پانی سے چلنے والی گاڑی کا مقدمہ


بابا جی کے حجرے میں بیٹھے کب دن گزر گیا مظہر کو پتہ ہی نہ چلا، 55 سالہ مظہر اس وقت اپنے خیالوں میں اتنا مگن تھا ک کب سورج ڈھل گیا، اسے معلوم ہی نہ ہوا۔ وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے شاید کبھی بھی نہ لوٹتا اگر بابا جی اسے نہ پکارتے۔ ۔ ۔

مظہر گریڈ 14 کا ایک سرکاری ملازم تھا، تنخواہ کل ملا کر 35000 روپے تھی، مگر مظہر اور اس کے بیوی بچوں کا رہن سہن کسی بھی طور اس تنخواہ سے مطابقت نہ رکھتا۔ ظاہر ہے کہ اوپر کی آمدن اچھی خاصی تھی، اور مظہر نے کبھی اس میں کوئی عار نہ جانی۔ ۔ ۔ اور نہ ہی کبھی کوئی شرم محسوس کی۔ اس کے خیال سے آج کے مشکل دور میں جب مہنگائی کا جن سر چڑھ کر بولے، وہ حق بجانب تھا کہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے اور انہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے کے لئے جو ممکن ہو وہ کر گزرے۔ اور یہ کون سا وہ اکیلا کر رہا تھا، اوپر صاحب سے لے کر نیچے چپڑاسی تک سب ہی یہ کرتے تھے۔

مظہر کو یہ سب کرتے ہوئے 30 برس ہو چلے تھے، مگر اسے نہ آج تک کبھی احساس ندامت ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا احساس جرم۔ ۔ ۔

اسکی ”محنت“ کا یہ سفر کرایہ کے 2 کمروں کے مکان سے لے کر آج کے ایک 500 گز پر پھیلے بنگلے، اک کھٹارا سی موٹر سائیکل سے لے کر 3 گاڑیوں، سرکاری سکول کے ٹاٹ پر پڑھنے سے پرائیویٹ اور مہنگے اسکول میں اس کے بچوں کی منتقلی۔ بڑی بیٹی کا ڈاکٹر بن جانا، اس سے چھوٹے بیٹے کا انجنیئر اور سب سے چھوٹے بیٹے کا ذاتی کاروبار۔ ۔ ۔ بیشک یہ مظہر کی ”محنت“ ہی تو تھی اور اس کے خیال میں اس کی اسی ”محنت“ کی وجہ سے یہ ساری کامیابیاں اس کا مقدر بنی تھیں۔ اپنے حلقہ احباب میں بھی مظہر ایک ”کامیاب“ انسان سمجھا جاتا تھا۔ ۔ ۔

مگر اک زخم تھا جو آہستہ آہستہ سے رس رہا تھا، یہ کوئی ظاہری زخم نہ تھا بلکہ درحقیقت اس کی روح کی بے چینی تھی۔ اور آج بابا جی کے حجرے میں حاضری بھی اسی سبب تھی، کسی یار نے اسے بتا یا تھا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں اور یقیناً اس کے مسئلے کا کوئی حل ضرور نکال دیں گے۔ اسی لئے وہ 150 کلومیٹر کا کراچی سے حیدرآباد تک کا طویل سفر طے کر کے یہاں پہنچا تھا۔

جی بابا جی! ان کے پکارنے پر وہ چونکا اور اپنے خیالات کی دنیا سے حقیقت میں واپس آ گیا۔ ۔ ۔
بابا جی نے پوچھا کہ بیٹا کیا پریشانی ہے؟

اس پر مظہر نے بتایا کہ بظاہر تو سب کچھ اچھا ہے ماسوائے اس کے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس کی اولاد بہت نافرمان ہو چلی ہے، اور یہ کہ اس نے ساری زندگی ان کی آسائشوں اور آسانیوں کے لئے وقف کردی، انہیں پڑھایا لکھایا اس قابل بنایا کہ آج وہ ایک با عزت مقام پر پنچ چکے ہیں۔ مگر وہ اس کی نہ ہی عزت کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے فرمانبردار۔ اور تو اور، اس کی بیوی جو کہ اس کی جیون ساتھی ہے وہ بھی اس سے بالکل بیگانہ سی ہو چلی ہے۔ ۔ ۔

”بابا جی یہ سب کچھ مجھ سے اب مزید برداشت نہیں ہوتا، آپ کچھ ایسا کردیں کہ میرے بچے میرے فرمانبردار اور میری بیوی وفا شعار ہو جائے“ ۔ ۔ ۔

مظہر کی بپتا سننے کے بعد بابا جی بولے کہ بیٹا تم کل آجانا، آج میں بہت تھک چکا ہوں۔

یہ سننا تھا کہ مظہر بولا ”بابا جی میں بہت دور سے آپ کے پاس بڑی امید لے کر آیا ہوں اور اب آپ مجھے کل آنے کا فرما رہے ہیں، نہ صرف میرا وقت بلکہ میرا پیسا بھی خرچ ہوا ہے، آپ بس آج ہی میرے لئے دعا فرما دیں“

بابا جی بولے، بیٹا تم کیسے یہاں تک پہنچے ہو؟
”میں اپنی ذاتی گاڑی پر آپ کے پاس آیا ہوں“ ۔ مظہر نے جواب دیا
بیٹا اپنی گاڑی پر تم کل دوبارہ سے میرے پاس کیا نہیں آسکتے؟ اس دفعہ بابا جی نے پوچھا
”بزرگو اک تو فاصلہ طویل ہے اور دوسرا پٹرول کا خرچ الگ سے ہے“

بابا جی بولے، سمجھ گیا۔ ۔ ۔ لو بیٹا ایسا کرنا کہ گاڑی میں پٹرول کے بجائے پانی ڈال دینا۔ پھر تو کل آسکتے ہو نا؟ اس طرح تمہارا خرچہ بھی کم ہو گا

مظہر ہنسا، ”بابا جی آپ بھی بہت سادہ ہیں۔ بھلا کبھی کوئی گاڑی پانی سے بھی چلی ہے بھلا“

تو پھر مٹی کے تیل کو گاڑی میں ڈال دینا۔ دوبارہ سے بابا جی نے اپنے آپ میں ہی مگن رہتے ہوئے مشورہ دے ڈالا۔

” حضرت سمجھنے کی کوشش کریں، انجنیئرز نے گاڑی کا انجن کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ اگر آپ پٹرول کے علاوہ کچھ اور ڈالیں گے تو گاڑی کا انجن خراب ہو جائے گا اور وہ جھٹکے کھانا شروع کردے گی، لہذا لازم ہے کہ آپ وہی ایندھن استعمال کریں جس کا کے گاڑی بنانے والوں نے کہا ہے“

یہ سن کر بابا جی مسکرا دیے اور بولے، ”واہ بھئی واہ کیا خوب بات کی تم نے، یعنی انسان کی بنائی ہوئی شے صرف اسی صورت چلے گی جب اس میں بتلایا گیا پٹرول ڈالو گے، وگرنہ اس میں خرابی ہو جائے گی“

او کملیا، ہمارے رب نے بھی انسان کی مشینری کے صحیح رہنے اور دیرپا چلنے کے لئے کچھ قواعد وضع کیے ہیں۔ جس میں اولین اس کا خون ہے جو کہ اس کی رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے گاڑی میں پٹرول۔۔۔ اگر انسان کی بنائی ہوئی چیز میں آمیزش کردی جائے تو وہ نہیں چل سکتی تو پھر تو خود ہی بتا، کہ اگر سوہنے رب کی بنائی ہوئی سب سے پیچیدہ مشینری (انسان) کے خون میں آمیزش ہو جائے گی تو وہ کیسے چلے گی؟ پھر یقیناً وہ جھٹکے کھائے گی اور نافرمان بھی ہوگی۔ ۔ ۔

”جا بیٹا جا، اور جا کے اپنی اولاد کے خون کو اس آمیزش سے پاک کردے۔ اس میں صرف اور صرف حلال ذریعۂ سے کمایا گیا رزق شامل کر جو صرف اور صرف حق حلال کی کمائی سے ہو، پھر نہ ہی تیری اولاد نافرمان ہو گی اور نہ ہی تیری بے چینی کا سبب“ ۔ ۔ ۔

مظہر کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ اپنا مقدمہ اپنی ہی عدالت میں ہار گیا ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments