عیدالفطر سے جڑی کچھ خوشگوار اور کچھ دل فگار خبریں


اس عید کے موقع پر جہاں ایک طرف کئی خوشگوار خبریں سننے کو ملیں تو دوسری طرف کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جن سے دل بڑا رنجیدہ ہوا۔

خوشگوار خبروں میں سے پہلی خبر یہ تھی کہ طویل عرصے کے بعد ملک کے چاروں صوبوں نے دو اور تین عیدوں کی بجائے ایک ہی دن کو ایک ہی عید مناڈالی۔ بعض لوگ عید پر اس اتحاد کا کریڈٹ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چوہدری کو دیتے ہیں جبکہ بہتوں کے ہاں یہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین جناب مفتی منیب الرحمان ہی کی دانشمندی تھی کہ انہوں نے بر وقت اور صحیح وقت پر شرعی گواہیاں لے کر عید کا اعلان کر دیا۔ بہر کیف جس نے بھی نے یہاں کے کروڑوں مسلمانوں کے اس مذہبی تہوار کو صحیح وقت پر منانے میں نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔

دوسری اچھی خبر یہ کہ عید کے اس مبارک موقع پر افغان طالبان نے چاند رات ہی کو افغانستان میں تین روزہ سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان سنتے ہی بخدا میرا دل باغ باغ ہو گیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس تین روزہ سیز فائر کے دوران اگر محض تین کلمہ گو افغان مسلمانوں کی جانیں بھی بچ جائیں تو اس سے خوشی کی بڑی خبر اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس وقت نہ صرف افغان عوام دہائیوں پر محیط اس طویل ترین جنگ سے کسی بھی قیمت پر جان چھڑانا چاہتے ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ خود طالبان اور حکومتی فورسز بھی مزید اس جنگ سے تھک چکے ہیں۔

امن کے لئے ترستے افغانوں کا اندازہ ہم اس سے لگاسکتے ہیں کہ پچھلے روز جب ایک صحافی نے روڈ پر جلیبی بنانے والے ایک غریب دکاندار سے تین روزہ سیزفائر کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہا تو دکاندار کا کہنا تھا کہ ”میں اپنی دکان پر جلیبی بنانے میں مصروف تھا کہ اس اثناء میں سامنے کچھ فاصلے پر افغان فورس کا ایک سپاہی اور طالبان سائیڈ کا ایک بندہ اکٹھے نظر آئے، یہ ناقابل یقین منظر دیکھ میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس منظر کو انجوائے کرنے میں میں اس قدر منہمک ہوا تھا کہ کچھ دیر بعد جب کڑاہی کی طرف پلٹا تو اس میں لگائی ہوئی سب جلیبی جل گئی تھی“ ۔

طالبان کے تین روزہ سیز فائر کے جواب میں فوری طور پر صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی حکومت کی طرف سے بھی تین دن کے لئے پورے افغانستان میں سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ عید کے دوسرے روز افغان صدر نے خیر سگالی کے طور پر ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے طالبان کے مزید دو ہزار قیدیوں کی رہائی کا فرمان صادر کر دیا۔ یاد رہے کہ ان دو ہزار قیدیوں کی رہائی سمیت افغان حکومت کی طرف سے اب تک طالبان کے کل پانچ ہزار قیدیوں میں سے تین ہزار قیدی رہا ہوئے ہیں جبکہ طالبان کی قید میں ایک ہزار حکومتی قیدیوں میں سے اب تک تین سو کے قریب قیدیوں کو رہائی ملی ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں بھی کہا تھا اور اب بھی مکرر عرض ہے کہ دو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار افغانستان کے ان دو سٹیک ہولڈرز کے درمیان باہمی مذاکرات (بین الافغان مذاکرات) اس وقت ممکن ہوسکتے ہیں جب یہ دونوں سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے جیسے معاملات سے نمٹ لیں۔ اب جب طالبان نے عید کے موقع پر سیز فائر کی صورت میں خیرسگالی کا بہترین مظاہرہ کیا تو اس کا مثبت نتیجہ انہوں نے مزید اپنے دو ہزار قیدیوں کی رہائی کی صورت میں وصول کیا۔

افغان حکومت کی طرف سے مثبت رویے کے جواب میں اگلی باری پھر طالبان کی آتی ہے یوں اس پروسس کو آگے بڑھانے کی خاطر طالبان کو سیز فائر میں مزید توسیع اور حکومتی قیدیوں کو حصہ بقدرجثہ رہا کرنا چاہیے۔ میرا کامل یقین ہے کہ جنگ بندی میں توسیع ہی کی برکت سے وہ حکومت کی طرف سے بہت جلد اپنے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کی خوشخبری سن پائیں گے یوں بہت جلد یہ دونوں اسٹیک ہولڈرز انٹرا افغان مذاکرات کے اہم ترین مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔ خدا نہ کرے کہ اگر خیرسگالی کے اس ماحول سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو پھر سے معاملہ خرابی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

دل فگار خبروں میں سے پہلی خبر لاہور سے پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے کا کراچی ائرپورٹ کے احاطے میں پیش آنے والا المناک حادثہ تھا جس میں ستانوے مسافر جہاز کے عملے سمیت شہید ہوگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون، اس حادثے نے نہ صرف ان خاندانوں میں صف ماتم بچھادی بلکہ پورے ملک غم سے نڈھال ہوگیا۔ حکومت کو اس حادثے کی تحقیقات میں پوری دیانتداری اور شفافیت سے کام لینا چاہیے اور ان بے حس لوگوں کو بے نقاب کرنا چاہیے جن کی بے حسی کی وجہ سے درجنوں خاندانوں نے راکھ کی صورت میں اپنے پیاروں کے جنازے وصول کیے۔

ایک اور دل فگار خبر ستم رسیدہ وزیرستان کے حوالے سے سنی جہاں میرعلی کے علاقے میں ایک مرتبہ پھر نقاب پوش دہشتگردوں نے عید کے پہلے دن ایک سی ایس ایس افسر سمیت تین قبائلی نوجوان کو شہید کر دیا۔ بدقسمت وزیرستان اس ملک کا وہ علاقہ ہے جہاں کے غیور قبائلی پشتونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے دوسرے ہر علاقے سے سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں۔ سوال اب یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ریاست ان لوگوں سے ماں جیسا رویہ رکھ کر وہاں پر مکمل طور پر امن بحال کروائیں اور اس علاقے کو مزید پسماندہ رکھنے سے احتراز کریں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments