کورونا کی کوکھ سے تبدیلی برآمد کرنے والے دانش فروش


سوشل میڈیا کے نو آموز اور نیم پختہ قلمی مجاہدین نے تو عالمگیر کورونا وبا کی آڑ میں مذہبی، سائنسی، طبی، سیاسی، تہذیبی، تمدنی، نفسیاتی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی، کاروباری اور انتظامی حوالے سے جدت اور ندرت پیدا کرنے کے ایسے بے سروپا اور از کار رفتہ نسخے دینا ہی تھے جن کو سن کر ایک باشعور آدمی اپنا سر پیٹ کر رہ جائے کیونکہ ایسے اناڑی اور نکھد قسم کے شوقیہ مصلحین سے کسی ڈھنگ کی بات کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی مگر حیرت ہمیں ان نام نہاد پختہ کار اور کہنہ مشق دانشوروں کو اپنا چورن بیچتے ہوئے دیکھ کر ہوئی جو گا تو بے وقت کی راگنی رہے ہیں مگر اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ افراد معاشرہ کی فکری راہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

وضو کو کورونا کا علاج بتا کر اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی بازگشت ابھی فضا ہی میں تھی کہ پتہ چلا کہ پاکستان میں کورونا سونامی کے ذمہ دار ہی چند مذہبی طبقے ہیں۔ یہاں دال نہ گلتی دیکھی تو ماسک کو پردے کا قائم مقام قرار دے کر پردے کے فضائل بیان شروع کر دیے۔ اس مہم کے جواب میں کسی دل جلے نے یہ تعبیر پیش کی کہ پھر تو ہندو مذہب سچا ہوا کیونکہ ہندو مت میں تو مصافحہ کرنے اور گلے ملنے کے بجائے دونوں ہاتھ جوڑ کر ایک دوسرے کو نمستے کیا جاتا ہے۔

ادھر سے پسپائی ہوئی تو یہ کلیشے تراشا کہ انسان صدیوں سے سائنسی اور مادی ترقی کے ہفت اقلیم سر کر رہا تھا۔ ہوش ربا صنعتی و تجارتی ترقی کی وجہ سے کائنات کے نظام میں بگاڑ آ گیا تھا۔ خطرناک جنگی ہتھیاروں کے تجربات سے اوزون کی تہ برباد ہو رہی تھی۔ زمین اور اس سے آگے سمندر کی پنہائیوں میں فطرت کے رنگ ماند پڑ رہے تھے۔ انسان کے علاوہ چرند، پرند، درند، حشرات الارض اور آبی و جنگلی حیات شدید متاثر ہو رہی تھی۔ سو خالق کائنات نے کورونا کا خوف پھیلا کر ظالم انسان کو کچھ مدت گھروں میں محصور کر کے دوسری مخلوقات کو بھی آزادانہ طور پر زندگی سے لطف لینے کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے۔

فضائی اور زمینی ٹریفک کے منجمد ہونے کی وجہ سے فضائی آلودگی ختم ہو چکی ہے کہ میں ”دھرم شال“ کی بلندی پر کھڑا ہو کر ایل او سی کے اس پر پونچھ شہر کی رونقیں بآسانی دیکھ سکتا ہوں۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا رش میں پھنس کر گھنٹوں خوار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پانچ گھنٹے کا جانکاہ سفر اب ڈیڑھ گھنٹے میں سکڑ آیا ہے۔

ابھی یہ لوگ ان ”جانفزا“ تبدیلیوں پر تالیاں پیٹ ہی رہے تھے کہ خبر ملی کہ کورونا نے انسان کی حرکتوں کی وجہ سے بگڑنے والے نظام زندگی میں ”توازن و تناسب“ تو قائم کر دیا ہے مگر ساتھ ہی دنیا کی معیشت کا بھٹہ بھی بٹھا دیا ہے۔ فطری مناظر کی جولانیاں اور رعنائیاں تو نکھر گئی ہیں مگر اربوں لوگوں کے بے روزگار ہونے کی وجہ سے ان سے لطف اندوز ہونے والے ناپید ہو گئے ہیں۔

ادھر سے مایوسی ہوئی تو قلمی دانشوروں کا لشکر جرار پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان پر پل پڑا۔ سو کورونا کے کوڑے کو عذاب الہٰی بنا کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان پر رسید کرنا شروع کر دیا جنہوں نے حکومت کے حکم پر تعلیمی ادارے تو بند کر دیے ہیں مگر آن لائن کلاسز کا ڈھونگ رچا کر غریب والدین سے بھاری فیسیں اینٹھ رہے ہیں۔ ابھی ان کے وار جاری ہی تھے کہ گھر بیٹھے ان کے شوخ و شریر طفلان کی فوج نے ان کی ناک میں ایسا دم کیا کہ تعلیمی اداروں اور معماران قوم کی اہمیت و افادیت ان پر یکبارگی آئینہ ہو گئی۔

تب ان میں سے بہت سوں کی سمجھ شریف میں آیا کہ جس بھاری پتھر کے اٹھانے کی ذمہ داری لامحدود ریاستی وسائل کی موجودگی میں ریاست پر عائد ہوتی ہے اسے اگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان محدود وسائل اور بے شمار مشکلات کے باوجود چند سر پھرے لوگ اٹھا رہے ہیں اور جہالت کی تاریکیوں کو علم کے نور سے بدل رہے ہیں تو ہمیں زندہ قوموں کی طرح ان پر تبرا کرنے کے بجائے انہیں سلام پیش کرنا چاہیے۔

کورونا وبا کے دوران ہم ایک اور بخار میں اندھا دھند مبتلا ہو گئے۔ ایک عدد سمارٹ فون تو ہمارے ہاتھ پہلے ہی لگ چکا تھا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دھڑا دھڑ یو ٹیوب چینلز بنا کر مذہب، سیاست، تعلیم، سماجیات، تفرقہ بازی اور ذات برادری کے نام پر انتہائی باسی اور مضر صحت چورن بیچنا شروع کر دیا، بدہضمی تو ہونا ہی تھی۔ مشورے دیے جانے لگے ہیں کہ بس اب دنیا ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ تعلیم سمیت ہر کاروبار آن لائن ہو گا۔ دیو ہیکل ادارے، عظیم الشان دفاتر، یونیورسٹیاں، بڑی بڑی مارکیٹس، شاپنگ پلازے، دکانیں، ہنر مندوں کے ٹھکانے اور مکینکس کی ورکشاپس وغیرہ سب قصۂ پارینہ بننے والے ہیں۔ جب ہر کام آن لائن ہو گا تو ان چیزوں کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ آن لائن سسٹم کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ، میز کرسی اور ایک سمارٹ فون کافی ہے۔

ہم بس اپنا یو ٹیوب چینل کھول کر احباب سے انگوٹھے کے نیچے پریس کا بٹن دبا کر اسے سبسکرائب کرنے کی درخواست کرنے ہی والے تھے کہ پتہ چلا کہ چین سمیت سارا یورپ آہستہ آہستہ پرانی روش کی طرف لوٹ رہا ہے۔

کورونا کی وجہ سے زندگی میں در آنے والی ہنگامی اور وقتی تبدیلیوں سے کچھ اچھے بھلے دانش ور قسم کے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے یورپ کی طرح یہاں بھی سونے، جاگنے، سیر سپاٹے، سحر خیزی، کاروبار اور تجارت کے باقاعدہ انقلابی نظام الاوقات ترتیب دے ڈالے۔ انہوں نے حکومت کو صائب مشورہ دیا کہ ہر پاکستانی کو صبح تاروں کی چھاؤں میں جگایا جائے۔ جو گھوڑے بیچ کر سونے کے عادی ہوں ان کے منہ پر پانی کی بالٹی انڈیل کر انہیں جگایا جائے اور ساتھ حالی کا یہ مصرع کہ کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں یا اقبال کا وہ بدنام زمانہ شعر سنایا جائے جس میں انہوں نے زمستانی ہوا کی کاٹ کے باوجود لندن میں آداب سحر خیزی کو ترک نہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ کاروباری مراکز صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک کھولنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ ہمارا وقت بھی بجے، توانائی بھی اور صلاحیتیں بھی۔ اس طرح حاصل ہونے والے زائد وقت کو ہم بڑے اطمینان سے دوسروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنے کے کام میں صرف سکتے ہیں۔

ایسا قیمتی مشورہ دینے والے دانشوروں سے یہ سوال ہر گز نہ کریں کہ پی پی کے دور میں حکومت کی اس مخلصانہ کاوش نے منہ کی کیوں کھائی تھی؟ نہ ان سے یہ پوچھیں کہ ان کے خیال میں یورپ اور پاکستان میں وہ کون کون سی مذہبی، معاشی، سیاسی، قانونی، سماجی، اخلاقی، معاشرتی، تعلیمی، حکومتی، نفسیاتی، کاروباری اور تہذیبی و تمدنی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر وہ یہ مشورے دیتے پھر رہے ہیں؟ گھوڑے کو شیر کی کھال پہنا دی جائے تو کیا وہ شیر بن جائے گا؟

کورونا کو عظیم المرتبت اور ہمہ گیر قسم کی انقلابی تبدیلیوں کا منبع و مرکز سمجھ کر انٹ شنٹ مشورے دینے والے افلاطونوں سے گزارش ہے کہ کورونا ماضی بعید اور قریب میں آنے والی بے شمار وباؤں کی طرح ایک وبا ہے۔ اور وبا میں ہنگامی، وقتی، احتیاطی اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنا سنت نبوی صلعم بھی ہے اور عقل انسانی کا تقاضا بھی۔ کورونا کو ہماری دنیا کی ہوش ربا ترقی سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ اسے ہماری اصلاح سے کوئی دلچسپی ہے۔

نہ یہ ہمارے ”بگڑے“ عقائد ٹھیک کرنے آیا ہے اور نہ ہماری ترقی کے قابل فخر سفر کو روکنے آیا ہے۔ نہ ہمارا طرز حیات درست کرنے آیا ہے نہ ہمارے نظام کو بدلنے آیا ہے۔ ہماری معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک کوئی ”کافر اور ملحد“ سائنسدان اس کی ویکسین نہیں بنا لیتا اس وقت تک بھرپور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے یہود و ہنود کو گالیوں سے نوازتے رہیں۔

کورونا کی وجہ سے آنے والی تبدیلیوں کو دیرپا سمجھ کر ان کو حرز جاں بنانے کی ضد کریں گے تو آنے والے دور میں ہمارے ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ ”مفتیان کرام“ اور ”واعظان خوش بیان“ مسجد میں نمازیوں کے درمیان تین سے چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنے کے خلاف فتوے دے رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments