جب بے نظیر نے برستی گولیوں میں بوسنیا کا دورہ کیا


دنیا بھر کے سفارتی حلقوں میں بھونچال آ گیا جب پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کہا کہ وہ سراجیوو جائیں گی۔ بوسنیا میں تین سال سے جنگ جاری تھی اور سابق یوگوسلاویہ کی نسل پرست سرب افواج نے نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کا خونی کھیل شروع کر رکھا تھا، ایک لاکھ بے گناہ مسلمان شہید ہو چکے تھے، لاکھوں ہجرت کر چکے تھے، ہزاروں مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جا رہی تھیں اور اکثر مقامات پر یہ ظلم عالمی امن فوج کی موجودگی کے باوجود ہو رہا تھا، نومولود مسلم اکثریتی ملک کے دار الحکومت سراجیوو کے محاصرے کو دو سال ہو چکے تھے اور زندگی پر موت کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔

مسلمانوں کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ تھی اور مغربی ممالک کی کوشش تھی کہ ان کو پچاس پچاس ہزار یا ایک لاکھ کی تعداد میں مختلف یورپی ممالک میں پناہ دینے دینے کے نام پر اپنے ملکوں اور معاشرے میں کھپا دیا جائے اور اس طرح یورپ کے قلب میں ایک مسلم اکثریتی ملک کے قیام کا امکان ہی نا رہے، کوئی عالمی طاقت یا حکمران کمزور بوسنیائی مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرنے کو تیار نہیں تھا۔

ایسے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے سراجیوو جانے کا فیصلہ کیا اس کے لئے انہوں ترک وزیر اعظم تانسو چلر سے رابطہ کیا اور دونوں نے اپنے فیصلے سے اقوام متحدہ کو آگاہ کر دیا۔ یہ سنتے ہی ہر طرف کھلبلی مچ گئی ان دونوں دلیر خواتین کو ڈرانے کی کوشش کی گئی کہ سراجیوو ائرپورٹ سربوں کے محاصرے میں ہے آپ کے جہاز کو گرایا جا سکتا ہے۔ شہر میں ہر طرف سرب فوج کے اسنائپر شوٹر موجود ہیں شہر میں شدید خانہ جنگی ہو رہی ہے آپ دونوں پر قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے، پر مسلم دنیا کی یہ دونوں پرعزم رہنما اپنے سراجیوو جانے کے ارادے پر شدت قائم رہیں۔

دنیا کو اب یہ خطرہ درپیش ہو گیا کہ پاکستان اور ترکی دو عظیم ملک ہیں اگر ان کی وزرائے اعظم کے ساتھ کوئی حادثہ یا اونچ نیچ ہو گئی تو پوری دنیا کسی عالمی جنگ کی طرف جا سکتی ہے، اس خطرے کا احساس ہونے کے بعد امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کی جانب سے جارح سربوں کو سخت پیغام دیا گیا اور انہیں کسی متوقع جارحیت کے خطرناک نتائج سے آگاہ کر دیا گیا کہ وہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے باز رہیں۔

3 فروری 1994 کا دن تھا، جب پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ترک وزیر اعظم تانسو چلر بوسنیا کے دار الحکومت سراجیوو پہنچیں، وہاں کے شہریوں نے ان دونوں کا والہانہ استقبال کیا۔ انہوں نے بوسنیا کے صدر عالی جاہ عزت بیگ اور بوسنیا کے عوام سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ وہ تن تنہا نہیں پاکستان اور ترکی ہر طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

اس دورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بوسنیا کا مسئلہ اور وہاں مسلمانوں کا قتل عام عالمی طور پر نمایاں ہو کر سامنے آیا، جس نے دنیا بھر کا ضمیر جھنجوڑ دیا اور اس دباؤ کے نتیجے میں امریکا کے صدر بل کلنٹن نے امریکی افواج کو سرب ٹھکانوں پر گولہ باری کرنے اور ان کی جارحیت محدود کرنے کے احکامات جاری کیے۔

ان اقدامات سے نوزائیدہ بوسنیائی حکومت کو سانس لینے اور اپنی پولیس اور آرمی قائم کرنے کا وقت اور موقع ملا۔ بعد میں 1995 ء میں سرب، کروٹ اور بوسنی فریقوں کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا اور آج بوسنیا ہرزیگووینا کا ملک یورپ کے قلب میں اپنی مسلم اکثریتی آبادی کے ساتھ قائم ہے۔

بوسنیا ہرزیگووینا آج نہ ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو اس میں مسلمان نہ ہوتے، اگر بے نظیر بھٹو ہمت نہ کرتیں اور ترک وزیر اعظم کو ساتھ لے ان سنگین حالات میں بوسنیا کا دورہ نہ کرتیں اور اس کے بعد بوسنیا کو خوراک، اسلحہ اور امداد فراہم نہ کرتیں۔

شکریہ محترمہ بے نظیر بھٹو، آپ جہاں پاکستان کے عوام اور دنیا بھر کی مسلم خواتین کے لئے ایک رہنما مثال ہیں، وہیں بوسنیا ہرزیگووینا کے عوام خاص طور پر آپ کو اپنے محسن کے طور پر یاد رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments