کیا روح عصر پہچاننے والے ہی انسانی تاریخ میں کامیاب ٹھہرے ہیں؟


فلسفہ کیا ہے؟ ”کل کے تناظر میں جزو کو سمجھنے کی اک عمیق کوشش“ ۔ فلسفۂ تاریخ کیا ہے؟ ”لمحۂ موجود کو گزرے ہوئے پل کی روشنی میں جاننے کی اک ادنیٰ سی کاوش“ ۔ پورا سچ بھلا کون جان پایا ہے! ہمیں تو اپنے ادھورے سچ کے ساتھ ہی اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ گود سے گور تک سیکھنے کا اک مسلسل سفر۔ امکانات سے مزین اور غیر یقینی صورتحال سے آراستہ۔ شاید، خدا کو جمود پسند نہیں ہے۔ ہر اٹھنے والا قدم، ہماری بصارت اور بصیرت میں وسعت پیدا کرتا جائے گا۔ ہر آنے والا لمحہ، گزرے ہوئے لمحات سے بہتر ہوتا چلا جائے گا۔

انسانی تاریخ ہے ہی کیا؟ کائنات کی بے انتہا وسعتوں میں اک نقطہ۔ خوش فہمیوں کا سلسلہ یا غلط فہمیوں کا اک مجموعہ۔ تو تاریخ کا پہلا درس انکساری، سادگی اور اعتدال پسندی ہے۔ ہمارا گزرے ہوئے وقت بارے علم ہمیشہ نامکمل ہی رہتا ہے۔ یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ شاید ناقص۔ متضاد شہادتوں کے بادلوں سے ڈھکا ہوا۔ تاریخ اتنی فیاض ہے کہ ہر گروہ کی دلچسپی کا سامان اسے مہیا کرتی ہے۔ ہر جماعت اپنے ماضی پہ نازاں۔ ہر کوئی اپنے گزرے ہوئے پہ خوش۔ سب راضی تے رب راضی۔ کچھ تابناک مستقبل لکھنے میں مصروف، اور باقی اپنے شاندار ماضی کو کھنگالنے میں مگن۔

زندگی کیا ہے؟ دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی اک جہد مسلسل، یا اک انتخاب۔ انسانوں، جماعتوں اور ملکوں میں تعاون باہمی بھی گر ہے تو وہ بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے۔

؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید، کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

آپ بھلے کچھ بھی کہیں، لیکن تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہر زمانہ اپنی اخلاقیات خود بنتا ہے۔ زمانہ بدلتا ہے تو نئی قدریں جنم لیتی ہیں۔ شاید کوئی بھی عمل اپنی اصل میں اچھا اور برا نہیں ہے۔ موجودہ دور کا نیکی اور بدی کا تصور، زرعی دور سے بہت مختلف ہو گا۔ نیا دور نئی خوبیاں تراشتا ہے۔ ہر آنے والا بچہ اپنے زمانے کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ زمانہ خدا ہے۔ تو پھر خدا کیا ہے؟ پھر کبھی سہی۔

ہمیں یہ حقیقت کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ لکھاریوں کی اپنی حدیں ہوتی ہیں۔ مشاہدے کا پورا اظہار بھلا کب ممکن ہوا ہے۔ واقعہ، ضبط تحریر میں جب آتا ہے تو انسانی کمزوریوں بھی ساتھ لاتا ہے۔ بے شک انسان ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ تاریخ صرف لوگوں کی دلچسپی کا سامان ہی محفوظ کرتی آئی ہے۔ تاریخ نویسوں کے اپنے دکھ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عام آدمی کی تاریخ کبھی لکھی ہی نہیں گئی۔

انسانی جبلت بھلا کہاں بدلتی ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ صرف ذرائع اور آلات بدلے ہیں، محرکات اور مقاصد وہی ہیں۔ اب انسانی جبلت نے ریاستوں اور تصوراتی حقیقتوں میں اپنا راستہ بنالیا ہے۔ مملکتیں اور سلطنتیں انسانی جبلتوں کے اظہار کے سوا اور کیا ہیں؟ تاریخ کی مسکراہٹ ہمیشہ سے جان لیوا رہی ہے۔

مذہب کی تاریخ ہوتو ہو لیکن تاریخ کا کبھی کوئی مذہب نہیں رہا۔ تاہم، انسانی تاریخ کے ہر دور میں مذہب زندگی کے نئے معانی لیے نمودار ہوا ہے۔ غم کے ماروں کی اس نے غم گساری کی ہے۔ انسانی حیوانی جبلی افعال کو قابو کرنے میں مدد دی ہے۔ نچلے ترین طبقے کو اس نے زندگی کے معنی بخشے ہیں، جینے کا حوصلہ دیا ہے۔ اور بقول نپولین، یہ مذہب ہی ہے جس نے مفلسوں کو دولت مندوں کا خون کرنے سے روکا ہے۔ تاریخ کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ مذہبی نمائندوں اور حکمرانوں نے مذہب کا سہارا لے کر ہمیں بتایا ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطے، خداؤں کی طرف سے ہیں۔ بہرحال، انسانی تاریخ کا کوئی بھی دور مذہب سے خالی نہیں رہا ہے۔

یہ المیہ ہے یا طربیہ، تاریخ ہمارے نیکی اور بدی کے تصورات کے ساتھ متفق ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ حتمی بقا اسی نے پائی ہے جو روح عصر پہچاننے میں کامیاب ہوا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ تاریخ کسی خاص مذہب یا نظریے کی طرف دار نظر نہیں آتی۔

طاقت، علم پیدا کرے یا علم، طاقت۔ انسان خسارے میں ہی رہا ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جو بھی نسلوں کی مقدار اور معیار کے مابین توازن برقرار نہیں رکھ پایا، صفحۂ ہستی سے معدوم ہوا ہے۔

؎ ظلم بچے جن رہا ہے، کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے۔

تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اکثریت کی حکمرانی ایک غیر فطری اور انہونی بات ہے۔ اب تک دنیا میں صرف چند لوگ ہی حکومت کرتے آئے ہیں۔ اقلیت ہی اکثریت پر حکمران رہی ہے۔ کبھی پیدائشی حق کے طور پر، کبھی مذہب کے نام پر، اور کبھی دولت کی صورت میں۔ چند لوگوں کی حکومت اتنی ہی ناگزیر رہی ہے جتنی کہ دولت کا چند لوگوں کے ہاتھوں میں اکٹھے ہو جانا۔ تاریخ کے اوراق میں جمہوریت کے حصے میں صرف چند صفحات ہی آئے ہیں۔ گنے چنے افراد ہی دنیا میں راج کرتے آئے ہیں۔

’قومی مفاد‘ کیا ہے؟ چند بڑوں کا فیصلہ۔ بہرحال، تاریخی حقیقت یہی ہے کہ سیاسی یا فوجی طاقت ہی ملکوں کی معاشی حالات کی ضامن رہی ہے۔ اگر کیپٹلزم، تھیسز ہے اور سوشلزم، انٹی تھیسز تو سینتھسز، دونوں کا حسین امتزاج ہو گا۔ کسی ایک کی دوسرے پر فوقیت ہرگز نہیں۔

جنگ زیادہ قدرتی حالت رہی ہے بہ نسبت امن کے۔ ریاست کیا ہے؟ لوگوں کی امنگوں کا منظم اظہار۔ ریاست بھی انسانوں کی طرح ہی پیش آتی ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہمارا نظام کس قسم کے انسان بنا رہا ہے؟ انسانوں کی طرح، ریاستوں کو بھی اپنے وجود کے بقا کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ وسائل حاصل کرنے کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔

حقیقی تبدیلی صرف ذہن کو شعور سے منور کرنے سے ہی آتی ہے۔ اور انفرادی جبلتیں، اجتماعی یا معاشرتی جبلتوں سے زیادہ طاقتور ہیں، کیونکہ یہ زمانے کے لحاظ سے زیادہ قدیم ہیں۔ عدم مساوات نہ صرف قدرتی ہیں بلکہ پیدائشی بھی۔ اور تہذیب کی پیچیدگی کے ساتھ یہ اور بڑھتی جا رہی ہے۔ مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش کا اس کے سوا اور کیا مطلب بنتا ہے کہ عدم مساوات فطری حالت ہے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن ہر دفعہ اک نئے انداز سے۔ ہر بار کی تفصیلات الگ ہی ہوتی ہیں۔ ہر آنے والا لمحہ اک نئی شان، نئی آن لیے ہوتا ہے۔ قوموں کو مختلف مراحل پہ مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ہر نئی چنوتی کے لیے نئے تخلیقی ذہن کی ضرورت پڑتی ہے۔ پرانے لوگ پرانی تعمیر سے ضرور واقف ہوں گے۔ لیکن نئی طرز تعمیر کے لیے نیا علم درکار ہوتا ہے۔ پہناوے کی کشش، عریانی سے کئی گنا بڑھ کر ہوتی ہے۔

ہر آنے والی تہذیب، گزری ہوئی تہذیب کی وارث ہوتی ہے۔ میسوپوٹیمیا تہذیب سے، مصری، انڈس ویلی، قدیم چین، یونانی، رومی، کوش، فارس، اسلامی، یورپی، امریکی اور اب چائنیز تہذیب تک۔ تاریخ میں وحدت بھی ہے اور ربط بھی۔ ارتقا بھی اور مخصوص قسم کی عصبیت بھی۔

ترقی کی پیمائش کا ما سوائے اس کہ اور کیا پیمانہ ہو گا کہ عام آدمی اپنی زندگی پر کتنا اختیار رکھتا ہے، کیا اس کی اپنی زندگی کے حالات کو قابو میں لانے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں۔ اگر یہ نہیں، تو ترقی کے سب دعوے بے کار۔

تو کیا ہمیں یہ جان کر پریشان ہونا چاہیے کہ ہماری اپنی زندگی ہو یا تہذیبی حیات، ہر اک کا ایک وقت مقرر ہے۔ تو کیا حیات جاودانی ممکن نہیں؟ شاید یہ زیادہ پسندیدہ ہو کہ زندگی تازہ صورتوں میں نمودار ہوتی رہے۔ ایک انسان کے مانند تہذیب بھی اپنے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گزرتی ہے۔

ہمارے پاس جو انسانی ورثہ ہے، یہ صدیوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ جو جتنا ورثہ پاتا ہے، اتنا ہی بلند ہوتا جاتا ہے۔ تاریخ اس کے سوا اور کیا ہے کہ صدیوں پر محیط اس ورثے کو تخلیق کرے، محفوظ کرے اور آنے والی نسل کو منتقل کر دے۔ تاریخ صرف متنبہ ہی نہیں کرتی، بلکہ حوصلہ بھی بڑھاتی ہے۔ تاریخ میں موجود ہزاروں گوناگوں کردار آج بھی زندہ ہیں، وہ ہم سے مخاطب ہوتے ہیں، ہمیں شعور بخشتے ہیں۔

انسانی وجود کا اگر کوئی معنی ہے تو وہ انسان اسے خود دیتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں کو معانی دینے میں فخر ہونا چاہیے۔ کچھ ایسے مفہوم دینے چاہیے جو کہ ہمیں موت سے بھی بلند کر دے۔ یہ عین ممکن ہے کہ موت بھی ہمیں مار نہ سکے۔ جو کچھ بھی ہم نے اس عظیم انسانی تہذیبی ورثہ سے لیا ہے، ہمیں بس اس ورثہ کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم ذاتی ورثہ کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اسی پہ منحصر ہے کہ نئے آنے والی لوگ ہمیں کن الفاظ سے یاد کریں گی۔

؎ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور
نوٹ: اس مضمون کے بنیادی خیالات ”ول اینڈ اریل دیورانت“ کی کتاب ”دی لیسنز آف ہسٹری“ سے ماخوذ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments