حب الوطنی: بدقسمتی سے اب ایک سوالیہ نشان؟


جہاں ہم رہتے ہیں : عام کہاوت ہے کہ: آپ اور آپ کے دوست و احباب محب وطن نہیں ہیں۔ آپ ان لوگوں کے مقابلے کے لئے کھڑے ہوئے ہو، جو ملک کے محافظ ہیں، اور انہیں آئین کے ذریعہ بھی اعزاز حاصل ہے، کہ ان کے خلاف کھلے عام بحث اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسے بیانات ان کے لئے مایوسی کا عنصر بن سکتے ہیں۔ (کچھ دیر کے لئے اتفاق کرتے ہیں ) کہ ہاں افواج ہر ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں دنیا میں ہر جگہ اعزازات اور انعامات سے سراہا جاتا ہے۔

ایسے دفاعی و اساسی ادارے کو اگر تنقیدی بیانات سے احساس کمتری ہو سکتی ہے تو دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے پھر ان کے احساسات کا کیا حال ہوگا؟ جب تک کوئی ملک اپنی افواج کو کامیابیوں پر شاباش اور ان کی کوتاہیوں و غلطیوں پر سزا و جزا دینا نہیں جانتے ہو، ایسے ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے صفوں میں کبھی بھی کھڑے نہیں سکتے، جو تنقید برائے تعمیر اور احتساب کو غداری کے ساتھ ملاتے ہو۔ پاکستان متعدد اقوام کا مسکن ہے اس لیے ہر قوم کا برابر کی نمائندگی اور ہر درجے تک ترقی ہونی چاہیے۔ ایوان بالا یعنی سینٹ کی طرح نمائندگی ہونی چاہیے۔

آزادی کے آغاز سے ہی، ہم نے ملک کے رہنماؤں کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے : وہ صرف اپنے مفاد کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ آزادی سے پہلے ان کا منشور: الگ قوم؛ جہاں ہمیں ایسے کام کرنے تھے جن کی ہندوستان میں اجازت نہیں تھی (مذہب، مسلک اور ہر چیز کے ساتھ مسلمان کھلے گھروں میں رہتے تھے اور ہندو چھپے یا بند مکانوں میں رہتے تھے۔ (حوالہ کتاب: پاکستان کی جدوجہد ) ۔ ۔ ۔

بہت سارے مذہبی اسکالر، سیاست دان ہندوستان میں علیحدگی کے خلاف تھے۔ تاہم آزادی کے بعد نوزائیدہ ملک کے رہنماؤں کی عدم مطابقت اور نا اہلی بہت سی چیزوں میں واضح ہوگی، جس کا خواب آزادی سے پہلے دیکھا گیا تھا: خاص طور پر اخوت، مساوات، عدل و انصاف اور وطن عزیز میں اتحاد!

ملک کے اصل بانی بنگالی تھے سن 1905 میں بنگال کی علیحدگی کے لئے نوآبادیاتی جابروں کے خلاف کھڑے ہو گئے، ظلم اور جبر نے بنگالیوں کو اپنی جماعت بنانے کے لیے اکٹھا کیا اور: آل انڈیا مسلم لیگ بنائی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اصل محب وطن پاکستانی بنگالی تھے! کیونکہ وہ لیگ اور پاکستان کے اصل بانی تھے۔ آزادی کے بعد بنگالیوں کو ایک مخصوص گروہ نے گھیر لیا اور غدار ٹھہرایا، اب بھی وہ گروہ محب وطن ہے اور بنگالی اب بنگلہ دیشی ہیں۔

اس تنگ نظری نے بعد میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن کو ایک خطرہ قرار دے دیا۔ (مقدس قانون) کے ذریعہ سن 1955 میں دو یونٹ، (مشرقی اور مغربی پاکستان) ، آئین بنانے میں تاخیر: بنیادی حقوق بنگالیوں کو نہیں دیے گئے، خاص طور پر ان کی مادری زبان بنگالی! انہوں نے مطالبہ کیا کہ: ہمیں اپنی زبان لینی ہوگی کیونکہ ہم اکثریت میں ہیں، جائز حقوق نہ ملنے پر انہیں ہمارے ملک میں باغی کر دیا، نوآبادیاتی جابروں اور یونینسٹ پارٹی کے پیش روؤں نے، وہ ملک کے حقیقی مالک اور محب وطن ہو گئے۔ وہ دن اور آج کا دن حکمران طبقے ہیں اور وہ پورے ملک پر مسلط اپنی شرائط اور حکمرانی کے جوہر دکھا رہے ہیں۔

آمادہ شکنجہ: وہ آئین کی خلاف ورزی، فوجی بغاوت، ایوب خان، یحیی خان، ضیا الحق، مشرف، 1971 کی جنگ، سقوط ڈھاکہ کے معاملے میں اور بہت سارے ناجائز گناہوں میں ملوث، کارگل جنگ، بھارت اور پاکستان کے مابین جارحیت نے حب الوطنی کا مطلب یکسر بدل دیا۔ اب جو اسٹیبلشمنٹ کی شرائط و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں، وہ اصل محب وطن کہلاتے ہیں جو آمرانہ حالات کی پاسداری نہیں کرتے ہیں، انہیں باغی، غدار اور ملک دشمن کہا جاتا ہے۔

ہمارے پاس ان باغیوں کی بڑی فہرست ہے جو انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر عمل نہیں کیا: خان عبدالغفار خان (بادشاہ خان) ، عبدالصمد خان (خان شہید) سردار عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن، فی الحال علی وزیر، محسن داوڑ اور منظور پشتین شامل ہیں۔ ان میں کچھ قائدین نے اپنا سیاسی قبلہ بدلا تو اب انہیں بھی سلامتی کا خطرہ یا ملک کے لئے خطرہ کہا جاتا ہے۔

غلطیاں : امریکہ کو ہاتھ دینا، افغانستان میں روس کا مقابلہ، دنیا بھر سے بہت سے جوج ماجوج لے کر آنا، جس نے ملک کی پوری ثقافت کو تبدیل کر دیا۔ کلاشنکوف اور منشیات کی ثقافت کو فروغ ملا، معمول کی زندگی کو تباہ کر دیا۔ جنگ، معیشت: ڈالرز کشمکش (طاقت ہر ایک کو خراب کرتی ہے ) کی ریل پھیل نے چھوٹے راکشسوں کو تباہ کرتے کرتے ایک بڑے اژدھا کا شکل اختیار کر لیا۔ اس لیے ہر مثبت تنقید اور مدلل تجزیہ ان کو گوارا نہیں۔ لہذا جو صحیح وقت پر تنقید کرتے ہیں اور آئین کی اصولوں کے مطابق اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں وہی ملک کے حقیقی محب وطن ہیں، کٹھ پتلی یا جی حضوری کرنے والوں کو تھنک ٹینک سے نکالنا ہوگا: جو نفسیاتی مرض کا شکار ہیں اور امن کی بجائے جنگ کی تبلیغ کے لیے ہمہ دم تیار ہیں۔

جمہوریت میں عوام کے منتخب ممبروں کو اقتدار دینا اور منتخب اراکین کی پیروی جیسے حقائق کو حب الوطنی کہا جانا چاہیے۔

نوٹ: اس تحریر میں کسی کی دل آزاری مقصود نہیں اور ہم ہر اس فوجی، صحافی، جج یعنی ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی دل سے احترام کرتے ہیں جو آئین کی پاسداری پریقین اور اس کا احترام کرتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments