مزدور، بغاوت اور زندگی



آگے راستہ بند ہے
گھبرائے نہیں، مزدور ہمارے ساتھ ہیں، راستہ کھل جائے گا۔

راستہ کھولنے والے مزدور اچانک تاریخ کی کتابوں سے غائب کر دے گئے۔ پھر وہ آوارہ سڑکوں پر نظر اہے۔ کروڑوں کی تعداد میں۔ یہ دنیا کی پہلی ایسی ہجرت تھی، جس کے لئے مزدوروں کے حصے میں صرف چار گھنٹے اے تھے۔

کیا کویی بتا سکتا ہے کہ کتنے مزدوروں نے ہجرت کرتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی؟ کتنے مزدور ریل کی پٹریوں پر آ کر کٹ گئے۔ کتنے مزدور فاقے سے مر گئے۔ ہزاروں کیلو میٹر اس دھوپ کی تپش میں پیدل، بچوں اور سامانوں کے ساتھ سفر کرنے والی عورتوں میں، کتنوں نے راستے میں دم توڑا؟ کتنے معصوم بچے بھوک پیاس کا جبر برداشت نہ کرتے ہوئے خدا کے پیارے ہو گئے۔ ؟ اور کویی بتا سکتا ہے کہ اب یہ سلسلے بند ہو جاہیں گے یا باقی رہیں گے؟

ہزاروں لاکھوں مزدور بلکہ کروڑوں ابھی بھی گھر کا چہرہ نہیں دیکھ سکے ہیں اور جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں وہ اس قدر پر درد ہیں کہ بیان نہیں کی جا سکتیں۔ ۔ چالیس ٹرینیں منزل سے بھٹک گیں۔ تاریخ کی کتابوں سے ایسے بے شرم حادثات کی ایک بھی تفصیل نکال کر دکھائیے۔ نہیں ملے گی۔ کیا جنرل کمپارٹمنٹ میں آپ ان مزدوروں کا حال تصور کر سکتے ہیں، جو آٹھ دنوں بعد بھی اپنے گھر نہیں پھچ سکے۔ آٹھ دنوں میں تپش، بھوک، پیاس نے ان کی کیا حالت بنا دی ہوگی۔

ایک طرف مزدوروں کی بے بسی دوسری طرف مسلمان۔ لاک داؤن کا فائدہ اٹھا کر معصوم بے گناہ مسلمانوں کو خاموشی کے ساتھ حراست میں لیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو شاہین باغ کی حمایت میں سامنے اہے تھے، ایسے لوگ حکومت کے گنہگار ہیں۔ اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔

یاد کیجئے۔ سب کچھ یاد کیجئے۔ کیونکہ آپ سوچتے تھے کہ انقلاب آ چکا ہے۔ شاہین باغ انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ اس وقت پورا ہندوستان سڑکوں پر تھا۔ پولیس اپنی ظالمانہ کارروائی میں مصروف تھی۔ اس کے باوجود سارا ہندوستان ایک سر میں یہی کہ رہا تھا کہ کیب، این آر سی، این پی آر کے خلاف یہ جنگ ہندوستان کو فسطائی طاقتوں سے بچانے کی جنگ ہے۔ یہ جنگ آیین کے تحفظ کی جنگ ہے۔ یہ جنگ عام آدمی کی جنگ ہے جو اس ملک میں امن و سکوں سے زندگی گزارنے کا خواہشمند ہے۔ پپو یادو، کنہیا کمار سے لے کر سارا ہندوستان اس وقت ایک ہو کر ایک ہی گیت گا رہا تھا۔ ۔ ۔

ہم کو چاہیے آزادی۔

یہ ترانہ اس وقت آزاد ملک کی آواز بن چکا تھا۔ اب یہ ترانہ کہاں ہے؟ سوال کیا گیا کہ آزادی ملنے کے بعد بھی کس سے آزادی چاہیے؟ اور اس کا جواب اس ترانہ میں موجود تھا۔ کہ فسطائی طاقتیں ملک پر حملہ آور ہیں۔ اور اس صورت میں ایک بار پھر، آزادی کے بہتر برس بعد ملک ہندوستان کو شر پسند طاقتوں سے آزادی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ ایک جمہوری ملک کومخصوص مذہب کے سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ کیب کا قانون ایک مخصوص قوم کے لئے نفرت کا فرمان ہے۔

لیکن کیب کے ساتھ این آر سی اور این پی آر ( نیشنل پاپولیشن رجسٹر ) کا معاملہ بھی ہے۔ این پی آر کے تحت عام شہری سے بھی دستاویز مانگے جاییں گے۔ اس میں ہر مذہب اور ذات کے لوگ شامل ہوں گے۔ غریب کہاں سے دستاویز لایں گے؟ اور آیین کے مطابق کسی بھی شہری سے دستاویز طلب نہیں کجیا جا سکتا۔ وزیر اعظم اپنے ایم اے کی ڈگری نہیں دکھا سکتے، تو عام شہری سے دستاویز مانگنا کہاں کا انصاف ہے۔ ۔ کیب، این آر سی کے بہانے ہندوستان کو غلام بنانے کی سازش شروع ہوئی۔ لیکن اب؟ کورونا اور لاک ڈاؤن کی خاموشی میں حکومت کیا کر رہی ہے۔ حکومت بھول گیی ہے کہ اس وقت عام شہریوں کے لئے بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر ایسے موقع پر بھی حکومت مسلم مخالف کھیل میں مصروف ہیں۔

آزادی کے بہتر برس میں دنیا بدل گیی۔ فرنگیوں کے خلاف ہندو مسلمان دونوں نے مل کر مورچہ کھولا تھا۔ دونوں قوموں کے لوگوں نے گولیاں کھایی تھیں۔ ملک کی آزادی کے بعد دنیا بھر کے مسائل پیدا ہوئے جو کسی بھی آزاد ملک میں پیدا ہو سکتے تھے۔ تقسیم کے داغ آھستہ آھستہ دھلتے رہے۔ تقسیم کے نام پر فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوئے۔ مگر ایسا بحران پہلی بار پیدا ہوا جب ایک جمہوری ملک میں عام شہری سے دستاویز طلب کرنے کی بات اٹھی ہو۔ حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ مخصوص نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جائے کہ مستقبل میں شاہین باغ کا تصور محال ہو جائے۔

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ وہ جو تاریک راہوں میں اب بھی مارے جا رہے ہیں۔ اس وقت جہاں دنیا کورونا سے تحفظ کے لئے ویکسین تلاش کرنے میں لگی ہے، ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں نفرت کے مزید ویکسین کو تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔

ہندوستان کی تمام ریاستوں کو فتح کرنے کے لئے مرکزی حکومت کی طرف سے سارا زور اس لئے لگا یاگیا کہ ہندو راشٹر کی بنیاد رکھنے کے لئے مخصوص نظریہ والی جماعت کو سارا ہندوستان چاہیے تھا۔ سام دام دنڈ بھید۔ یہ محاورہ چانکیہ کے دماغ کی اپج تھا کہ طاقت کے زور پر حکومت کیسے کی جائے۔ سام یعنی مشورہ دینا اور کسی کام کو کرنے کے لئے کہنا۔ دام۔ یعنی کام کی قیمت لگانا۔ اور جب اس پر بھی کام نہ نکلے تو سزا دینا۔ غور کریں تو ہندوستانی ریاستوں کو فتح کرنے سے لے کر بابری مسجد تک، گودھرا سے 2014 تک۔

اور دو ہزار چودہ سے کورونا کے قہر اور لاک ڈاؤن تک۔ حکومت اور اراکین حکومت اسی سام دام دنڈ بھید کے راستے پر چل رہے ہیں۔ ۔ ۔ پہلے آپ سے مشورہ کیا گیا، کہ تیسرے درجے کے شہری بن جاؤ۔ منہ مت کھولو۔ زبان بندی کے بعد طلاق اور شریعت پر حملہ ہوا۔ بابری مسجد کا فیصلہ آیا۔ شہریت ترمیمی بل آیا۔ اور مسلم مخالف گیم جاری رہا۔ اور یہ بھی کہ آئندہ منصوبوں کے پیش نظر مسلمانوں کو کس حد تک کمزور کیا جا سکتا ہے۔ انصاف، پولیس، خفیہ تنظیمیں، الیکشن کمیشن، میڈیا، جب ہر ایک محکمہ حکومت کی تحویل میں ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ خطرے میں ہیں۔

نیا ہندوستان سامنے ہے۔ مرتے ہوئے مزدور۔ چیختے ہوئے کسان۔ منزل سے بھٹکتی ہوئی ٹرینیں، لاک داؤن کے بہانے مسلمانوں پر کسا جانے والا سیاسی شکنجہ۔ مایوس مت ہوں۔ مایوس ہونا مر جانا ہے۔ زندہ قومیں شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ ابھی ایک انقلاب باقی ہے، ۔ اگر یہ کروڑوں مزدور، کسان، دلت، بیروزگار بیکار نوجوان انقلاب کی مشعل بن کر اٹھ گئے، بغاوت ہو گیی تو حکومت کا سکوں چھن جائے گا۔ ۔ یہ ہونا باقی ہے اور یہ ہو کر رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments