خالصتان تحریک زندہ ہے


بلوچستان میں پے در پے ہمارے جوانوں کی شہادتیں واضح کرتی ہے کہ بھارت کی مودی سرکار صرف کشمیر میں 370 دفعہ کے خاتمے اور پھر مسلسل ظالمانہ لاک ڈاؤن تک محدود نہیں رہے گی بلکہ نا صرف کے افغانستان کے راستے مداخلت بلکہ بلوچستان میں بھی بد امنی کو مسلسل بڑھاوا دینے کی حکمت عملی پر کاربند رہے گی۔ ممکن ہے کہ میری اس بات پر وہ دانشور اعتراضات کی بھرمار کر دیں جو ہر بات میں آج بھی بھارت کی مالا جپنے لگتے ہیں۔ اپنی تسلی کے لئے وہ صرف مودی کی لال قلعہ کے سائے تلے کی گئی وہ تقریر سن لیں جس میں اس نے بلوچستان کا ذکر کیا یعنی پاکستان کی طے شدہ بین الاقوامی سرحدوں کے اندر کے معاملات کا ذکر اور اپنے عزائم کا اظہار۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں پاکستان کو بھی بھارت میں موجود مجبور زیر نگین قوموں کے حق میں آواز بلند نہیں کرنی چاہیے اور کیا وہ اخلاقی حمایت جو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان ان اقوام کو دے سکتا ہے نہیں دینی چاہیے۔ بلا شبہ جواب ایک ہی ہوگا کہ ضرور آواز بلند کرنی چاہیے ان اقوام میں جو بھارتی سرحدوں کے اندر سب سے زیادہ پس رہی ہے وہ سکھ قوم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خالصتان کی جدوجہد صحیح لاحاصل ہے اس کا جواب آج کی تاریخ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک ایسی قوم جو برصغیر میں بجا طور پر ایک شاندار سیاسی ماضی بلکہ مطلق العنان حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ جس کی بہادری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئی اور جس کے درمیان ہر زمانے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اونچی اڑان بھرنے کی صلاحیت اور اپنی بلند ہمتی کے بل بوتے پر قوم کو نئی راہ دکھاتے رہے پھر کیا ہوا کہ 84 19 کے بعد اب تک وہ سیاسی ساخت کے اعتبار سے انتہائی کمزور ہے اور ان کا قومی بیانیہ بھارت کے سیاسی معبد میں قابل سنوائی نہیں۔

پاکستانی مشرقی سرحد کے دوسری جانب قابل لحاظ تعداد سکھوں کی ہے جو ثقافتی و لسانی اعتبار سے پاکستان کے بہت قریب ہے اور بجا طور پر سکھ مسلمانوں سے اگر علیحدہ مذہبی شناخت رکھتے ہیں تو وہ ہندو دھرم کا بھی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سرتاپا ان کی ایک اپنی پہچان ہے۔ یہ لوگ بھگتی تحریک اور صوفی ازم کے قرینے سے سمجھے جا سکتے ہیں جو بہرکیف گوتم کی طرح ظلم کے آگے سینہ سپر رہے چاہے وہ سماجی نا انصافیوں کا معاملہ ہو یا بادشاہوں کے ظلم و قہر سے مقابلہ ہو۔

گوتم بدھ کے ماننے والوں کو تو ماضی میں بھارت سے قوت کے ساتھ بے دخل کر دیا مگر سکھوں کا معاملہ مختلف رہا۔ گولڈن ٹیمپل یا ہرمندر صاحب کی بنیادیں ایک صوفی بزرگ حضرت میاں میر سے رکھوائی گئیں۔ یہ وہی جگہ ہے جو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی آڑ میں جنرل برار کے ذریعے مٹی کی ڈھیری میں تبدیل کروائی تھی کے جس میں انسانی خون اور لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔

آپریشن بلو سٹار سے لے کر دلی کے فسادات کے دوران ہزاروں سکھ نوجوان قتل ہوئے اور خواتین کے ساتھ جو ہوا وہ لکھنے کی میرے قلم میں تاب نہیں۔ اور پھر بعد میں آپریشن بلیک تھنڈر کے تحت جھوٹے اور بے بنیاد پولیس مقابلے، جبری گمشدگیاں اور خواتین سے انسانیت سوز سلوک امتیازی نشانات تھے۔ بے انت سنگھ جیسے غدار اس بھارتی بالا دستی کے نظام میں پنپے۔ غداروں کا حشر اگر ممکن ہو تو سکھ تو ضرور ہی کرتے ہیں لہذا بلونت سنگھ رجوانہ سمیت کچھ نوجوانوں نے اس وزیراعلی کو کیفر کردار تک پہنچایا۔

بلونت سنگھ رجوانہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی مگر اس کی پھانسی کو روکنے کے لیے سکھوں نے پنجاب میں غیر سرکاری ریفرینڈم کا اعلان کیا ریفرنڈم ہوا گلی گلی اور کوچہ کوچہ احتجاج نے اس خالصتانی کو پھندے پر جھولنے سے روکا احتجاج اور حمایت کی شدت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس دوران دلی کے حکمرانوں کی قلب ماہیت تو نہیں بدلی مگر خالصتان کی تحریک ڈیل کرنے کی پالیسی کے بنیادی نکات ضرور طے کر لئے۔ طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ عصبیتوں کو ہوا دی گئی یعنی دسنم گرنتھ ناقابل اعتبار ہے یا حقیقی نرنکاری حقیقی سکھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس کے ذریعے سیاسی جنگ کو فرقہ واریت سے تقسیم کیا گیا بے اس کے علاوہ کانگرس، اکالی دل جیسی جماعتوں کو ہر طرح کی سیاست کرنے کا پروانہ جاری گیا اور بھارت نے ان کو ہر طرح کی سرکاری مدد اور فنڈز مہیا کیے۔ ان جماعتوں سے وابستہ زبردستی کے سکھ رہنماؤں میں اپنی قوم کے لئے خلوص کا شدید فقدان تھا۔ پانی کا مسئلہ ہو یا پنجاب کی تقسیم سے لے کر چندی گڑھ کا معاملہ سب کچھ تباہی کی طرف ہی گیا۔ ان حالات نے کاشت کاروں کو خودکشی یا نشے کی لت میں مبتلا کر دیا۔

اس تمام پس منظر کی وجہ سے آج کا مشرقی پنجاب شدید ذہنی الجھاؤ سے دوچار ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دلی کا ہاتھ روک دینا بہت مشکل ہے کیوں کہ دلی کی قوت ان کی قوت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس لیے انہیں اخلاقی حمایت ضرور ملنی چاہیے۔ اخلاقی حمایت سے میری مراد یہ کہ کم از کم اتنی تو پاکستان میں ان کو سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیے جتنی بھارت میں نام نہاد بلوچ علیحدگی پسندوں کو دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے سیمینار کر رہے ہے اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

خاص طور پر ان حالات میں جب ریفرنڈم 2020 میں پنجاب کے غداروں سے لے کر دہلی کے حیلہ گروں تک کی نیندیں اچاٹ کر کہ رکھ دی ہے۔ اور ایک نئی سازش رچائی جا رہی ہے یعنی چھتیس سنگھ پورہ کی طرز پر بے گناہوں کو قتل کر کے مسلمانوں کے ذمہ لگایا جائے اس ہلاکت خیز پالیسی کے روح رواں گولڈن ٹیمپل کے اندر قتل عام کروانے والے آج کل مودی کے مشیر ہے۔ کابل میں گردوارے کے اندر کھیلے جانے والے خونی کھیل کے ڈانڈے بھی اسی سازش کی طرف جاتے ہیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن اس حد تک گر سکتا ہے۔ اگر بھارت میں رہنے والی اقلیتیں صرف اور صرف غلامی پر آمادہ ہوں شکاری کتوں کو رکھوالا تسلیم کر لیں تو اپنی زندگی گزار سکتی ہیں ورنہ بی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ والے ان کو شکار کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔ کشمیری، ناگا، سکھ یا آدھی واس سب جلد یا بدیر ان کی ہٹ لسٹ میں ہیں۔

بدقسمتی سے بھارت کے بہت سے علاقے ساحل کے وہ حصے بن گئے ہیں جو حالات کے رحم و کرم پر پانی کے اتار چڑھاؤ کے درمیان ہوتے ہیں۔ قبل اس کے کہ وہ سب کو علیحدہ علیحدہ پامال کرنے میں کامیاب ہو جائے بھارت کے پسے ہوئے طبقوں کے لئے دور اندیشی کا تقاضا کے آپس میں اتحاد و یگانگت کی خاطر آپس میں مکالمے کا آغاز کریں بلاشبہ دلی دخل انداز ہوگا۔ وہ چاہے گا کہ ان کی سیاسی آوازوں کو بم بارود کے دھماکے دکھایا جائے اور بھارت کے ہاں میں ہاں ملانے والی دنیا کو باور کرایا جائے کہ یہ تحریک عوامی خواہشات کی بجائے آتش فشانی مزاج کے حاملین کی آفت و مصیبت ہے۔ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مظلوم قوموں کی درست آواز اقوام عالم تک پہنچنے کا ذریعہ بننے۔ اور کم از کم ان کو وطن عزیز میں بیٹھ کر اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments