مائیکل فیراڈے : ہر زمانے کا بڑا سائنسدان


’سر آئزک نیوٹن‘ ( 1642 ء۔ 1726 ء) اور ’البرٹ آئن سٹائن‘ ( 1879 ء۔ 1955 ء) انسانی تاریخ کے انتہائی اہم اور بڑے آدمی ہیں، جو عالم انسانیت کو اس وقت حاصل بہت ساری آسائشوں میں سے بیشتر بنیادی اوضاع کو دریافت کرنے والے ہیں۔ ان دونوں غیر معمولی ذہین لوگوں کے درمیان والے عرصے میں دنیائے سائنس کا ایک تیسرا بڑا آدمی بھی پیدا ہوا، جس کو تاریخ ”سر مائیکل فیراڈے“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ کسمپرسی میں پلنے والا بظاہر ایک غریب بچہ تھا، جس سے کچھ کرنے کی بظاہر کوئی امید نہیں تھی، مگر اگر یہ شخص نہیں ہوتا، تو ہماری جانی پہچانی دنیا شاید آج اس صورت میں نہیں ہوتی، جس طرح آج ہے۔

شاید اس کے دریافت شدہ حقائق بعد میں کوئی دریافت کر بھی لیتا، مگر اگر فیراڈے نہ ہوتے تو انسان اپنے آس پاس پھیلے کروڑوں الیکٹرانوں کو اپنے طابع کرنا شاید بہت دیر میں سیکھ پاتا! جس تلاش کا آغاز بہرحال اب تک کے تمام زندہ خواہ بچھڑے ہوئے سائنسی اذہان کے قائد، ’آئزک نیوٹن‘ ہی نے کیا تھا۔ نیوٹن نے سورج کے گرد مختلف سیاروں کی حرکت کے اصولوں اور قوانین تو تلاش کر ہی لیا تھا، مگر وہ یہ جاننے کے حوالے سے شش و پنج ہی میں رہا کہ سورج کیسے سیاروں پر بغیر چھوئے ایسا (کشش کا) اثر ڈالتا ہے؟ اور سب سیب آخر زمین پر ہی کیوں گرتے ہیں؟ جبکہ ’آئن سٹائن‘ نے آگے چل کر بیسویں صدی میں اسی اسرار کے ایک اور پہلو پر حیران ہونا تھا۔ فیراڈے نے، نیوٹن کی الجھن کا جواب تلاش کر لیا اور ساتھ ساتھ آئن سٹائن کی انقلابی ذہانت اور ہمارے جدید انداز زیست کی بھی بنیاد ڈالی۔

1791 ء میں اب سے کم و بیش 229 سال پہلے، لندن کی ایک غریب کچی آبادی میں تاریخ کا یہ عظیم انسان ایک انتہائی غریب گھر میں پیدا ہوا۔ اسکول کے زمانے میں اس کا شمار بے حد کند ذہن طالب علموں میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ اپنے استاد کی سزا کھانے کے بعد فیراڈے نے پھر کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی۔ 13 سال کی عمر کو پہنچا تو کتابوں کی ’جلد سازی‘ (بک بائنڈنگ) کی دکان پر مزدوری شروع کی۔ دن کے وقت وہ کتابوں کی جلد بندی کا کام کیا کرتا تھا اور رات کو ان ہی کتابوں کو پڑھتا تھا۔

ان کتابوں کو پڑھتے پڑھتے بجلی (برقی رؤ) کے ساتھ اس کی دلچسپی کی شروعات ہوئی، جس نے پوری زندگی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور اسی دلچسپی نے انہیں ایک دن تاریخ کا بڑا آدمی بنا دیا۔ ان دنوں لندن کے ’رائل انسٹیٹیوٹ آف گریٹ برٹن‘ میں ”عوام کے لیے سائنس“ کے زیر عنوان سائنس کا سالانہ عوامی تماشا شروع ہو چکا تھا (جو 1825 ء سے آج تک جاری ہے۔ یہ سالانہ تماشے نما لیکچر ہر سال کرسمس کے موقع پر منعقد ہوتا ہے۔ ) ایک دسمبر یوں ہوا کہ، فیراڈے سے اپنی کتابوں پر بائنڈنگ کرانے والے ایک مستقل کسٹمر (جو ان سے، اپنی سائنسی کتابوں پر جلدیں بندھواتا تھا) کی مہربانی سے فیراڈے کو یہ سائنسی تماشا دیکھنے کا موقع ملا۔

ان دنوں اپنے دور کا بڑا سائنسدان اور ’کیلشیم‘ اور ’سوڈیم‘ سمیت کئی اور کیمیائی عناصر کو دریافت کرنے والا کیمیادان، ”سر ہمفری ڈیوی“ ( 1778 ء۔ 1829 ء) رائل انسٹیٹیوٹ میں یہ سائنسی تماشا دکھایا کرتا تھا، جس میں وہ بجلی کے ابتدائی تجربات، جادو کی طرح دکھا کر عام لوگوں کو حیران کر کے داد کمایا کرتا تھا اور بجلی کے بہاؤ (برقی رؤ) کے تجربات سے لوگوں کو انگشت بدنداں کر دیا کرتا تھا۔ جیسا کہ بجلی، فیراڈے کا پسندیدہ موضوع تھا، اس لیے اس پہلے تماشے کے دوران ہی فیراڈے بجلی کے اس مظاہرے اور لیکچر کے ’نوٹس‘ لیتا رہا۔

اس نے یہ پورا لیکچر مکمل طور پر قلمبند کیا، اس کی خود کتابت کی، اور اپنے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے، اس کی ’جلد سازی‘ کر کے، اسے کتابی صورت میں دلکش انداز میں ترتیب دیا اور سوچا کہ وہ، یہ کتاب ہمفری ڈیوی کو دے کر، اسے اس تحفے سے متاثر کر کے اس کے ساتھ ذاتی راہ و رسم قائم کر سکتا ہے۔ فیراڈے نے، جب ڈیوی کو اسی کا لیکچر، کتابی صورت میں بھیجا تو ڈیوی کو یہ بات اور یہ تحفہ بے حد پسند آیا اور وہ تحفہ دینے والا نؤجوان ’فیراڈے‘ اسے یاد رہا۔

کچھ عرصے کے بعد کسی کیمیائی تجربے میں جب ہمفری ڈیوی کی آنکھیں زخمی ہو گئیں، تو اسے وہ نؤجوان ’فیراڈے‘ یاد آیا اور اس نے، اس جلد بند کتاب پر درج شدہ پتے پر اپنا بندہ بھیج کر اسے اپنے پاس بلوایا اور اسے اپنے سیکریٹری کی حیثیت میں رکھا تا کہ وہ اس کے تجربات اور لیکچرز کو قلمبند کرنے کا کام کر سکے۔ اندھا مانگے اللہ سے کیا! دو آنکھیں! نؤجوان فیراڈے نے یہ پیشکش آنکھیں بند کر کے قبول کی۔ فیراڈے کی یہ نوکری جلد ہی پکی ہو گئی۔

جلد سازی سے اس کی جان چھوٹی اور رائل انسٹیٹیوٹ اس کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ وہ اپنی بیوی ’سارا‘ سمیت اسی انسٹیٹیوٹ کی اوپر والی منزل پر ملے ہوئے ایک کمرے میں رہنے لگا۔ پورا دن وہ ڈیوی کی تجربہ گاہ میں سائنسی تجربے کرتا رہتا تھا اور رات کو اسی عمارت کے رہائشی کمرے میں رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ہمفری ڈیوی، اپنے دوست اور مشہور کیمیادان ”ولیم وولسٹن“ ( 1390 ء۔ 1480 ء) کے ساتھ کسی اہم دریافت کے لیے تجربے میں مصروف تھا۔

وہ دونوں مقناطیسی سوئی (نیڈل) کی عارضی حرکت دیکھ کر اس کوشش میں تھے کہ کیا اس مقناطیسی سوئی کو مسلسل گول نہیں گھمایا جا سکتا؟ اور اگر یہ مسلسل گول گھوم سکے تو یہ کافی سارے مسائل کا حل بن سکتی ہے۔ ڈیوی نے فیراڈے کو طنزیہ انداز میں ایک دن کہا کہ ”کیا تم اس حوالے سے ہماری کوئی مدد کر سکتے ہو! ؟“ مگر اس ٹھٹھول نے فیراڈے کا ولولہ بڑھا دیا۔ بجلی اس وقت تک لوگوں کو حیران کرنے والے ایک پل کے تماشے سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہ تھی، جو صرف لمحے بھر کے لیے چمک سکتی تھی، مقناطیسی سوئی کو وقتی طور پر گھما سکتی تھی اور بس!

اس کا تب تک کوئی عملی اور اطلاقی استعمال سامنے نہیں آیا تھا۔ فیراڈے نے اس مذاق کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا اور اس گتھی کو سلجھانے کے پیچھے ہی پڑ گیا اور اس نے اپنی پوری توجہ اسی طرف مرکوز کر دی۔ کچھ انقلاب ایسے ہی اچانک سے شروع ہوتے ہیں۔ اس انقلاب کو شروع کرنے کے لیے فیراڈے کو بظاہر فقط پانی سے بھرے ایک کٹورے، دھات کے ایک ٹکڑے، ایک مقناطیس اور کچھ تاروں کی ہی ضرورت پیش آئی۔ فیراڈے نے اسی مقناطیسی پلکار (کمپاس) کو مسلسل گردش کرنے کے لائق بنا کر بجلی کے بہاؤ (کرنٹ) کو لگاتار مشینی حرکت میں تبدیل کرنے والی ’دنیا کی اولین موٹر‘ بنانے کا اعزاز حاصل کر لیا، جس موٹر نے پہیے والے اصول کو خودکار حرکت دے کر تمام مشینوں اور کارخانوں کی حرکت والے انقلاب کی بنیاد ڈالی۔

دنیا کے تمام پہیے خودکار طریقے سے گھومنے لگے، کارخانوں کے چلنے کا بنیادی اصول ایجاد ہوا اور دنیا اس انقلاب سے ’مشینی‘ بن گئی۔ اس دنیا کے موجودہ تمام کاروباروں، کارخانوں، ٹیکنالوجیز اور انسانی بود و باش کی ترقی کا آغاز اس جادوئی لمحے سے ہمفری ڈیوی کی لیبارٹری میں ہوا۔ دنیا کی یہ پہلی موٹر، فیراڈے نے 40 برس کی عمر میں ایجاد کی۔ مائیکل فیراڈے کی اس ایجاد کی خبر لندن میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ”ڈیوی کا اسسٹنٹ“ ڈیوی سے زیادہ مشہور ہو گیا۔

یہ بات ڈیوی سے ہضم نہ ہو سکی، کیونکہ ان تمام عناصر کی دریافت کا دعویدار ڈیوی خود ہی تھا۔ مگر لندن کے باشندوں کی زبان پر یہ بات عام ہو گئی کہ ”ڈیوی کی سب سے بڑی دریافت مائیکل فیراڈے ہی تھے!“ ڈیوی نے حسد میں فیراڈے کو راستے سے ہٹانے اور اسے اپنی لیبارٹری سے دور رکھنے کے لیے شیشے کے کیمیائی تجزیے اور تجربے کے بہانے، فیراڈے کو شیشے کے کارخانے میں دھکیل دیا۔ اسسٹنٹ کی حیثیت سے ڈیوی کا ہر حکم ماننا فیراڈے کے فرائض میں شامل تھا۔

شیشے کے کارخانے میں فیراڈے کو چار برس تک سخت محنت کرنے کے باوجود کچھ بھی حاصل نہ ہو سکا۔ 1829 ء میں ہمفری ڈیوی کی وفات ہوئی، تو فیراڈے کی کامیابیوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ فیراڈے کو ڈیوی کی جگہ ’رائل انسٹیٹیوٹ آف گریٹ برٹن‘ کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا۔ 1855 ء میں فیراڈے نے رائل انسٹیٹیوٹ میں سائنس کا وہ سالانہ تماشا خود پیش کرنا شروع کیا، جو کسی زمانے میں دیکھنے کے لیے وہ خود تماشائی بن کر آئے تھے اور اس تماشے نے ان کی زندگی ہی بدل دی تھی۔ انہوں نے مقناطیس کو بجلی کے تاروں سے گزارنے سے تاروں کے درمیان فاصلے میں بجلی پیدا کر کے، ’دنیا کا پہلا جنریٹر‘ بھی ایجاد کیا اور جلد ہی ’دنیا کا پہلا ٹرانسفارمر‘ بھی!

1840 ء میں فیراڈے کو ذہنی کمزوری نے آن گھیرا اور انہیں بیٹھے بیٹھے باتیں بھول جانی لگیں۔ 49 برس کی عمر میں ڈپریشن اور یادداشت کھونے کے باعث ان کا سائنسی کام کافی حد تک متاثر ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو بجلی اور مقناطیس کے تجربات میں مصروف رکھا۔ انہوں نے مقناطیس کے چؤگرد ان دیکھی لکیروں والی زمین (میگنیٹک فیلڈ) پر اپنے تجربات جاری رکھے۔ انہوں نے مقناطیس اور بجلی جیسی دو بڑی طاقتوں کے باہمی تعلق اور ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والی طاقت سے کائنات کی تیسری بڑی فطری طاقت ”روشنی“ کے ساتھ تعلق کا سراغ بھی تلاش کر لیا۔

انہوں نے یہ تعلق تلاش کر کے، فطرت کے اور گہرے اور ان دیکھے راز جان لیے۔ انہوں نے روشنی کی بہتی ان گنت لہروں سے کسی ایک لہر کو الگ کرنے (پولورائزیشن) کا کامیاب تجربہ کر کے دریافت کی دنیا کے ہزاروں دروازے بیک وقت وا کر دیے۔ اس تجربے میں شیشے کے کارخانے میں کیا ہوا کام بھی ان کے لیے معاون ثابت ہوا۔ اس تجربے کی ڈرامائی کامیابی سے فیراڈے نے دوربین کے شیشوں کی سائنسی حقیقت کا راز دریافت کر لیا، جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ برقی مقناطیسی قوت، روشنی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیراڈے کا ’ڈپریشن‘ اور بھولنے کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔ 60 برس کی عمر کو پہنچنے اور یادداشت خواہ ’ڈپریشن‘ کے باوجود وہ نظر نہ آنے والی قوتوں کو دریافت کرنے کی جستجو میں رہے۔ بجلی، مقناطیس اور روشنی جیسی طاقتوں کا سائنسی راز سمجھانے کے بعد، فیراڈے اس کھوج میں رہے کہ یہ تینوں طاقتیں ایک ساتھ کیسے کام کرتی ہیں! انہوں نے بجلی کے تاروں اور مقناطیسی سوئی کی بدولت کائنات میں ہر جگہ پھیلی مقناطیسی طاقت کا میدان (میگنیٹک فیلڈ) دریافت کر لیا، جو بجلی خواہ مقناطیس کے ہر سرچشمے کے گرد جڑتا ہے۔

انہوں نے معلوم کیا کہ زمین بذات خود ایک بہت بڑا مقناطیس ہے، جس کی کشش کی لکیریں، اس کے چاروں طرف فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ لہریں اور لکیریں ہمارے بھی چاروں طرف ہر جگہ موجود ہیں، مگر ہمیں نظر نہیں آتیں اور یہی وہ زمینی ’مقناطیسی فیلڈ‘ ہے، جو سیب کو زمین کے اوپر گرنے کا راستہ بتاتی ہے۔ اور یہی تھا ’نیوٹن‘ کے اس سوال کا جواب! جو کئی برس بعد فیراڈے نے آسان کر کے بیان کر دیا! زمین کے چؤگرد یہ مقناطیسی میدان ہمیشہ سے موجود تھا، مگر اسے فیراڈے سے پہلے کسی نے بھی دریافت نہیں کیا تھا۔

فیراڈے کی دریافتوں کو دوام بخشنے والے ”جیمز کلرک میکسویل“ ( 1831 ء۔ 1879 ء) نامی ریاضی دان تھے، جو فیراڈے سے 40 برس بعد پیدا ہوئے۔ جنہوں نے ان کی دریافتوں کو مساواتی شکل میں ترتیب دیا، جو کام فیراڈے رسمی تعلیم نہ ہونے کے باعث نہیں کر پا رہے تھے اور لوگ ان کے مقناطیسی فیلڈ والے تصور کو میکسویل کی جانب سے کیے گئے، فارمولائی اظہار سے پہلے محض ان کا خواب و خیال ہی تصور کر کے، ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

میکسویل نے فیراڈے کے دریافت شدہ حقائق کو سائنسی استقلال بخشا۔ آگے چل کر ان مقناطیسی لہروں کی حرکت کی مدد سے آواز اور تصویر کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا اور مائکروفون خواہ کیمرے کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی وژن کی ایجاد ہوئی، اور دنیا رابطوں میں جڑ کر ایک ”عالمی گاؤں“ بن گئی اور انسان، کائنات سے جڑ گیا۔ اس اتنے بڑے انقلاب کے معمار حالانکہ لاتعداد ہیں، مگر ان ’مقناطیس‘ ، ’بجلی‘ اور ’روشنی‘ جیسی تین بڑی کائناتی طاقتوں کا آپس میں تعلق تلاش کرنے والے، ’مائیکل فیراڈے‘ ہی ہیں، جو انسانیت کے عظیم محسنوں میں سے ایک ہیں، جن کو سائنسی نقاد، ’ہر زمانے کا عظیم سائنسدان‘ کہتے، سمجھتے اور مانتے ہیں۔

مائیکل فیراڈے نے 25 اگست 1867 ء کو 76 برس کی عمر پا کر لندن ہی میں وفات پائی۔ اور اب وہ لندن کے ”ہائی گیٹ“ قبرستان میں مستقل آرامی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments