دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں


لیہ سے واپسی پر شہر سے باہر نکلتے ہوئے اگرچہ گاڑی کی رفتار مناسب حد تک تیز تھی لیکن مسافر کو یوں لگا جیسے بائیں طرف والی دیوار پر کوئی مانوس نام نظر سے گزرا ہے۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی واپس موڑنے کا کہا اور رفتار قصداً ہلکی رکھائی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ یہ کس عمارت کی دیوار تھی۔ محرابی انداز میں بنی اس طویل دیوار کے درمیانی حصوں کو اینٹوں سے پاٹ کر پلستر کر دیا گیا تھا تاہم محرابوں کی اوپری گولائیوں پر لگے پتھر سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ برس پہلے تک اس دیوار کا رنگ روپ مختلف ہوتا ہوگا۔ اتنے میں گاڑی دیوار پر لگی مانوس نام والی پتھر کی تختی تک پہنچ چکی تھی۔ مسافر کے کہنے پر ڈرائیور نے اب کی بار دائیں طرف موڑ کاٹا اور ”سول کلب“ کے صدر دروازے سے ذرا آگے تختی کے عین سامنے گاڑی کھڑی کر دی:

FOUNDED BY
S. M. ZAIDI, ESQ, CSP
SUB DIVISIONAL MAGISTRATE
1959
شام بھی تھی اداس اداس، حسن بھی تھا دھواں دھواں
دل کو کئی کہانیاں، یاد سی آ کے رہ گئیں!
(فراق گورکھپوری)

مسافر کو یاد آیا کہ اس کے مربی رشید ملک مرحوم 1950 ء کی دہائی کے اواخر میں بطور ایس پی مظفر گڑھ اپنی تعیناتی کے دلچسپ قصے سناتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ ان دنوں مصطفی زیدی بھی بطور اے سی لیہ تعینات تھے اور دونوں کی خاصی گاڑھی چھنتی تھی۔ تو کیا یہ ایس ایم زیدی، ایسکوائر، سی ایس پی، سب ڈویژنل مجسٹریٹ، لیہ وہی مصطفی زیدی ہیں؟

یادوں کا ایک ریلا ذہن سے گزرا اور مسافر نے خود کو تئیس برس قبل قصور کے نواحی قصبے کھڈیاں کی ٹاؤن کمیٹی کے دفتر سے کچھ فاصلے پر موجود واٹر سپلائی ٹینکی کے قریب کھڑا پایا جہاں کرمچی رنگ کی اینٹوں سے بنی پانی کی بڑی ٹینکی پر لگے افتتاحی کتبے کی عبارت یوں تھی:

واٹر سپلائی سکیم کھڈیاں ضلع لاہور
کی رسم افتتاح
جناب ایس مصطفی زیدی، سی ایس پی، ڈپٹی کمشنر، لاہور
نے 25 جون 1966 ء بمطابق 5 ربیع الاول 1386 ہ کو اپنے مبارک ہاتھوں سے فرمائی

بچپن سے ہی مطالعے کے رسیا مسافر نے کہیں پڑھا تھا کہ 1960 ء کی دہائی میں جب کسی نے فیض احمد فیض سے اردو شاعری کی صورت حال کے بارے میں سوال کیا تو خوبصورت شاعر نے اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ کا کش لے کر کہا: ”ہاں بھئی، اردو شاعری ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنری تک تو پہنچ گئی ہے۔ اب آگے دیکھیے!“

تو کیا میں اسی سنگ بنیاد کے سامنے کھڑا ہوں جو ویرا کے شوہر اور بعد ازاں شہناز گل کے عاشق سید مصطفی زیدی نے اپنی لیہ تعیناتی کے دوران نصب کیا ہوگا، مسافر نے سوچا۔ تقریباً چھے دہائیوں کے دوران گزرنے والے موسمی اور دیگر اثرات اس سنگ بنیاد پر نمایاں نظر آرہے تھے۔ سفید پتھر پر کھدے بیشتر حروف میں سے سیاہی اڑ چکی تھی اور کسی کھلنڈرے بچے نے انھیں کسی نوکدار چیز سے چھیدنے کی کوشش بھی کی ہوئی تھی۔ درست کہتے ہیں کہ لاعلمی بھی ایک عظیم نعمت ہے!

گاڑی لاہور کی جانب روانہ تھی لیکن مسافر کے ذہن پر الٰہ باد کے سید زادے تیغ الٰہ بادی کی زندگی کے مختلف ادوار کی فلم چلنے لگی۔ اوائل نوجوانی سے ہی جوش اور فراق جیسے بڑے شعرا کا ہم جلیس، اردو اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ رکھنے والا خوش فکر شاعر جس کی شعری صلاحیت کو سرکاری ملازمت بھی نہ چھین سکی، موت نے کتنی جلد ہم سے چھین لیا۔

چند گھنٹے بعد ساہیوال کے نواح سے گزر ہوا تو یادوں کا ایک اور لپکا مسافر کے ذہن میں کوندا۔ عام تاثر یہ ہے کہ شاعر لوگ اچھے منتظم نہیں ہوتے یا دوران ملازمت بھی ان کی ترجیح اپنی ادبی مصروفیات ہی ہوتی ہیں اور سرکاری امور کی انجام دہی میں وہ اتنی دلچسپی نہیں لیتے۔ اسے یاد آیا کہ ایک بار برسبیل تذکرہ علی طاہر زیدی صاحب نے اسے بتا یا تھا کہ جب وہ 1975 ء میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال تعینات ہوئے تو ابھی مصطفی زیدی کی وفات کو چند برس ہی گزرے تھے۔

ایک دن انھوں نے یونہی روا روی میں کچہری کے ایک پرانے اہلکار سے پوچھا کہ مصطفی زیدی صاحب یہاں اپنی ڈپٹی کمشنری کے دنوں میں شاعری اور ادبی سرگرمیوں وغیرہ میں ہی مصروف رہتے تھے یا کوئی کام وام بھی کر لیا کرتے تھے؟ تو پرانی وضع کے اس اہلکار نے بڑے احترام سے کہا: ”جناب اگر برا نہ مانیں تو سچ عرض کردوں؟“ ہاں ہاں ضرور بتاؤ، زیدی صاحب نے کہا۔ ”تو پھر سچی بات تو یہ ہے حضور کہ اس کچہری میں اپنی پچیس سالہ ملازمت کے دوران میں نے ان سے پہلے اور بعد ابھی تک کوئی ایسا افسر نہیں دیکھا جو ریونیو اور فوجداری قوانین کو ان سے بہتر سمجھتا ہو!“

گاڑی لاہور کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ مسافر کا گھر سول سروسز اکیڈمی کے نزدیک ہی واقع ہے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے یاد آیا کہ مصطفی زیدی نے اس ادارے میں دوران تربیت ایک مضمون بعنوان ”پاگل خانہ“ لکھا تھا جو بقول مسعود اشعر کہیں شائع نہ ہوا۔ اس نے سوچا اگر وہ مضمون چھپ جاتا تو مختلف مشاہیر کو لکھے مصطفی زیدی کے دیگر خطوط کی طرح اس کی فکر اور شاعری کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتا اور اگر مصطفی زیدی جوانمرگی کا شکار نہ ہوتا تو جدید اردو ادب کو چند مزید اچھی نظمیں ضرور مل جاتیں۔ رہے نام اللہ کا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments