انصار نقوی – چند یادیں چند باتیں


میں نے اسائنمنٹ ایڈیٹر کو ایک کاغذ پر لکھ کر دیا، انصار بھائی کو فون ملاؤ۔ پھر الطاف حسین سے کہا، الطاف بھائی ایک منٹ ٹھہریں میں قلم اور کاغذ لے کر لکھ لوں ذرا۔ جی آپ کیا فرما رہے تھے؟

انصار بھائی سوتے سے اٹھ گئے۔ میں الطاف بھائی کے جملے دوہراتا گیا، انصار بھائی سنتے گئے۔ میں نے الطاف بھائی کو تسلی دے کر فون بند کیا تو انصار بھائی فون پر ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے، مبشر! تیرا تو کام ہوگیا بس۔ میری آواز رونے والی ہوگئی تو انصار بھائی نے کہا، اچھا الطاف بھائی کی خبر لندن والی بیم پر چلا دو اور پاکستان میں مت چلاؤ۔ الطاف بھائی بھی خوش ہوجائیں گے اور پاکستان والوں کو بھی پتا نہیں چلے گا۔

صبح سے پہلے الطاف بھائی کا موڈ بحال ہوگیا اور انھوں نے وہ ایم کیو ایم دوبارہ جوائن لی جسے چھوڑنے کی خبر کا اہل پاکستان کو پتا ہی نہیں چلا۔

انصار بھائی ان چند صحافیوں میں سے ایک تھے جو یہ جانتے تھے کہ کون سی خبر چلانی ہے، کون سے نہیں چلانی اور کون سی کتنی دیر روکنی ہے۔ میں درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں جب انھوں نے ایک خاص ڈھنگ سے خبر نشر کی تو پورا پاکستان ہل گیا۔ جیسے خروٹ آباد کا واقعہ۔ یا انھوں نے خبر کو روک لیا یا احتیاط سے چلایا تو اس کے اثرات بہت دیر تک محسوس کیے گئے۔ جیسے راولپنڈی کے جلوس کا واقعہ۔ دہشت گردی کے درجنوں واقعات ہیں۔ فوج اور طالبان کے متعدد معاملات ہیں۔

انصار بھائی کی بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں لیکن ایک واقعہ میں نے کبھی نہیں سنایا اور کوئی اور بھی نہیں سنائے گا، وہ آج لکھ دیتا ہوں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس واقعے میں انصار بھائی کہیں موجود نہیں ہیں۔

اظہر صاحب بول جا چکے تھے اور جیو کو دو کنٹرولر چلا رہے تھے۔ ان پٹ کنٹرولر انصار بھائی تھے اور آؤٹ پٹ کنٹرولر میرے امیجیٹ باس۔ شکیل الرحمان صاحب نے ان دونوں کو اعتماد میں لیے بغیر ایک تیسرے باس کو ملازم رکھ لیا۔ یہ تیسرے باس جنگ اور جیو گروپ میں پہلے بھی بہت عرصہ کام کرچکے تھے۔ میں ان سابق امیجیٹ باس اور ان تیسرے باس کا بہت احترام کرتا ہوں اور ان دونوں کو بھی اپنا استاد مانتا ہوں۔

لیکن دفتر میں اختیارات کے مسائل ہوتے ہیں اور خوش گوار تعلقات کے باوجود نزاع کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے شکیل صاحب نے انصار بھائی اور غالباً تیسرے باس کو بھی دبئی بلایا تاکہ معاملات طے ہوجائیں۔

ملاقات کے بعد انصار بھائی، تیسرے باس اور میر ابراہیم رحمان ایک ہی پرواز سے کراچی آئے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بڑی خبر سن کر جہاز میں بیٹھے یا ان کی نشستیں پہلے سے بک تھیں۔

میں نے وہ خبر اس طرح سنی کہ ایک سینئر فون پر زور زور سے بات کر رہے تھے اور پھر انھوں نے نیوز روم میں بتایا، میں نے حامد میر کو فون کیا تھا۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اس پر حملہ ہوا ہے۔ کوئی اس کی گاڑی پر فائرنگ کر رہا ہے۔

حامد میر ایک پروگرام کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔ خبر سن کر نیوز روم میں ہلچل مچ گئی۔ میں امیجیٹ باس کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کرنا ہے؟ انھوں نے کہا، ابھی بتاتا ہوں۔ اس ابھی بتاتا ہوں کا مطلب ہوتا تھا، ہدایت آئے گی تو بتاؤں گا۔

میں نو بجے کے بلیٹن کا انچارج تھا اور اس کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ چند منٹ بعد باس نے آواز لگائی، مبشر! پی سی آر میں پہنچ۔

میں وہیں کھڑا تھا۔ ساری نشریات روک دی گئی اور بریکنگ نیوز شروع ہوگئی۔ اس کے بعد ایک ڈیڑھ گھنٹا کنٹرول میرے پاس تھا۔ میرے اندر گویا انصار بھائی کی روح حلول کر گئی تھی۔ ہر لفظ، ہر جملہ میں اینکرز کو بتا رہا تھا۔ بیپر کے لیے سوال لکھ کے دے رہا تھا۔ انھیں سختی سے سمجھا رہا تھا کہ کتنی بات کرنی ہے اور کیا نہیں بولنا۔

بریکنگ نیوز میں اپ ڈیٹ نہ ہو تو ایک گھنٹے بعد نشریات ہلکی پڑ جاتی ہے۔ حامد میر اسپتال پہنچ چکے تھے۔ عام نوعیت کے ردعمل آچکے تھے۔ میں نے امیجیٹ باس کے پاس جاکر کہا، نو بجے کے بلیٹن میں دو گھنٹے رہ گئے ہیں۔ کیا میں اس کی تیاری کروں یا بریکنگ نیوز چلتی رہے گی؟ انھوں نے کہا، ہاں، نو بجے کا بلیٹن زیادہ اہم ہے۔ تم تیاری کرو۔ میں کسی اور سے کہتا ہوں کہ لائیو نشریات سنبھالے۔

سات بجے کے آس پاس امیجیٹ باس کو کہیں سے ہدایت آئی اور انھوں نے کنٹرول روم کے پروڈیوسر کو من و عن بیان کر دی۔ اچانک میں نے سنا کہ عامر میر کا بیپر ہورہا ہے۔ پھر بریکنگ نیوز میں آئی ایس آئی چیف کا ذکر آنا شروع ہوگیا۔

میں بھاگ کر باس کے پاس پہنچا۔ وہاں جیو نیوز کے سینئر ایگزیکٹو پروڈیوسر نصرت امین موجود تھے۔ میں نے کہا، باس یہ کیا کر دیا۔ میرے الفاظ تھے، سر! اس بریکنگ نیوز سے پہلے جیو نیوز کے لیے دنیا کچھ اور تھی اور اب کچھ اور ہو جائے گی۔

نصرت امین صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا اور باس سے بے تکلفی کی وجہ سے کچھ مزید باتیں بھی کہیں۔ باس نے کندھے اچکا کر کہا، میں کیا کرتا۔ مجھے انھوں نے کہا تھا کہ ایسے کرو۔ میں نے کر دیا۔

پھر جو ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ لیکن میں سر تھام کے بہت دیر سوچتا رہا کہ انصار بھائی نیوز روم میں ہوتے تو صورتحال کچھ اور ہوتی۔ جیو نیوز کے حالات کچھ اور ہوتے۔ دنیا کچھ اور ہوتی۔

میں جانتا ہوں اور سیکڑوں بار آزمایا ہے کہ جب آپ لاجک اور دلیل سے بات کرتے ہیں تو آپ کے باس اور مالک بھی مان جاتے ہیں۔ لیکن آپ حکم پر سوچے سمجھے بغیر عمل کریں تو اوپر کے غلط فیصلے کا خمیازہ اوپر سے نیچے تک سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔

بس یہ فرق تھا انصار بھائی میں اور دوسرے سینئر ایگزیکٹوز میں۔ انصار بھائی مالک کو، اپنے باس کو اور جونئیرز کو بتاتے تھے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ وہ خبر روکنا جانتے تھے۔ وہ الفاظ کے مناسب استعمال سے واقف تھے۔ وہ جرات اور احتیاط، دونوں سے وقت کے مطابق کام لیتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ غلط بات پر انکار کرنا جانتے تھے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments