباب ہیں کہ ایک واقعہ نیویارک ٹائمز تو رپورٹ نہیں کرتا لیکن وال سٹریٹ جنرل اس کو شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کر دیتا ہے۔۔۔۔ بہت سی وہ خبریں جو برطانیہ کے روزنامہ ٹریبیون اور ٹائمز میں چھوٹی ہو جاتی ہیں وہ ہی خبریں گارڈینز اور دی انڈیپنڈنٹ میں بڑی ہو کر شائع ہوتی ہیں۔۔۔۔ کس بنیاد پر سکائی نیوز اور فوکس نیوز صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا مقدمہ پرزور انداز میں پیش کرتے ہیں مگر چینل فور اور واچ فرانس 24 لائیو انہی خبروں پر شکوک کا اظہار کرتے ہیں؟ اسی طرح تجزیہ کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے آخر نیویارک ٹائمز نوم چومسکی، اقبال احمد اور ایڈورڈ سعید کی تحریریں کیوں شائع نہیں کرتا؟ جبکہ دی نیویارکر میں یہی لکھنے والے نہ صرف یہ کہ باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں پڑھے بھی جاتے ہیں۔ برطانیہ کے رابرٹ فسک کی تحریریں صرف دی انڈیپنڈنٹ کیوں شائع کرتا ہے؟ اروندتی رائے بھی ہندوستان کے گنے چنے اخبارات ہی میں شائع ہوتی ہیں اور اور گنے چنے نیوز چینلز ہی ان کو انٹرویو کرتے ہیں۔

سوال کی جانب واپس چلیے۔ کیا پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟ یعنی کیا پاکستان میں میڈیا واقعات کو آزادانہ رپورٹ کرسکتا ہے؟ میں آپ کے سامنے سوال رکھوں گا کہ کیا میڈیا دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کو آزادانہ رپورٹ کرسکتا ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ لیبیا، یمن، شام اور عراق کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ کیا آپ فلسطین میں ہونے والے واقعات سے اسی طرح واقف اور آگاہ رہتے ہیں جیسے آج سے دس سال پہلے رہتے تھے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو کیوں؟ دور کیوں جاتے ہیں گزشتہ کم از کم ایک دہائی سے ہندوستانی مسلمان خوف کی جس کیفیت سے گزر رہے ہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا میڈیا اس کو کیسے دکھاتا ہے؟ کیا آج کی تاریخ تک نیویارک ٹائمز نے کرونا وائرس سے ہونے والی اموات اور اس کے نتیجے پیدا ہونے والی صورتحال کی ویسی ہی رپورٹنگ کی ہے جیسا نیویارک میں رہنے والوں نے دیکھی ہے؟

نتیجہ نکالیے۔۔۔ رپورٹنگ اور تجزیہ کی مکمل آزادی شاید کہیں بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اپنی اپنی ترجیحات کے تحت چلائے جاتے ہیں انکی ترجیحات ہی بنیادی طور پر واقعات کی رپورٹنگ اور تجزیات کے رخ کا تعین کرتی ہیں۔ جس کی جو بھی اور جیسی بھی ترجیح ہو ایک بات بہرطور طے ہے کہ اس تمام تر کا مقصد پڑھنے اور خبریں سننے والے کے ذہن کو اپنی ترجیحات کے مطابق متاثر کرنا ہوتا ہے۔

Wilhelm Reich

کیا کارپوریٹ میڈیا کے اس دور میں دیانت دارانہ رپورٹنگ اور تجزیے کے امکانات موجود ہیں؟ (یہاں لفظ “دیانت دارانہ” استعمال کرنے پر معذرت چاہتا ہوں ایک معروضی تجزیہ کی کوشش میں مذہبی رجحانات سے لدے لفظ استعمال نہیں ہونے چاہیں)۔ اس سوال کا موجودہ حالات میں سب سے بہتر جواب برطانوی صحافی رابرٹ فسک دیتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی ایک خاتون صحافی عامرہ ہاس کا ایک قول صحافی کے بنیادی فریضہ کے ذیل میں اکثر دہراتے ہیں۔ عامرہ ہاس کے مطابق صحافی کا بنیادی کام پاور سنٹر پر نظر رکھنا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے اس دور میں چاہے وہ صحافت میں رپورٹنگ کا شعبہ ہو یا تجزیہ کا۔۔۔ صحافت کے بنیادی فرائض کے ذیل میں اس سے بہتر بات شاید نہیں کی جاسکتی۔ اس جملے میں موجود رہنمائی صرف صحافیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ہر اس انسان کے لیے ہے جو خبر جاننے کی جستجو رکھتا ہے اور ان خبروں سے معاملات کی درست تفہیم کشید کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

سماجی حرکیات کے مطالعے کو ایک سائنس اور اس مطالعہ پر اصرار کرنے والے دانشور اگلی ہی سانس میں مذہبی دستاویزات سے اس سائنس کو برآمد کرنے کا بے دلیل دعوی کرکے گیند سماجی علوم کے ماہرین کے کورٹ میں یہ کہہ کر پھینک دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں سماجی حرکیات کا مطالعہ نہیں کیا گیا اس لئے تجزیہ نگاروں سے پے در پے غلطیاں ہو رہی ہیں۔ ان کو یہ بھی شکایت ہے کہ مغربی مفکرین کی تحریروں سے اخذ کردہ نتائج کا اطلاق ہمارے معاشرے کی سماجی حرکیات پر نہیں ہوتا لہذا یہ مطالعے پاکستان کی صورتحال کو سمجھنے اور سمجھانے کا کام انجام نہیں دے سکتے۔

ان دو مقدمات کا الگ الگ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستانی تجزیہ نگار غلطیوں پر غلطیاں کیوں کرتا چلا آرہا ہے؟ اور دوسرے یہ کے سماجی حرکیات کا مطالعہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟

پاکستانی تجزیہ نگار غلطی کیوں کرتا ہے؟ ایک “عارف” ایک سیاسی رہنما کی خاموش حمایت کیسے کرتا ہے؟ ایک اور صاحب سولہ یا اٹھارہ برس تک موجودہ وزیراعظم کے اپنے تئیں اتالیق بن کر اور ان کی شان میں کیونکر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے؟ انور مقصود جیسا زیرک آدمی ان ہی کی شان میں کیا کچھ نہیں کہتا رہا؟ 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے دور میں غضب کرپشن کی عجب کہانیاں کس کس نے بیان کیں؟ اور پھر نواز شریف اور ان کے خاندان کی عزیمت کی داستانیں اور اس عزیمت سے طلوع ہونے والی بہار کی امیدیں کس کس نے دلائیں؟ آپ کے سامنے ہے، یہ سارے تجزیے موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے پہلے چھ مہینوں کے اندر اندر منہ کے بل زمین پر آگرے۔

ذرا اور پیچھے جائیں۔ ملک میں دہشتگردی کا راج تھا۔ دہشت گردوں کی حمایت میں بولنے اور لکھنے والے آج کہاں ہیں؟ جب پشاور میں ہونے والے واقعات کے بعد پاور سنٹر نے ایک مختلف فیصلہ کیا تو ان تمام تجزیہ نگاروں کی بولتی بند کیوں ہوگئی؟ دہشت گردوں کو بازوئے شمشیر زن قرار دینے والے, ان کو دفاتر کھول کر دینے کی سفارش کرنے والے الٹے پاؤں اپنی کمین گاہوں میں کیوں چھپ گئے؟ وہ صحافی اور دانشور کیا ہوئے جنہیں دہشت گردوں نے اپنی جانب سے مذاکرات کار مقرر کیا تھا؟

ذرا اور ماضی میں جائیں۔ افغان قضیے کو جہاد قرار دینے والے اور اس میں شرکت کی تبلیغ کرنے والے صحافی کیا ہوئے؟ کیا یہ صرف تجزیے کی غلطی تھی؟ جب کوئی کام باقاعدگی اور تسلسل سے ہو تو وہ غلطی نہیں کہلاتا۔ حسن ظن رکھیے۔۔۔۔ اگر نیت کا فتور نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا اعتراف تو فرمائیے کہ آپ کے طریقہ کار (جسے معروضی جائزوں میں Methodology  کہتے ہیں) میں ایک بنیادی غلطی ہے۔ اور یہ بنیادی غلطی وہ ہے جس کی جانب عامرہ ہاس اشارہ کر چکی ہیں۔

نرم سے نرم الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی تجزیہ نگاروں (چند ایک کے علاوہ) نے ملک اور دنیا کے پاور سینٹرز پر یا تو نظر نہیں رکھی یا وہ اپنے تجزیوں میں ان کی کارگزاریوں کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں ایک تو وہ ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت میں پاور سنٹر کے منظور نظر ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس نظر التفات کے متمنی اور منتظر رہتے ہیں۔ پاکستانی تجزیہ نگاروں کی تمام تر توجہ کا مرکز ان دونوں گروہوں کی باہمی کشمکش رہی ہے۔ پاور سینٹر کس وقت کس کو اپنے خوان نمک سے سرفراز کرتا ہے اور کیوں؟ یہ تصویر پاکستانی تجزیہ نگاروں کی اکثریت کبھی نہیں دکھا سکی۔ پاور سینٹر کے حضور شرف باریابی کے لیے جستجو کرنے والوں سے عزیمت کی امید۔۔۔۔ تجزیے کی کیا اس سے بڑی بھی کیا کوئی غلطی ہو سکتی ہے۔

اس غلطی کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ ملک میں سماجی حرکیات کا مطالعہ کیا جا چکا ہے یا نہیں۔۔ سماجی علوم کے ماہرین نے اس ضمن میں کیا نتائج مرتب کیے ہیں۔۔ یہ غلطی معاملات کے پیچھے موجود دست غیب کو نہ دیکھ سکنے اور اس کی کارگزاری کو درست طریقے سے شناخت نہ کر سکنے کی غلطی ہے۔ یہ غلطی پاور سنٹر کی پذیرائی اور پشت پناہی چاہنے والوں میں مسیحائی اور نجات دہندگی ڈھونڈنے کی غلطی ہے۔ یہ غلطی اگر اسی طرح کی جاتی رہی تو تجزیہ نگاروں کے سر سجدہ سہو میں پڑے پڑے سوکھ جائیں گے۔

پاکستان میں سماجی حرکیات کا معروضی مطالعہ کیونکر ممکن ہے؟ یہ دوسرا سوال بہت ہی اہم ہے۔ سماجی حرکیات کے مطالعہ کو اگر آپ سائنس سمجھتے ہیں تو اسکا لازمی مطلب ہے اس مطالعے کے سوچے سمجھے اصول اور وضع کردہ طریقہ کار ہوں گے جو ہر معاشرے میں حرکیات کے مطالعہ کے لیے مدد اور رہنمائی فراہم کریں گے۔ سماجی سائنسز کا ایک اہم مسئلہ یہ رہا ہے کہ ان میں دخل در معقولات کے لیے کسی بھی باضابطہ تربیت کو ہمارے ایسے معاشروں میں کبھی بھی ضروری خیال نہیں کیا گیا۔ صحافیوں اور علماء نے بالخصوص اس شعبے میں اپنی مہارت کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان حضرات کی کوششوں کے نتائج آپ جابجا دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ علماء نے اپنے مسلکی مفادات کے تحفظ اور حصول کے لیے یہ کام کیا جبکہ صحافیوں نے پاور سنٹر کے ایماء پر ہونے والے واقعات کو تاریخی تناظر سے الگ کرکے تجزیے کیے اور نتیجتاً غلط نتائج اخذ کیے۔۔۔ اپنے شعبوں میں اختصاص پر اصرار کرنے والے۔۔۔ عربی اور فارسی جانے بغیر مذہبی امور پر رائے دینے سے روکنے والے علماء اور سکالرز سماجی علوم کی ہر شاخ سے متعلقہ موضوعات پر رائے دیتے نظر آتے ہیں۔

Erich Fromm

آپ خود دیکھ لیجیے کہ کیا ایرک فرام کی تفہیم فرائیڈ کے مطالعہ کے بغیر ممکن ہے؟ کیا The Sane Society کا ترجمہ “عاقل سوسائٹی” کیا جاسکتا ہے؟ کیا ولہلم رائخ کا مطالعہ اس کے فرائیڈ سے اختلافات کی نوعیت جانے بغیر کیا جا سکتا ہے؟ ان مطالعوں کے لیے کسی یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ڈگری شائد ضروری نہ ہو لیکن نفسیات کی مبادیات پر دسترس بہرحال ضروری ہے۔۔۔ جس طرح عربی اور فارسی سے نابلد افراد کی دینیات پر رائے زنی ناپسندیدہ ہے اسی طرح مذہبی علماء کے رائے کو سماجی حرکیات کا مطالعہ کہنا اور اسے سائنسی مطالعے کا ہم پلّہ قرار دینا بھی یقیناً محل نظر ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ صحافی اور علماء کم از کم پاکستان کی حد تک اس دخل در معقولات کے اس درجہ عادی ہوچکے ہیں کہ اب ان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب انہوں نے اپنے مخصوص دائرہ کار سے باہر قدم رنجہ فرماکر علم کے ایک یکسر الگ شعبے میں داخل ہوچکے ہیں جس کے بارے میں ان کی معلومات سطح عمومی سے زیادہ نہیں ہیں۔

کورونا وائرس پر مذہبی نسخے آپ نے حال ہی میں سنے ہیں۔ ان نسخوں کی بابت سب کو معلوم ہے کہ کوئی بھی یہ نسخہ استعمال نہیں کرے گا۔ خدانخواستہ ضرورت پڑی تو سب میڈیکل سائنس کے شعبے سے تربیت یافتہ ماہرین ہی کے پاس جائیں گے لیکن سماجی علوم کے شعبوں کے بارے میں ایک عمومی گمان یہ ہے کہ یہاں پر ہونے والے مطالعے اور تحقیقات کے نتائج صرف اور صرف کامن سینس کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں اس لیے ہر کس و ناکس یہاں طبع آزمائی کر سکتا ہے۔ اس لیے ان موضوعات پر مذہبی اسکالرز کی رائے کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ سماجی حرکیات کا مطالعہ کن اصولوں پر ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انتہا پسندی اور ردعمل کی نفسیات پر چند گذارشات پیش کرچکا۔ حال ہی میں ولہلم رائخ اور ایرک فرام پر لکھے گئے اپنے استاد پروفیسر خالد سعید کے مضامین کی مزید تشریحات پیش کی ہیں۔ اس طرح کے مضامین میں رائخ اور فرام جیسے ماہرین نے سماجی حرکیات کے مطالعے کے جو اصول وضع کیے تھے ان کو رہنما بنا کر میں نے پاکستانی معاشرے کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں ماہرین نے مختلف معاشروں کے پاور سینٹرز کی کارگزاری کو سامنے رکھ کر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی صورتحال کو اس کے پھیلاؤ اور گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ فرام نے سرمایہ دارانہ نظام کو جبکہ رایخ کے ہاں فاشزم کو پاور سینٹر ٹھہرا کر سماجی حرکیات اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی شخصیت کو بیان کیا ہے۔

ایرک فرام اور رائخ تو نفسیات کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ نفسیات کے علاوہ اہم فلاسفہ شوپنہار، نطشے اور بعد ازاں فرانس کے مشل فوکو نے “پاور” کے بنیادی تصور کو اس وضاحت سے بیان کردیا ہے کہ اب کسی قسم کی کوئی “پاور” خواہ وہ فرد سے تعلق رکھتی ہو، گروہ سے تعلق رکھتی ہو یا اداروں سے۔۔۔۔۔ نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ ہم نے نہ صرف یہ کہ ان تجزیوں کو سمجھنے کی اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ ان کا مذاق اڑایا۔ نطشے کی اخلاقیات پر شائع ہونے والے اردو مضامین کا جائزہ لیجیے۔ وہ طاقتور اور کمزور کی اخلاقیات کو الگ الگ کر کے دکھاتا ہے۔ یہ تجزیہ ہمارے معاشرے میں موجود اخلاقی رویوں اور رجحانات کی تفہیم کو آسان بناتا ہے۔ معاشرے کے طاقتور گروہ جس طرح کمزور طبقات کو کنٹرول کرنے کے لیے اخلاقیات کو استعمال کرتے ہیں اس طریقہ کار کا تفصیلی مطالعہ آپ نطشے کے کام میں دیکھ سکتے ہیں۔

ہمارے مذہبی اسکالرز نے نطشے کے اخلاقیات پر بیان کا جو حشر کیا ہے ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ یہی سلوک مشعل فوکو کے ساتھ ہوا۔ آپ جانتے ہیں کہ فوکو نے “پاور” کو اپنے مختلف نظریات میں واضح کیا ہے۔ چاہے وہ اس کا قید خانے کا مطالعہ ہو، پاگل خانے کا، یا حکومت کا۔۔۔ یا جس طرح مختلف علوم کو طاقتور گروہ Power) knowledge) استعمال کرتے ہیں۔ ہر جگہ فوکو پاور سنٹر کی کارگزاریوں کو اس تفصیل سے واضح کرتا ہے کہ پاور سینٹرز کے لئے کچھ بھی مخفی رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ اسی طرح نفسیات میں سماجی حرکیات کا یہ مطالعہ سائنسی طریقہ کار Methods کے تحت کیا گیا ہے۔ اس طریقے کو استعمال کرتے ہوئے لارنس برٹ نے دنیا کے ساتھ حکمرانوں کے طرز حکومت کے بارے میں ناقابل تردید حقائق بیان کیے ہیں۔ لہذا یہ اعتراض غلط ہے کہ ان مفکرین کے وضع کردہ اصولوں کی مدد سے پاکستانی معاشرے کا تجزیہ اس لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ تجزیہ کرنے والا مقامی نہیں تھا۔

ایک فاشسٹ معاشرے کے بارے میں لارنس برٹ نے دنیا کے سات ملکوں کا سماجی تجزیہ کرکے وہ چودہ خصائص بیان کیے ہیں جو ان تمام معاشروں میں ایک قدر مشترک کے طور پر موجود تھے۔ اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ ان معاشروں میں موجود مماثلت محض اتفاقی نہیں تھی۔ فاشسٹ حکمران اور معاشرے خواہ دنیا کے کسی خطے میں موجود ہوں ایک جیسی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ برٹ کے بیان کردہ چودہ خصائص کا مطالعہ کیجیے اور دیکھئے کہ ان چودہ میں سے کون سی ایسی خصوصیت ہے جو پاکستانی معاشرے میں نہیں پائی جاتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان چودہ میں سے ایک خصوصیت مذہب اور پاور سنٹر کے مابین تعلق کے بارے میں تفصیلات کو بیان کرتی ہے۔

برٹ کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ فاشزم اپنی اکثر حالتوں میں مذہب اور مذہبی طبقوں کی پشت پناہی کے بغیر نہ تو وجود میں آتا ہے اور نہ باقی رہتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں مذہبی طبقے اور پاور سینٹرز کے درمیان روز اول سے ہی اشتراک عمل موجود ہو وہاں اس طرح کے تجزیہ کی حوصلہ افزائی کون کرے گا۔ جن مذہبی علماء کے سماجی حرکیات پر تجزیوں کی بابت بیان کیا گیا ہے یہ طالب علم ان میں سے صرف چند ایک سے واقفیت رکھتا ہے۔ آپ ذرا ان تجزیوں کا جائزہ لیجیے۔ ان میں سے اکثر زوال امت کے اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں زوال سے مراد صرف دنیا پر حکمرانی کے خواب کا پورا نہ ہونا ہے۔ ہر تجزیے کا انت یہ ہے کہ امت نے مذہب کی ایک خاص تشریح سے دوری اختیار کی جس کی وجہ سے امت یہ دن دیکھ رہی ہے۔

کسی نے عجم اور عجمی تصوف پر ملبہ ڈالا۔ کسی نے اجتہاد کرنے پر زور دیا۔ کسی نے متبادل بیانیہ کی ضرورت بیان کی اور کوئی فحاشی، بے راہروی اور عورت کی آزادی کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتا رہا۔۔۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کیا کسی نے مختلف معاشروں میں موجود انسانوں کی نفسیاتی حالت کے بارے میں مذہبی وابستگی سے قطع نظر کوئی ایک قابل تصدیق تجزیہ پیش فرمایا؟ اگر مولانا حسین احمد مدنی، ابوالکلام آزاد اور عبیداللہ سندھی کے تجزیوں پر بات ہو سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو سائنسی اصولوں پر وضع کردہ مطالعات کو اپنے معاشرے پر اطلاق سے روکتی ہے۔ مذہبی لوگوں کے علاوہ سماجی سائنس کے محققین نے جن اصولوں پر تحقیقات کی ہیں ان اصولوں کو ذرا اپنی صورتحال کے مطالعے کے لیے استعمال کر کے تو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے وہ فکری امامت جس کی تمنا کی جاتی ہے یہاں سے میسر آجائے اور مذہبی اور مسلکی دشمنی اور عداوت سے ماورا ایک ایسا تجزیہ ہاتھ لگے جس کی تصدیق عقیدت سے نہیں بلکہ کھلی آنکھ سے کی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments