سنہ 2020 کی لاپتہ عید


غم کیا ہے، کسی غمزدہ آنکھ سے پوچھیے۔ موت کے رقص میں زندگی کے معنی کیا ہیں، خوف سے پوچھیے۔ سانس سے وابستہ آس کیا ہے، اُمید سے پوچھیے۔ گذشتہ جمعے کو آس، اُمید، زندگی سب ہار گئے۔۔۔ جیتا تو فقط خوف۔

کورونا کے خوف کے سائے میں عید پہلے ہی کچھ خاص پر لطف نہ تھی اور پھر جہاز کے حادثے نے تو گویا تمام رنگ ہی چھین لیے۔

عید بھی آئی تو کیسی آئی۔ عید دراصل خوشی کا وہ دن ہے جس دن اپنوں سے ملاقات ہوتی ہے، بچھڑے آ گلے ملتے ہیں، ناراض ناراضگیاں مٹا دیتے ہیں۔ گلے شکوے بھلا کر، تلخیوں کو فراموش کر کے شیریں لہجوں سے محبتوں کی شیرینی بانٹی جاتی ہے۔

پی آئی اے کی بدقسمت فلائٹ میں سوار 99 افراد جن میں سے 97 لقمہ اجل ہوئے جانے کیا کیا خواب لے کر جہاز پر سوار ہوئے۔

ایک بیٹی باپ سے ملنے کے لیے آئی واپس لیکن گھر نہیں پہنچ پائی۔ کسی نے سوچا ہوگا گھر پہنچتے ہی بچوں کو گلے سے لگائیں گے، کوئی ماں سے ملنے کا منتظر اور کوئی بچوں کے ساتھ عید منانے کا خواہش مند۔

انصار نقوی چار ماہ بعد گھر کے لئے روانہ ہوئے۔ دفتر سے جاتے ہوئے کہہ کر گئے کہ بچے منتظر ہیں، بیگم سے کہا ہے کہ افطار اکٹھے کریں گے۔ شیر دل کھو گئے، زارا عابد کئی سپنے لیے خاک میں مل گئیں۔ یہ 97 نہیں 97 لوگوں سے جڑے سینکڑوں خوابوں کا غم ہے جو تعبیر نہ پا سکے۔

طیارہ

ہمارے بھائیوں جیسے سینیئر صحافی انصار نقوی کا خاندان بھی اُن کی راہ تک رہا تھا۔ غم سے نڈھال اُن کے اور اُن کے ساتھ جاں بحق ہونے والے کئی افراد کے لواحقین آج بھی ان کے منتظر ہیں۔

جن کے عزیز بچھڑ گئے، اُن کے غم کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا۔ سوختہ جانوں کے نشان ڈھونڈنے والے خاک سے ہی سوال کر رہے ہیں کہ پل ہی پل میں کیا ہو گیا۔ جہاز کے کپتان سے لے کر عملے اور پھر مسافروں اور اُن کے خاندانوں کی عید خاک میں مل گئی۔ آہیں ہیں، سسکیاں ہیں اور آنسو۔۔۔ کون کب تک مداوا کرے گا۔

میں مٹی میں ملے لوگوں کے وجود ڈھونڈنے والوں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ان کو تو قرار آ جائے گا مگر وہ لاپتہ افراد جن کی نہ تو زندگی کی خبر ہے نہ موت کی۔۔۔ ان کے منتظر خاندان عیدیں کیسے مناتے ہوں گے؟

سُنا ہے بلوچستان کے گمشدہ لوگ کئی عیدیں پریس کلبوں کے باہر منا چکے ہیں۔ جوان بیٹوں، جوان بھائیوں اور شوہروں کے ناموں کے کتبے اٹھائے یہ لوگ ایک عید کے منتظر ہیں، ایک دید کے منتظر ہیں۔

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز گزشتہ کئی سالوں سے دونوں عیدوں پر احتجاجی کیمپ آباد کرتا ہے۔ اپنوں کی بازیابی کے لئے احتجاج کیا جاتا ہے اور احساس دلانے کی کوشش کہ عید کے دن اگر آپ کے اپنے پاس نہ ہوں تو آپ کی عید کیا ہو گی۔

آصفہ قمبرآنی اپنے ایک گمشدہ بھائی کی لاش وصول کرنے کے بعد دوسرے لاپتہ بھائی کے لئے کیمپ میں کھڑی ہے۔ ماما قدیر بلوچ آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کے زخموں پر آج بھی کسی نے مرہم نہیں رکھا۔ انسانی حقوق کے سرگرم رکن ادریس خٹک کی بیٹی طالیہ کی اپنے والد کی بازیابی کی اپیل پر شاید ہی کوئی پتھر دل نہ پسیجا ہو۔

وائس آف بلوچ مِسنگ پرسنز کی رپورٹس ہزاروں کے اعداد و شمار دیتی ہیں، جنہیں غلط بھی مان لیا جائے تو سینکڑوں لاپتہ افراد سے وابستہ لواحقین کے گھروں میں عید کے دن خاموش لبوں پر حرف دعا کیا ہوتا ہو گا؟

مقتدر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ خدانخواستہ ایک دن کے لئے اُن کا رابطہ اپنے بچوں اور گھر والوں سے منقطع ہو جائے اور ان کے پیارے کھو جائیں تو ان پر کیا گزرے گی؟ خدا نہ کرے کہ آپ کو اپنوں کا غم ملے، خدا نہ کرے کہ آپ کے بچے، بھائی، اہل خانہ آپ کی آنکھوں سے دور ہوں۔۔۔

زندہ معاشروں میں زندوں کو دفن نہیں کیا جاتا۔ ریاستیں مردہ لاشوں پر قائم نہیں رہتیں قبرستان بن جاتی ہیں۔ ریاست ماں ہے تو اس عید پر وعدہ کرے کہ لاپتہ اگر مجرم ہیں تو اُنہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے اور اگر نہیں تو اُنہیں زندوں میں شمار کیا جائے۔

فیصلہ کرنے میں دیر نہ کریں کیونکہ ریاست کی لاپتہ عید دھرتی زادوں کی دید میں ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).