اداروں کی ناقص کارکردگی اور فضائی حادثات۔ ذمہ دار کون؟


22 مئی 2020 کا دن ہوائی سفر کرنے والوں کے لئے ایک المناک دن تھا۔ جب قومی ائر لائن پی آئی اے کا ایک طیارہ ائر بس اے 320 جس نے 91 مسافروں اور عملے کے 8 اراکان کے ساتھ لاہور سے اڑان بھری اور اپنی منزل پر پہنچے سے پہلے ہی کراچی ائر پورٹ کے رن وے سے چند منٹ کے فاصلے پر ائر پورٹ سے ملحقہ شہری آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا۔ اس افسوس ناک حادثے میں تقریباً 100 افراد جاں بحق ہو گئے۔ زمین پر جہاز کے گرنے سے کتنا جانی اور مالی نقصان ہوا اس کا اندازہ لگانا فی الحال مشکل ہے۔

یہ افسوس ناک فضائی حادثہ کیوں پیش آیا۔ کیا جہاز میں کوئی فنی خرابی تھی یا تجربہ کار ہوا بازوں سے کوئی کوتاہی ہوئی۔ یا پھر ائر پورٹ کے عملے اور کنٹرول ٹاور سے مناسب ہدایات نہیں مل سکیں۔ فی الوقت اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔ اور طیارہ حادثے کی اصل وجوہات سامنے آنے تک قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ بات تو شعبہ ہوا بازی کے ماہرین اور حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کی تحقیقات کے بعد ہی ثابت ہوگی کہ طیارہ گرنے کی اصل وجوہات کیا تھیں۔

فوراً ہی پی آئی اے کے سربراہ ائر مارشل ارشد ملک نے ایک پریس کانفرنس کی اور اس بات پر اصرار کیا کہ جہاز میں کوئی فنی خرابی نہیں تھی۔ اور یہ تکنیکی طور پر بالکل فٹ تھا جسے 2014 میں لیز پر حاصل کرنے کے بعد بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔ جہاز کلیر اور مکمل سرٹیفائیڈ تھا اور طیارے کے تمام چیکس کو بر وقت مکمل کیا گیا تھا۔ جہاز کے لینڈنگ گیئر سمیت کسی پرزے کی خرابی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ حادثے کی شفاف تحقیقات ہو گی۔ پاکستان میں طیارہ حادثے کی تحقیقات سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کرے گا جس میں بھی ائر فورس کے چار تجربہ کار افسران شامل ہوں گے۔

یعنی ائر مارشل صاحب نے حادثے کے چند گھنٹوں بعد تحقیقاتی رپورٹ آئے بغیر یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ یہ حادثہ طیارے میں کسی فنی خرابی کے باعث پیش نہیں آیا تو گویا جہاز کے کپتان نے جان بوجھ کر طیارہ زمین پر دے مارا۔

ہوائی حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کتنی شفاف ہو گی۔ اور کتنی غیر جانب دار۔ کتنی حقائق پر مبنی ہو گی اور کتنی جھوٹ پر۔ کس کس کی گردنیں بچائی جائیں گی اور کس کمزور کی گردن میں پھندا فٹ کیا جائے گا عوام اس سے بخوبی واقف ہیں۔

گزشتہ 70 سالوں سے تحقیقاتی کمیشن، رپورٹس، اور کمیٹیوں نے عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے اور یہ فوجی اور سیاسی ہر دور میں ہوتا آیا ہے۔

حادثہ چاہے ہوائی ہو، ریل کا ہو یا پھر زمینی، کرپشن اور فراڈ کے کیس ہوں یا مالی معاملات یا پھر الیکشن میں دھاندلی کے۔ یہ شفاف رپورٹ کبھی بھی عوام کے لئے عام نہیں کی جاتی ہے۔

اول تو یہ تحقیقات، پولیس، ایف آئی اے، نیب، جے آئی ٹی اور پھر آخر میں عدلیہ کے درمیان گھومتی ہے۔ اگر غلطی سے مہینوں برسوں میں تیار بھی ہو جائے تو دبا دی جاتی ہے کیونکہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں۔ اور یہ نام نہاد شفاف رپورٹ اس وقت تک دبا کر رکھی جاتی ہے۔ تا وقت کہ لوگ اس واقع کو بھول نہ جائیں جس مقصد کے لئے یہ کمیشن یا کمیٹی قائم کی جاتی ہے۔

یہ تحقیقاتی رپورٹس، یہ کمیشن، یہ کمیٹیاں یہ سب عوام کے لئے ایک دھوکہ اور اشک شوئی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتیں۔ ماضی میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں ہوائی حادثات کی تحقیقات کبھی بھی عوام کے سامنے نہیں لائی گیں اور جھوٹی رپورٹس تیار کر کے ساری ذمہ داری پائلٹس پر ڈال دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے مرحوم پائلٹس تو گواہی دینے سے رہے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ قومی اداروں کو آمرانہ اور سیاسی دونوں ادوار میں کس طرح سے لوٹ کر تباہ کیا گیا۔ ہم قومی ائر لائن پی آئی اے کی ہی مثال لے لیتے ہیں۔

قومی ائر لائن کی انتظامی، تکنیکی، اور مالی حالت ویسی ہی ہے جیسے دوسرے قومی اداروں ریلوے، سٹیل مل، وغیرہ کی ہے۔ لیکن پی آئی اے کا ایک شاندار ماضی بھی رہا ہے ایک وقت تھا جب قومی ائر لائن کا شمار دنیا کی چند بہترین ہوائی کمپنیوں میں ہوتا تھا لیکن ائر لاین کو اس ناگفتہ بہ حالت میں پہچانے والے کون سے عناصر ہیں، حکمران، سیاسی جماعتیں، مقتدر ادارے یا پھر خود پی آئی اے کی انتظامیہ اور عملہ۔

پی آئی اے قومی ائر لائن بننے سے پہلے اورینٹ ائر ویز کارپوریشن کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اورینٹ ائر ویز کا قیام برٹش انڈیا کے دور میں 29 اکتوبر 1946 کو کلکتہ میں ہوا۔ تقسیم سے پہلے مسٹر جناح نے یہ سوچ لیا تھا کہ نئی مملکت کی ترقی کے لئے ایک ائر لائن کی ضرورت ہو گی۔ اس ہوائی کمپنی کو قائم کرنے کے لئے اس وقت کے سرمایہ دار احمد اصفہانی، اور آدم جی سے مدد کی درخواست کی گئی۔

اورینٹ ائر ویز لمیٹڈ برطانوی راج میں مسلمانوں کی قائم کردہ پہلی اور واحد فضائی کمپنی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستانی حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ائر ویز کارپوریشن کے نام سے بنائی اور پہلی اکتوبر 1953 کو اورینٹ ائر ویز پاکستان انٹرنیشنل میں ضم ہو گئی۔

مارچ 1955 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے اورینٹ ائر ویز کے تمام آپریشن بند کر دیے گئے۔

اس نئی ائر لائن یعنی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن نے اپنی پہلی بین الاقوامی پرواز 1955 میں لنڈن کے لیے شروع کی جو بہ راستہ قاہرہ اور روم لندن جاتی تھی۔

پی آئی اے وہ پہلی ایشین ائر لائن تھی جس نے 7 مارچ 1960 کو اپنی پہلی جیٹ سروس کا آغاز کیا اور بوئنگ 707 کو کمرشل سروس کے لئے استعمال کیا۔

پی آئی اے پہلی غیر کمیونسٹ ہوائی کمپنی تھی جس نے 1964 میں چین کے لئے اپنی سروس کا آغاز کیا۔
اس کے علاوہ پی آئی اے نے لاک ہیڈ کمپنی کے کانسٹیلیشن جہاز بھی استعمال کیے جو بہت محفوظ جہاز سمجھے جاتے تھے۔

1973 میں میکڈونلڈ ڈگلس کے ڈی سی 10 طیارے بھی بیڑے میں شامل کیے گئے پھر 1981 میں پہلی دفعہ پی آئی اے کے فلیٹ میں ائر بس اے 300۔ 200 کا اضافہ کیا گیا۔ 1959 میں حکومت پاکستان نے ائر مارشل نور خان کو قومی ائر لائن کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا نور خان کی قیادت میں پی آئی اے کا یہ ایک سنہرا دور تھا۔ اس کے بعد آنے والے سربراہان نے چاہے ان کا تعلق ائر فورس سے رہا ہو یا سویلین وہ پی آئی اے کو فنی، تکنیکی اور شدید مالیاتی خسارے کی دلدل سے باہر نکالنے میں ناکام رہے۔

ماضی میں قومی ائر لائن کی مزید خدمات کا اگر ایک جائزہ لیا جائے تو 1985 میں قائم ہونے والی متحدہ عرب امارات کی ائر لائن ایمریٹس کے قیام میں پی آئی اے کا بہت اہم کردار تھا۔ ایمریٹس ائر لائن کو تکنیکی اور ایڈمنسٹریٹیو سروسز مہیا کی گیں۔ جس کے لئے ایمریٹس آج تک پی آئی اے کی خدمات کو سراہتی ہے۔ اس کے علاوہ قومی ائر لائن نے ائر چائنہ، ائر مالٹا، فلپائن ائر لائن اور صومالی ائر لائن کو بھی اسی طرح کی مدد فراہم کی۔

1980 کی دہائی کے وسط تک پی آئی اے کی ترقی کا گراف اوپر کی جانب ہی گیا۔ اور اس کے بعد ائر لائن کا زوال شروع ہو گیا۔

1990 کی دہائی قومی ائر لائن کے لئے بدترین ثابت ہوئی جس میں تکنیکی، انتظامی، اور مالی نقصانات، پائلٹس کی ہڑتال پر، ضرورت سے زائد سٹاف، سیاسی مداخلت سب شروع ہو گئے۔ آمرانہ دور حکومت میں تو تمام اختیارات عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ائر فورس بھی انہیں اداروں کا ایک حصہ تھی جس کے سربراہ ایک کمرشل ائر لائن کو فوجی ائر لائن سمجھ کر چلاتے رہے اور ناکام رہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ قومی ائر لائن کو جتنے انتظامی، تکنیکی اور مالی خسارہ جات سیاسی ادوار میں ہوئے ہیں تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

برسراقتدار سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ہر سطح پر بے تحاشا سیاسی بھرتیاں کیں صرف اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کے لئے۔ اگر ایک سیاسی پارٹی اپنے پانچ ہزار ورکرز نچلی سطح پر بھرتی کرتی تھی تو دوسری سیاسی جماعت اقتدار میں آکر سب کو نکال باہر کرتی تھی وجہ کہ ائر لائن اوور اسٹاف ہو گئی ہے۔ اور پھر دوبارہ سے اپنے حامیوں کو بھرتی کر لیا جاتا تھا۔ یہ کھیل عرصہ دراز تک جاری رہا نتیجہ یہ نکلا کہ ائر لائن میں ملازمین کی تعداد 23 ہزار تک پہنچ گئی جو انٹرنیشنل ایوی ایشن کے معیار سے تقریباً دو گنا زیادہ تھی جب کہ جہازوں کا فلیٹ صرف 42 تھا۔ جو اب کم ہو کر غالباً 30 رہ گیا ہے۔ ائر لائن کی اعلی انتظامی سطح پر سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے تھے۔ انٹرنیشنل اسٹیشنز پر تقرری کے لیے رسہ کشی، سفارشیں، سیاسی دباؤ، اقربا پروری، ہر حربہ استعمال کیا جاتا تھا اور شاید اب بھی جاری ہے

کراچی کے حالیہ فضائی حادثے اور ماضی میں جتنے ائر ایکسیڈنٹ ہوئے ہیں۔ ان حادثات کے لئے ایک محکمہ جو بالواسطہ طور پر ذمہ دار ہے وہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے۔ دنیا میں زیادہ تر ائر پورٹ شہر سے باہر کافی فاصلے پر بنائے جاتے ہیں تاکہ عوام جہازوں کے شور و غل سے محفوظ رہے اور کسی ہوائی حادثے کی صورت میں شہری آبادیاں محفوظ رہیں۔

یہ بات کے بی سی اے کے اعلیٰ حکام کے علم میں ہونی چاہیے کی کراچی ائر پورٹ دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈیا کے دور میں بنایا گیا تھا۔ یہاں امریکی ائر فورس کے جنگی طیارے وقتی طور پر لینڈ کرتے تھے۔ ایندھن اور دوسری فنی خرابیوں کو دور کرنے کے بعد برما اور چین کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ یہ کوئی باقاعدہ پیسنجر ائرپورٹ نہیں تھا بلکہ ایک فوجی ائر اسٹرپ تھی جس کی جگہ آج جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ بنایا گیا ہے۔

تقسیم سے پہلے یہاں میلوں دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن آج یہی ائر پورٹ آبادی کے بیچوں بیچ آ گیا ہے۔

تقسیم کے بعد 1950۔ 60 کی دہائیوں میں ائرپورٹ کے اطراف میں شہری آبادیوں کی قانونی اور غیر قانونی تعمیر شروع ہوئی جس میں سب سے پہلی شہری آبادی ماڈل کالونی تھی جو کراچی کے ہوائی اڈے سے محض دو میل کے فاصلے پر تھی اور اس کے بعد سے شہری تعمیرات کا ایک سیلاب آ گیا، مختلف کالونیاں، فلیٹس، اپارٹمنٹ، بلند و بالا عمارات، تعلیمی ادارے، ہسپتال، شادی ہالز سبھی ان میں شامل ہیں اور یہ سب کچھ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کنٹونمنٹ اداروں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ کے بی سی اے کا ادارہ ایک سونے کی کان ہے جس پر قبضہ کے لئے ہر دور میں صوبائی اور مقامی حکومتوں میں رسہ کشی جاری رہی ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی اور پی آئی اے دونوں کی جانب سے یہ مطالبہ اکثر و بیشتر سامنے آتا رہا ہے کہ ائر پورٹ کے اطراف سے شادی ہالز کو کہیں اور منتقل کیا جائے۔ کیونکہ کھانے پینے کی اشیا کی وجہ سے پرندوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ پرندے اکثر و بیشتر جہازوں کی اڑان اور لینڈنگ کے وقت ان سے ٹکرا جاتے ہیں۔ جو نہ صرف طیاروں اور ہوا بازوں کی جان کے لئے ایک خطرہ بن جاتے ہیں۔ بلکہ مسافروں کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ائر لائن کو طیاروں کی درستگی کی مد میں جو لاکھوں ڈالر نقصان اٹھانا پڑتا ہے وہ الگ ہے۔ لیکن کیا مجال ہے جو کسی متعلقہ ادارے کے کان پر جوں تک رینگتی ہو اور معاملات یونہی چلتے رہتے ہیں۔

اب عوام اور اور خصوصاً اسی فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو اس تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار رہے گا جس کے درست حقائق ان کے سامنے آنے کی ایک موہوم سی امید ہے۔ ماضی کا تجربہ تو یہی بتاتا ہے۔ اور نہ ہی ذمہ دار اداروں کی طرف سے آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لئے کوئی پیش بندی اور منصوبہ سازی کی جائے گی۔ کیونکہ پیش بندی اور احتیاطی تدابیر سے ہماری قوم کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جب ہم پر کوئی آفت اچانک نازل ہوتی ہے تو ہماری آنکھیں کھلتی ہیں۔

چند دنوں یا چند مہینوں کے بعد جب کسی المناک حادثے کے اثرات جونہی کم ہوتے ہیں۔ ادارے پھر ہائبرنیشن میں چلے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments