اعلانِ عید، منفرد اور حیران کن


”عید تو ان کے لئے ہے جنہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور نمازیں ادا کیں، آپ حلفیہ بتائیں کہ آپ نے رمضان کے دوران کتنے روزے رکھے اور کتنی نمازیں ادا کیں؟ آپ کا عید سے کیا لینا دینا۔“

یہ وہ الفاظ ہیں جن کو سن کر میری طرح بہت سے لوگ حیران و پریشان ہوئے ہوں گے۔ ان جملوں نے ان مذہبی تعلیمات اور اقدار، جن پر جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، ایمان اور یقین رکھتا ہوں، کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ جو تھوڑا بہت مطالعہ مجھ جیسے کم علم انسان کو کرنے کی توفیق ہوئی اور جن اسلامی تعلیمات سے مجھے متعارف کروایا گیا یا کم از کم جو مجھ جیسے گنہگار کو یاد رہیں، ان سے تو کبھی اس پہلو کا ادراک نہیں ہوا کہ آپ سے یہ سوال آپ کی زندگی میں پوچھ لیا جائے گا اور پوچھنے والی شخصیت بہت بڑے عالم ہوں گے اور سر عام آپ کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور جس کا مقصد آپ کی تذلیل کرنا اور عوام الناس کے سامنے نیچا دکھانا ہوگا، یہ واقعہ کم از کم میرے لئے حیران کن ہے۔

پاکستان میں اپنی کمزور دلیل کو سہارا دینے کے لئے ذاتیات پر حملہ کرنا اور کسی کی مضبوط دلیل کو کمزور ثابت کرنے کے لئے دوسرے شخص کی ذات کو غیر متعلقہ اور متنازعہ بنانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس مقصد کے لئے خاص قسم کے سیاسی، مذہبی، معاشی، لسانی اور جغرافیائی کارڈ استعمال کیے جا چکے ہیں۔ دانستہ طور پر کچھ ایسے معیار تیار کیے جاتے ہیں اور ہر کسی کو بھی ان پر پورا اترنے کا کہا جاتا ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا سوالوں کے ذریعے ایک واضح اشارہ دیا گیا گیا کہ روزہ نہ رکھنے والوں اور نماز نہ پڑھنے والوں کے لئے عید ہے ہی نہیں۔ میری رائے کے مطابق پاکستان میں ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو کسی بھی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا اور ظاہر ہے بہت سارے لوگ نماز بھی پابندی سے نہیں ادا کرتے تو کیا وہ عید کی نماز ادا کرنے کا تکلف بھی نہ کریں اور عید کے موقع پر وہ چھپ جائیں۔

ہمارے ٹی وی ٹاک شوز اسی طرح کے رجحانات سے بھرپور ہوتے ہیں، جن میں ایک دوسروں پر ذاتی حملے کرنا اور اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کے لئے دیکھنے والوں کو ایک بحث لا حاصل میں دھکیلنا ایک معمول ہے۔

لیکن ایک نہایت معتبر اور معزز شخصیت کا نیشنل ٹی وی پر حقیقی اور بلا شک و شبہ اہم قومی فریضہ سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کسی نامناسب اور ذاتی نوعیت کی گفتگو فرمانا اور طنزیہ طور پر کسی کے اعمال کے ناقص ہونے کا اشارہ دیتے ہوئے ان کے بارے میں سزا اور جزا کا فیصلہ صادر فرمانا، میری ناقص رائے میں نامناسب ہے۔ ایک اعلیٰ منصب پر فائز، انتہائی اہم مذہبی اور قومی فریضہ سرانجام دیتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ میری رائے کے مطابق نہ یہ مناسب وقت تھا نہ مناسب پلیٹ فارم اور نہ مناسب نقطہ نظر جس سے اتنی اہم ذمہ داری کا دفاع کرتے ہوئے ذاتیات کو زیر بحث لایا جاتا۔ اس سے صرف ان کا قد چھوٹا ہوا اور میری طرح کے ان کے لاکھوں چاہنے والے بھی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوئے۔

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ میری رائے میں حکومتی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا طرز عمل انتہائی غلط اور متعصبانہ ہے اور اس عمل کا مقصد ذاتی تشہیر ہے جو واضح ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے تمام سٹیک ہولڈرز کے باہمی رضامندی سے حل کیا جائے اور آخری روز تنازعہ کھڑا کرنے کی بجائے وقت سے پہلے ہی ایسی تدابیر اپنائی جائیں جن سے اتفاق رائے سے طریقہ کار وضع ہو اور سب اس پر عمل کریں۔

اس تحریر کا مقصد کسی شخصیت یا موقف کو صحیح و غلط ثابت کرنا نہیں اور نہ ہی رویت ہلال کے اہم ذمہ داری کے مجوزہ طریقہ کار پر کوئی اعتراض اٹھانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments