نظریہ کیوں ضروری


نظریہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی بھی درپیش معاملے میں کیا رائے رکھتے ہیں
یا آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں
اس کی سادہ ترین مثال ”یک قومی نظریہ“ اور ”دو قومی نظریہ“ ہے
جب برٹش حکومت نے ہندوستان کی آزادی کے لئے سیاسی جماعتوں سے بات چیت شروع کی تو اس معاملے میں

کانگرس کا نظریہ تھا کہ ”ہندوستان میں صرف ایک قوم رہتی ہے اور وہ ہے ہندوستانی۔ ۔ ۔ اس لیے ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے“

مسلم لیگ کی طرف سے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا اس بارے میں یہ نظریہ تھا کہ

”ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں۔ ۔ ۔ جو اپنے طرز معاشرت، اپنے عقائد، اپنے رسوم و رواج غرضکہ ہر لحاظ سے دو الگ قومیں ہیں۔ اس لیے ہندوستان کی تقسیم لازمی ہے“

اسی طرح نظریہ میں بہت سی اقسام ہیں جن میں نظریہ سیاسی اور نظریہ مذہبی قابل ذکر ہیں۔

نظریاتی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گی اس میں نمایاں اختلاف نظر آیں گے جس سے معاشرے میں توازن باقی رہے گا۔ معاشرہ نظریہ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے بغیر اپنی سمت متعارف کراسکتا ہے۔ جب پاکستان کو محمد علی جناح بنانے نکلے تھے تو ایک نظریہ تھا اور سی طرح کسی بھی قوم کو عظیم بنانے کے لیے نظریہ کا ہونا لازمی ہے چاہے وہ سیاسی ہو، معاشی ہو، معاشرتی ہو، مذہبی ہو۔

ہم نے زندگی میں کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کا کوئی نام نہ ہو اور جو معمولی ساکھ بھی نہ رکھتا ہو۔ معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے آدمی کو شناخت اور کام دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نام شناخت کا ذریعہ ہے، اور کام سے ساکھ بنتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کی شناخت نہ ہو اور وہ ساکھ سے بھی خالی ہو، کیونکہ نام اور ساکھ کے بغیر قوم بنتی ہے اور نہ باقی رہ سکتی ہے۔ نظریہ معاشرے کو شناخت دے کر قوم بناتا ہے۔ لیکن نظریہ کچھ عملی مقاصد بھی رکھتا ہے، جن کا حصول قوم کی ساکھ بناتا ہے۔ جدید دنیا میں قوم ہونے کا مطلب ہی سیاسی شناخت ہے جو کسی نہ کسی نظریے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نظریہ سیاسی ہوتا ہے اور قوم کے سیاسی عمل کے مقاصد بھی متعین کرتا ہے۔

ایک آدمی کا کام انفرادی یا سماجی ہوتا ہے، جبکہ قوموں کا کام اجتماعی ہوتا ہے۔ اجتماعی عمل کی نوعیت سیاسی، معاشی اور علمی ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر قوم کا سیاسی عمل کچھ طے شدہ اقدار و نظریات کے تحت سرانجام پاتا ہے، اور قوم کی سیاسی اور معاشی پالیسی کے ساتھ ساتھ فکر میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ رہنما سیاسی اقدار قوم خود ہی طے کرتی ہے اور ان پر عمل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ اس جدوجہد کا بنیادی دائرہ سیاسی بقا اور ترقی ہے۔ اپنی اجتماعی اقدار طے کرتے ہوئے ہر معاشرہ اپنی تاریخ، مذہبی تعلیمات، سیکولر فکر اور ثقافتی ترجیحات وغیرہ کو لازمی سامنے رکھتا ہے، اور انہیں کے تناظر میں اپنی اقدار اور رہنما اصول طے کرتا ہے۔ سیاسی اقدار اور نظریہ انفرادی نہیں ہوتا، بلکہ اجتماعی ہوتا ہے۔ اور اجتعاعی سوچ اور فکر سے ہی قوم بنتی ہے۔

جدید زمانے میں دنیا کے بہت سے معاشروں نے، خاص کر استعمار کے غلام معاشروں نے، اپنی تاریخ کو پسماندہ قرار دیا، اور اپنے روایتی خیالات اور مذہبی تعلیمات کو زمانے کے غیر مطابق سمجھا اور نئے سیاسی خیالات کی ضرورت محسوس کی یا وہ نئے سیاسی خیالات اپنانے پر مجبور ہوگئے۔ برصغیر کے مسلمانوں کو بھی انیسویں اور بیسویں صدی میں حد درجہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ استعمار کے تحت نہ صرف معاشی رشتے تبدیل ہوئے، بلکہ طاقت کے رشتے بھی بدل گئے، اور ان کے اظہار کا اسلوب بھی یکسر بدل گیا۔

مسلمانوں کو بھی اپنی بات نئے حالات کے مطابق کہنا پڑی۔ صورت حال یہ تھی اگر وہ جدید تعلیم اور جدید وسائل کو اختیار نہ کرتے تو مٹنا یقینی تھا، اور اگر وہ جدید تعلیم اور نئے خیالات کو مکمل طور پر اختیار کرتے تو ان کی مذہبی شناخت باقی نہیں رہ سکتی تھی۔ کیونکہ اگر کسی معاشرے کی بنیادی شناخت سیاسی نہ بن سکے تو وہ کمزور ہو کر بہت جلد غیر اہم ہو جاتی ہے۔ دو قومی نظریے نے مسلمانوں کی اس فوری ضرورت کو پورا کیا۔

جدید عہد میں ”قوم“ کا لفظ سیاسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور نظریے کے بغیر قوم کا تصور ممکن نہیں، اور نہ کوئی معاشرہ قوم بن سکتا ہے۔ ہر جدید نظریہ کچھ سیاسی اور معاشی بیانات کا مجموعہ ہوتا ہے جو قوم کی شناخت کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے سیاسی عمل کے طریقۂ کار اور معاشی مقاصد میں رہنمائی کرتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دو قومی نظریے نے بھی یہی کام کیا ہے۔

جیسا کہ عرض کیا کہ دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہوتا جس کی نہ کوئی شناخت ہو اور نہ کوئی ساکھ ہو۔ اسی طرح کوئی قوم بھی ایسی نہیں ہو سکتی جو شناخت اور عمل سے بالکل خالی ہو۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی معتبر قوم شناخت بھی رکھتی ہو اور اپنے سیاسی عمل کی رہنما اقدار بھی رکھتی ہو لیکن انہیں نظریہ نہ کہتی ہو۔ اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسی صورت میں وہ قوم ان کو ”قومی“ یا ”سیاسی اقدار“ کہتی ہے۔

مثلاً یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تین فٹ طول و عرض کے کپڑے سے کسی طاقتور قوم کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ تو عموماً جواب آئے گا کہ یہ سوال ہی احمقانہ ہے۔ لیکن حجاب بنتے ہی کپڑے کا یہ مختصر سا ٹکڑا کچھ مذہبی اقدار کا نمائندہ بن جاتا ہے اور کچھ سیاسی اور قومی اقدار کے لیے خطرہ۔ ہر قوم کی زندگی میں ”نظریے“ اور ”سیاسی اقدار“ کی حیثیت ایک جیسی ہے اور وہ ایک ہی طریقے پر کام کرتی ہیں۔ اس میں صرف ایک پہلو کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں مغرب کی ”سیاسی اقدار“ پھیل گئی ہیں، اور دنیا کی تقریباً ہر قوم نے اختیار بھی کر لی ہیں۔ اگر کوئی قوم ان سیاسی اقدار سے پوری طرح متفق نہ ہو اور اپنی کچھ ترجیحات بھی رکھتی ہو تو اسے اپنی ”سیاسی اقدار“ کو ”نظریہ“ کہنا پڑتا ہے۔

کسی آدمی کا نام اور کام سائنسی یا غیر سائنسی نہیں ہوتا، بلکہ حالات و وسائل میں انسانی پسند نا پسند، مرضی، مزاج، ارادے وغیرہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح نظریہ بھی سائنسی یا غیر سائنسی، علمی یا غیر علمی نہیں ہوتا بلکہ قوم کی اجتماعی پسند نا پسند اور ارادے کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی معاشرہ اپنی شناخت اور سیاسی عمل کا حل عقل اور تجربے سے ڈھونڈنا چاہتا ہے تو اس کی مرضی ہے۔ اگر کوئی معاشرہ اپنی سیاسی اقدار خود وضع کرنا چاہتا ہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟

اگر کوئی معاشرہ اپنی سیاسی شناخت اور معاشی نظام کو اپنے مذہب سے وابستہ اور ان کے تابع رکھنا چاہتا ہے، تو یہ اس کا اختیار ہے۔ لیکن ان سب صورتوں میں ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہر قوم کا اختیار کردہ نظریہ تاریخ اور معاشرے سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے تاکہ تاریخ کے کڈھب راستوں پر چلنا ممکن ہو۔ اگر کسی قوم کا نظریہ یا سیاسی اقدار تاریخ سے ہم آہنگ نہ ہوں تو غیرمتعلق ہو کر ختم ہو جاتی ہیں، اور قوم کا راستہ بھی گم ہو جاتا ہے۔

کوئی قوم اپنی سیاسی اقدار یا نظریے کا تعین کسی دوسری قوم کے کہنے پر نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ محکوم، کمزور یا شکست خوردہ قوم اپنی قومی شناخت اور سیاسی اقدار کو باقی نہ رکھ سکے اور غالب قوم کی مکمل نقل بن جائے۔ ایسی صورت میں صرف نسلی، لسانی یا جغرافیائی شناخت وغیرہ ہی باقی رہ جاتی ہے۔

جدید زمانے میں قوموں نے اپنی سیاسی شناخت کا مسئلہ زیادہ تر نسل، زبان اور ثقافت وغیرہ سے حل کیا، اور مکمل آزادی (جمہوریت) اور ترقی (سرمائے ) کو سیاسی عمل کی بنیاد بنایا۔ لیکن ”سرمایہ داری سسٹم“ کی زبردست کامیابی کی وجہ سے ”سیاسی شناخت“ کا مسئلہ ضمنی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیسہ اور طاقت نہ ہو تو شناخت غیر اہم ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر کا رجحان اب یہی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے پیسہ اور طاقت حاصل کی جائے، اور شناخت کو مفاد کے تابع رکھا جائے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جب پیسہ اور طاقت آ جائے گی تو شناخت کے مسئلے بھی حل ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں نظریۂ پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کے خیال میں اسلامی شناخت اب غیرضروری ہے اور دو قومی نظریہ ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی معاشرہ بہت سے مسائل کا شکار ہے، اور دو قومی نظریے کو ان کا سبب قرار دینا درست نہیں۔ جو نظریہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی بقا کی ضمانت دے سکتا ہے، وہ ہماری ترقی کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔ نظریہ ضرورت ایک زہر قاتل ہے جس سے کسی ایک فرد کی ترقی وابستہ ہوتی ہے اور قوم کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے اس کی تازہ مثال پیش خدمت ہے جس کا وجود اور تعلق ایک سیاسی نظریہ سے ہے اور وہ نظریہ ضرورت کا نتیجہ ہے

ہماری ستر سالہ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یکے بعد دیگر ہم دو بیلٹ باکس کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور تیسرا بیلٹ باکس بھی یقینی طور پر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، مگر اب بھی الیکشن میں اکثریت انھیں لوگوں کی ہے جو Electables ہیں اور یہ ایک کمزور جمہوریت کی نشاندہی ہے۔ ہمارے جمہوری نظام سے اگر Electables کا وجود ختم ہو جائے تو اس دن نظریہ ضرورت کی ضرورت بھی نہیں رہے گی، لیکن اس عمل کے لیے ہمیں معاشی رشتوں کے اندر توڑ پھوڑ چاہیے۔ ہماری زراعت مجموعی پیداوارکا بیس فیصد فراہم کرتی ہے مگر اب بھی 48 % لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے اور اس میں سے 10 % یا 15 % ایسے بھی روزگار ہوں گے جو دیہی ہیں۔ ہماری قومی اسمبلی کی نشستوں میں دیکھنا یہ ہے کہ کتنی شہری نشستیں ہیں اور دیہی کتنی ہیں۔

ہمارے دیہات اب ٹوٹتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ دیہاتی رشتے بھی۔ راستوں کا جال بچھایا جا رہا ہے CPEC دستک دے رہا ہے۔ اس پورے عمل سے Electables کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ اب ووٹ زیادہ سے زیادہ بیانیے کی بنیاد پر ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تہذیبی تناظر میں رہتے ہوئے دو قومی نظریے یا نظریۂ پاکستان کی معاشرے اور تاریخ سے ہم آہنگی کو سامنے لانے کی فکری ذمہ داری پوری کر کے دکھائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments