ایک خوفزدہ نوجوان اور ایک اجنبی


شہر میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے تھے، چار دن تک بلوہ ہوتا رہا درجنوں لوگ جان سے گئے، بیسیوں لاپتا اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اب قدرے سکون تھا، مگر ہر نفس دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا، بالخصوص ’اجنبی‘ کو کڑی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ فضا میں زہر اتنا گھول دیا گیا تھا کہ آدمی کو اپنے سائے سے بھی خوف محسوس ہوتا۔

انہی حالات میں ایک رات میرا دوست بیمار پڑ گیا، میرے پاس اس کے گھر سے فون آیا کہ اسپتال پہنچیے، جلدی جلدی پہنچا، تو معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا اور کوئی پریشانی والی بات نہیں، اسے معمولی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ اب رات کافی ہو چکی تھی، نصف رات تک کھلی رہنے والی دکانیں بھی بند ہو چکی تھیں۔ جاتی ہوئی سردی کی خنک ہوا میں قریبی پیڑوں کے پتوں کی سرسراہٹ بتا رہی تھی کہ شہر اس وقت کس قدر سکوت میں ہے۔

کہیں دور سے کچھ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ماحول کی پراسراریت بڑھا رہی تھیں، اسپتال میں آنے والے کسی مریض کی گاڑی کی آواز کبھی اس سناٹے میں نقب لگاتی، تو کبھی برق رفتاری سے ’زووں‘ کر کے کوئی گاڑی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں جاتی، پھر وہی سناٹا راج کرتا اگر یہ عام ماحول کی کوئی رات ہوتی تو شاید یہ خاموشی اتنی محسوس بھی نہ ہوتی، لیکن اب ماحول اور تھا، سچی بات ہے کہ میں اس خالی سڑک پر اکیلے میں بہت خوف زدہ تھا، کیوں کہ کوئی رکشے والا جانے کی ہامی بھی نہیں بھر رہا تھا، میں منہ مانگا کرایہ دینے کی بات کر کے انہیں منانے کی کوشش کرتا، مگر بے سود۔

میں ابھی پیدل ہی نکلنے کا سوچ رہا تھا کہ ایک دم سامنے ایک سیاہ گاڑی آ کر رکی۔

”کہاں جائیے گا؟“ اس نے شیشہ نیچے کر کے مجھ سے پوچھا، تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اسے اپنا پتا بتا دیا۔ خوف ایسا تھا کہ میں جلدی میں یہ فیصلہ ہی نہ کر پایا کہ اسے پتا بتاؤں بھی یا نہیں۔

”بیٹھ جائیے“ اس نے آہستگی سے کہتے ہوئے میرے لیے پچھلے دروازے کا لاک کھول دیا۔

کہنے کو میں گاڑی میں بیٹھ گیا تھا، لیکن ذہن میں عجیب و غریب واہمے اور ہول اٹھنے لگے کہ نہ جانے یہ مجھے کہاں لے جائے، دفعتاً میرے ذہن میں بلوے کے دوران اغوا ہونے والوں کے قصے گردش کرنے لگے، مارے خوف کے میرا حلق خشک ہو گیا۔ اگر اس نے کچھ بد معاشی کی تو میں کس طرح اپنا بچاؤ کر سکتا ہوں؟ اس نے اگر گاڑی کسی اجنبی راستے کی طرف موڑی، تو میں چلتی گاڑی سے کس طرح اتر سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

”جناب! شاید آپ کو یہیں اترنا تھا۔“ اس نے ’عقبی شیشے‘ سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تو میں ہڑبڑا گیا۔

میں نے سوچا حالات اچھے نہیں ہیں، میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ اترتے ہوئے میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنا نام بتایا سنتوش اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’میں سعد!‘ مصافحہ کرتے ہوئے اس نے گاڑی کی بتی جلائی، تو میں نے دیکھا کہ ونڈ اسکرین کے اندرونی حصے پر ’اوم‘ لکھا ہوا تھا۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments