عورت کے خلاف جرم کے وکیل ۔۔۔ خود پوشیدہ یا ممکنہ مجرم ہیں


کسی خیر خواہ نے زہرخند مسکراہٹ کے ساتھ استہزائیہ جملہ اچھالا ہے،

 “ہمارے ملک کی ہر عورت کاری، ونی یا سوارہ کا شکار نہیں ہوتی۔ہمارے ملک کی ہر عورت ریپ بھی نہیں ہوتی، ہمارے ملک کی ہر عورت کی قران سے شادی بھی نہیں ہوتی۔پھر اتنا واویلا کاہے کو؟ اتنا رونا دھونا کیوں؟”

نہہیں معلوم حیرت ہے یا کرب، لیکن ہم انگشت بدنداں سوچ رہے ہیں کہ کیا کسی دوسرے پہ گزرے ظلم کی تکلیف محسوس کرنا عنقا ہو چکا۔ کیا زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ دس کروڑ عورتیں روند دی جائیں، تب ہی واویلا حق بجانب ہو گا؟ ہماری سمجھ اس فکر کا احاطہ نہیں کر پاتی کہ معاشرے کے خوش نصیب طبقے کی عورت کا دامن اگر ان شعلوں کی لپیٹ میں نہیں آتا، تو وہ ان بدنما داغوں کو دیکھنے سے ہچکچاتا کیوں ہے؟

اس تناظر میں دیکھا جائے تو کربلا کے میدان میں دس ہزار مسلمانوں نے بہتر مسلمانوں کا خون بہایا۔ کچھ لوگوں پہ ہونے والے ظلم پہ چودہ سو سال سے واویلا، چہ معنی دارد؟

لاکھوں عورتوں میں سے ایک عورت زینب (رض) یزید کے دربار میں پہروں کھڑی ہوئی۔ نجانے وہ مزاحمت کا ایسا استعارہ کیوں قرار پائی کہ اس کی یاد بھلائی ہی نہیں جاتی۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ مسلم دنیا کی ہر عورت کے ساتھ یہ سلوک نہیں برتا گیا پھر اتنا واویلا کیوں؟

کشمیر اور فلسطین میں عورتوں پہ ہونے والے مظالم نجانے ہمیں چین کیوں نہیں لینے دیتے جبکہ دنیا بھر میں کروڑں مسلمان عورتیں محفوظ ہیں۔

ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کو وحشت و بربریت سے قتل اور عورتوں کے ریپ پہ لکھی جانے والی کتابیں اور بننے والی فلموں میں ہر برس اضافہ ہوئے جاتا ہے۔ اسی برس ہونے کو آئے، زخم ہیں کہ مندمل ہی نہیں ہو پاتے۔ کل ساٹھ لاکھ ہی تو مارے تھے۔ یورپ میں نوے لاکھ یہودی رہتے تھے۔ تیس لاکھ تو بچ گئے نا؟ اور اب تو دنیا میں یہودیوں کی تعداد پھر سے ڈیڑھ کروڑ ہو چکی ہے۔ قریب قریب اتنی ہی جتنی 1939 میں تھی۔ تو اتنا شور کاہے کو۔ کیوں ہٹلر کو ظلم کا استعارہ بنا رکھا ہے۔

کبھی کبھی ایک خیال دل کی زمین پہ اترتا ہے کہ ریپ تو ہم بھی نہیں ہوئے، کاری، ونی اور سوارہ ہونے کی نوبت بھی نہیں آئی، تعلیم کے مدارج بھی بخیر و خوبی طے ہوئے۔ خیر سے قران سے شادی کی نوبت بھی نہیں آنے پائی کہ نہ تو ابا گھوڑی پال مربعوں کے مالک تھے کہ حق بخشواتے اور نہ ہی اس ظرف کے مالک کہ اپنی ہی اولاد پہ زمین تنگ کر کے زندگی جہنم بنا دیتے۔

ہم کیا کریں اس دل کا جو ہر نصیب کی ماری کا غم سن کے بلبلا اٹھتا ہے کہ شاید یہ الم کی شام ہمارے دل پہ ہی گزری ہے۔ کوچہ کوچہ نگری نگری گھومنے کی نوکری تو صاحب کی تھی لیکن ہم نے بھی یہ سفر ساتھ میں طے کیا۔ چھوٹے شہروں میں تعیناتی، مرکز صحت میں آنے والی ان گنت عورتیں، ہر عورت ایک کہانی اور اس کہانی کا ہر ورق بوسیدہ اور لہولہان۔

یہ تھا ایک عام پاکستانی عورت کا چہرہ!

کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں زندگی بتانے، تعلیم یافتہ گھروں کی چھتر چھایا میں پلنے اور بنیادی حقوق رکھنے والے کسی دور دراز علاقے میں رہنے والی کی زندگی کیسے جان سکتے ہیں؟

کچی آبادیوں، دیہاتوں، پہاڑوں اور وادیوں میں رہنے والی اس عورت کے صعوبتوں سے بھرے دن رات، جسے یہ نہیں علم کہ دو وقت کی روٹی اور سر پہ ایک چھت کے علاوہ بھی وہ اپنی زندگی پہ کوئی اختیار رکھتی ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ اپنے آپ کو بھی باڑے میں بندھی بھیڑ بکریوں کی طرح ہی کی ملکیت سمجھتی ہے جس کے لین دین کا بیوپار گھر کا مالک، گاؤں کا چوہدری، پنچایت کے ٹھیکے دار اور مذہبی رہنما وقت و ضرورت کے مطابق کرتے ہیں اور اس کے پاس سر جھکانے کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔

زیادہ تر کی آواز تو شہروں میں محلات کے باسیوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی کہ نہ وہ اپنی آواز کی مالک ہیں اور نہ ہی الفاظ پہ قادر۔ کبھی کبھار گل سما کے کاری ہونے کی بھولی بھٹکی خبر رستہ بناتے بناتے پہنچ جاتی ہے تو کبھی ان لڑکیوں کے قتل کی کہانی جن کا قصور مہندی کے فنکشن میں بے خود ہو کے تالیاں پیٹنا تھا۔ کبھی گاڑی میں زندہ جلائی جانے والی لڑکی کی تصویر مل جاتی ہے تو کبھی سکول یونی فارم میں ریپ ہونے کے بعد کھیتوں میں مڑی تڑی لاش کی بے نور آنکھوں والی نظر آجاتی ہے۔

ہر ایسی خبر کے بعد پہروں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مضروب، آگ یا تیزاب سے جھلسا اور بربریت سے روندا جانے والا بے روح جسم کسی اور کا نہیں، ہمارا ہے۔ ان جیسی ہی ایک عورت کا جسم جو شومئی قسمت سے ان جرگوں، ان پنچایتوں، ان چوہدریوں اور مذہب کے ٹھیکےداروں کی گرفت سے محض اس لئے بچ نکلی کہ کسی درد مند کی آغوش نے اسے زمانے کی ان چیرہ دستیوں سے نہ صرف بچا لیا بلکہ وہ دل اور وہ زبان عطا کر دی، جو ان تمام بد نصیبوں کے نوحے پڑھنا اپنی خوش نصیبی سمجھتی ہے۔

ہم کیسے لکھیں کہ جب ہم کوئی ہمارے کان میں سرگوشی کرتا ہے،

” مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ابا کو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن دادا جان نے کالج نہیں جانے دیا کہ خاندانی روایات لڑکی کو کالج بھیجنے کے خلاف تھیں “

ایک اور آواز آتی ہے،

” آپ کا کالم پڑھ کے میں پہروں روئی، ایسا محسوس ہوا یہ تو میری کہانی تھی “

کبھی ہوا کے دوش پہ ایک پیغام تیرتا ہوا ہم تک آن پہنچتا ہے،

 “جو گزاری نہ جا سکے ہم سے (عورت بن کر) ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔ سرٹیفیکیٹ برائے مثالی عورت ملا اپنی ذات کی نفی و ذلت و خواری کے بعد۔ میں پہاڑی علاقے کے ایک قصبے کی رہنے والی ہوں۔ پیدائش سے لے کر آج تک ہر وہ ظلم سہا ہے جس کو عورت کا نصیب سمجھا جاتا ہے۔ بہت مشکل سے پرائیویٹ طور پہ تعلیم حاصل کی ہے۔ کسی بڑی لائبریری جانا میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے۔ چھپ چھپا کے فیس بک اکاؤنٹ بنایا ہے کبھی کبھار موقع مل جاتا ہے دیکھنے کا “

ان سب بدنصیبوں کے زخم ہمیں مضروب بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے قلم کو وہ تقویت بھی بخشتے ہیں جو سنگباری کے باوجود مصلحتوں کے تقاضے سمجھتا ہی نہیں۔  کم از کم ان ظالموں میں ہمارا شمار نہیں ہوتا جو اپنی جہالت کو روایت، جرم کو رسم اور ظلم کو حق سمجھتے ہیں۔ ہم نے ایک سادہ سا اصول سمجھا ہے، جو عورت پر ظلم کی وکالت کرتے ہیں، وہ یا تو پوشیدہ مجرم ہیں یا ممکنہ مجرم ہیں۔ ان کے پاس عقل یا دلیل نہیں، احساس کی دولت نہیں، صرف یہ امکان ہے کہ اگر انہیں موقع ملے گا تو وہ بھی یہی جرم کریں گے جسے وہ اعداد و شمار کی بھول بھلیوں، وطن دوستی کے نام پر گمراہی اور مذہب کے نام پر ریاکاری کی اوٹ میں چھپانا چاہتے ہیں۔

ہزاروں میل دور سے ہم تک پہنچنے والی ایک مجبور کی نظم دیکھنا چاہیں گے آپ؟

‎میں ڈرتی ہوں

‎  میں ڈرتی ہوں!

‎  روز مرتی ہوں!

‎  ستم گر ہے

‎  بشر کے نام پر

‎  انسان نما حیوان

‎  ستم گر ہے

‎  بہت بے باک

‎  بہت چالاک

‎  وجود خاک

‎  زباں کا گھاؤ دیتا ہے

‎  زمیں میں گاڑ دیتا ہے

‎  اف! یہ امتحاں

‎  میں ناتواں……

‎  نظریں جھکیں

‎  سر کو اٹھا

‎  بس آسماں کو…. دیکھے جاتی ہوں

‎  مدعا کےاشک اپنے…..لے کے جاتی ہوں

‎  چھپا کے منہ

‎  سرگوشی میں کہتی ہوں

‎  ہاں واقعی !

‎  میں! ڈرتی ہوں

‎  ظالم زمانے سے

‎  میں ڈرتی ہوں

‎  میں روز مرتی ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments