موت اور روح۔۔۔ حقیقت یا واہمہ؟


\"abdul-rauf\"پچھلے دنوں میرے دادا ابا کی موت واقع ہوئی۔ ان کی اور خاندان میں دیگر رشتہ داروں کی اموات نے مجھے موت اور روح وغیرہ سے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا۔ کسی بھی جاندار کی موت قدرتی طور پر کیوں اور کس طرح واقع ہوتی ہے؟ روح کیا ہے اور موت اور زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اگر روح پر کوئی بیرونی طاقت قدرت رکھتی ہے تو مجرمانہ سوچ سے پیداکردہ قتل کس کا مرہون منت ہیں؟ اگر روح محض ذہنی اختراع ہے تو ایسی کیا شے ہے  جو جاندار اور بے جان کی تفریق کرتی ہے اور جس کے نہ ہونے سے موت واقع ہو جاتی ہے؟ میرے مطابق ایسے سوال جوابوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ یہ ہماری سوچنے سمجھنے کی حیرت انگیز خصوصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

تھوڑی دیر کے لیئے فلموں، ڈراموں کے وہ مناظر اپنے ذہن سے نکال دیں کہ جن میں موت کی عکس بندی کرنے کے لیئے روح ہوا کی صورت میں جسم سے باہر نکالی جاتی ہے اور جس کی شکل بالکل متعلقہ جسم کی سی ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو وہ بات بھی کر سکتی ہے، کیونکہ یہ ایک تصویری جھوٹی کہانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اور اگر آپ اس روح کا سراغ لگانا چاہتے ہیں جو کسی شاعری یا پھر تصوف کی ہوتی ہے، تو آپ یقینی طور پر ایک غلط تحریر پڑھ رہے ہیں۔ ہاں اگر آپ کی تلاش تمثیلوں سے نبرد آزما ہے تو یہ سفر جاری رکھیں کہ جس کا میں بھی سائل ہوں۔

موت ایک ایسا عالمگیری سچ ہے کہ اس نے نسل انسانی کو شروع ہی سے پریشان و متجسس رکھا ہے۔ اور اس کے متعلق تصورات ہی ہماری زندگی جینے کا طریقہ تشکیل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگرہم سمجھتے ہیں کہ موت محض ایک واہمہ ہے اور یہ کہ ہم اس کے بعد ہی \’بہت کچھ\’ کریں گے، تو موجودہ زندگی میں کچھ اچھا اور بڑا کرنا مشکل ہی ہے۔ اسی لیئے موت اور اس سے ملتے جلتے تصورات سے متعلق سوچنا بہت اہم ہے، یہ الگ بات کہ ہم عام طور پر اس موضوع پر بحث نہیں کرتے۔

موت کو سمجھنے کے لیئے زندگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمارا سب سے حیران کن جسمانی حصہ دماغ ہے جو نہ صرف ہمارے جسم کو قوت حیات دیتا ہے بلکہ ہماری سوچوں کو پیدا کرنے والا بھی یہی ہے۔ یہ خلیوں میں برقی ارتعاش اور مختلف حصوں میں پیغام پہنچاتا ہے۔ جو ہر جسم کے حصے کو باہمی ربط سے کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اور یہی چیز ہمیں بے جان اشیا سے الگ کرتی ہے۔ اگر میں کہوں کہ دماغ ہی جسم کے دوسرے حصوں میں جان ڈالتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔  یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانی دماغ استعمال کرتے ہوئے نئے جانداروں کو تخلیق کیا جا سکتا ہے؟ کلوننگ اور انتہائی فارمنگ جیسے طریقے گواہ ہیں کہ اس کا جواب \”ہاں\” ہے۔ ہم انسان بلی، چوہا، خچر، گھوڑا اور بندر بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یعنی صحیح نظام کو سازگار ماحول دینے پر نیا جاندار بنایا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر جاندار میں روح ہے تو کیا اس طرح جانداربنا کر اور اس میں تبدیلیاں لا کر کیا روحوں کی تعداد میں اضافہ کررہے ہیں؟ حالانکہ ہم نے \”غیر مادی شے یعنی روح\” جسموں میں داخل نہیں کی پھر بھی جیتا جاگتا جاندار لیبارٹری میں بنا رہے ہیں۔ کیا روح کا تصور ہمیشہ رہنے کی پرانی خواہش کا نتیجہ ہے یا پھر موت سے شدید خوف کا؟

ہمارے احساسات و جذبات ہمیں روح کے ہونے کی چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیں تو یہ گواہی بھی انہی کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ تو متوسظ درجےکا عاقل بھی سمجھ سکتا ہے کہ احساسات و جذبات لازمی طور پر حقیقت کا پیش خیمہ نہیں ہوتے۔ دوسرے لفظوں میں کسی شے کے بارے میں آپ کا خیال اس شے کی حقیقت بیان نہیں کرتا۔ کیوں نا اس صورت حال کو ذاتی میلان سے پاک ہو کر سمجھا جائے اور جانا جائے کہ ہمارے جذبات بھی دماغ سے پیدا کردہ کیمیکلز اور ہارمونز سے منسلک ہیں۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کیمیکل اور ہارمونل تبدیلیاں لا کراحساسات و جذبات کی ماہیئت بدلی جا سکتی ہے۔ اب یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے اس طرح روح کی ماہیئت کو بھی بدل دیا ہے؟ اگر ہاں تو بلھے کی طرح آپ جانیں، یہ آپ کا اپنا معاملہ ہے۔ آپ بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں اس گواہی کے بارے میں رائے دینے سے قاصر ہوں جو چیخ چیخ کر دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments