نیا ریپ سکینڈل۔۔۔ بی بی آپ کون ہیں؟


سنتھیا ڈی رچی نامی ایک امریکی بی بی نے ایف آئی اے کو درخواست دی ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے حامی اسے تنگ کر رہے ہیں اور اس کی جان کو خطرہ ہے۔ ۔ ۔

قصہ یہ ہے کہ جب ماڈل و ایکٹرس عظمیٰ خان کے گھر پر ملک ریاض کی بیٹیوں نے ہلہ بولا اور اپنے گارڈز سے کہا کہ اس ماڈل کو چھوئیں تو اس پر سنتھیا ڈی رچی نے ایک ٹویٹ کیا جو یہ تھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو جب معلوم ہوتا کہ فلاں فلاں خواتین کے ساتھ ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ناجائز تعلقات ہیں تو شہید بی بی بھی مبینہ طور پر ان خواتیں کے ساتھ اپنے محافظوں سے ریپ کرواتی تھیں۔ ۔ ۔

ظاہر ہے، یہ ایسا ٹویٹ ہے جس سے پی پی پی کے جیالوں نے آگ بگولہ ہونا ہی تھا۔ سنتھیا کا کہنا ہے کہ اس نے جو کہا وہ اسے ثابت کر سکتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے ریپ واقعات کی گواہ تو نہیں لیکن یہ سب اسے پی پی پی کے ہی ایک سیاسی لیڈر نے بتایا ہے۔ یقیناً یہ ایک ایسا بیہودہ بہتان ہے جس کا فی الحال کوئی سر ہے نہ پیر۔ ۔ ۔

پہلی بات یہ کہ اگر ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ پی پی پی کے کسی لیڈر نے سنتھیا صاحبہ کو ایسا کچھ بتایا تو سیدھا سیدھا سوال بنتا ہے کہ کیا سنتھیا ڈی رچی نے اس الزام کی تصدیق محترمہ بی بی شہید سے کی؟ کیا آصف علی زرداری سے اس بارے میں کبھی سوال کیا؟ کیا ان خواتین میں سے کسی ایک سے بھی سنتھیا صاحبہ کی بات ہوئی جن کے ساتھ بی بی شہید اپنے محافظوں سے ریپ کرواتی رہیں؟ یا پھر ان محافظوں میں سے کسی ایک نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہاں! بی بی شہید ان سے یہ سب کرواتی رہیں؟

یقیناً ان سب سوالوں کا جواب ایک ہی ہے کہ نہیں۔ ۔ ۔ اب تک اس حوالہ سے ایک خبر بھی سامنے آئی اور نہ ہی کبھی شاید سامنے آئے۔ ۔ ۔

محترمہ سنتھیا ڈی رچی اپنے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ صحافی ہیں، کبھی کہتی سیاح ہیں اور کبھی فرماتی ہیں کہ وہ صرف بیلے ڈانسر ہیں مگر جب ان کی لائف ہسٹری کی طرف جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ سالہا سال سے پاکستان میں گھسی بیٹھی ہیں جبکہ پاکستانی سیاست پر نہ صرف ان کی گہری نظر ہے بلکہ عملی طور پر وہ پاکستانی سیاست میں انوالو بھی ہیں۔

اڑتیس سالہ سنتھیا ڈی رچی 2009 میں پہلی بار پاکستان آئیں اور پھر واپس چلی گئیں، سنتھیا کے مطابق پاکستان میں 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران وہ امریکی شہر ہیوسٹن کی اس وقت کی میئر اینیس پارکر کی خیرسگالی سفیر کے طور پر دوبارہ پاکستان آٰئیں، پھر ان کے ملاقات موجودہ وزیراعظم عمران خان سے ہو گئی، اس ملاقات کے بعد وہ عمران سے مسلسل رابطے میں رہیں اور اب سات برس سے وہ پاکستان میں مستقل ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں انہیں محکمہ صحت میں کمیونیکیشن لیکچرار کے طور کام کرنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول نہیں کی، سنتھیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی کی بیٹی فرحانہ سواتی کی این جی او ہیومینیٹی ہوپ میں ڈیڑھ سال کام کیا، 2011 میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کو جوائن کیا اور پی ٹی آئی کے پارٹی منشور کو ترتیب دینے میں بھرپور کردارادا کیا، سنتھیا کے مطابق ان کی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی رہی جن میں ایم کیو ایم، ن لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی اورعوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔

ان کا الزام ہے کہ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں نے ان کی مبینہ جاسوسی کی اور متعدد بار ان پر حملے بھی ہوئے، مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ہوا تو انہیں اسلام آباد کے محفوظ ترین علاقے چک شہزاد بھیج دیا گیا، سنتھیا کا ایک بڑا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وہ مقامی ایجنسیز اور پاک فوج کی مدد سے پشتون تحفظ موومنٹ کی مبینہ ملک مخالف سرگرمیوں پر تحقیق کررہی ہیں، واضح رہے کہ سنتھیا اس سے قبل بختاور بھٹو کے حوالے سے متنازعہ ٹویٹس کرتی رہی ہیں جبکہ گلالئی اسماعیل کے بارے ان کے ٹویٹس پر بھی بہت بحث ہوتی رہی ہے۔

سنتھیا کی لائف سٹوری پڑھ کر ہر پاکستانی کا دھیان اس طرف ضرور جاتا ہے کہ محض ایک صحافی، سیاح یا بیلے ڈانسر امریکی شہری کا پاکستان کی بڑی بڑی جماعتوں میں کیا کام؟ خاص طور پر پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ اور منشور کی تیاری میں حصہ داری کیوں؟ مذکورہ خاتون کی طرف سے یہ دعویٰ کیوں کہ وہ پاک فوج کی مدد سے بھی کچھ سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں؟

پی پی پی کی سنیٹر سحر کامران نے حکومت پاکستان، ایف آئی اے اور آئی ایس آئی سے درخواست کی ہے کہ سنتھیا ڈی رچی کی مبینہ مشکوک سرگرمیوں کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں اور انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جائے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسے کتنے کردار ہیں جو پاکستان میں ”گھس بیٹھیے“ ہیں۔ ۔ ۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی بی شہید کے مطابق ”کنگرو کورٹس“ ان کے پیچھے لگی رہی ہیں، ہم سبھی نے دیکھا کہ سیف الرحمن نامی ایک شخص میاں نواز شریف کے دور میں آصف علی زرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو کا ”کڑا احتساب“ کرتا رہا ہے، اگر ایسی کوئی بھی بات ہوتی کہ بی بی نے کسی عورت سے اپنے سکیورٹی گارڈز سے ریپ کروایا ہے تو سیف الرحمن جیسا شخص بھلا بی بی یا آصف علی زرداری کو کیسے چھوڑنے والا تھا؟

کون نہیں جانتا کہ بی بی شہید اگر ایسا ایک بھی قدم اٹھاتیں تو ان کی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی، کوئی بندہ پی پی پی کو ووٹ دیتا نہ ہی اس جماعت کا کوئی سپورٹر باقی رہتا، بیشک یہ سب کی سب فضول اور گھٹیا کہانی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو ملکی و عالمی سطح پر بدنام و رسوا کیا جائے، کون نہیں جانتا کہ بی بی کی شہادت پر پی پی پی ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم سوگ میں رہی اور یہ سوگ آج تک جاری و ساری ہے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا عالمی سطح پر ایک نام اور وقار ہے، انسانی حقوق کے بعض عالمی ادارے انہیں پاکستان کی ہیروئن قرار دیتے ہیں، شخصی اور جمہوری آزادیوں کے حوالہ سے بھی بی بی شہید کا ایک بڑا نام ہے، یقیناً جب بی بی شہید جیسی سیاستدان کو عالمی سطح پر درندگی کرتی یا ریپ کرواتی عورت مشہور کیا جائے گا تو اس ملک کے باقی سیاستدانوں کے پلے کچھ نہ رہ جائے گا۔ ۔ ۔

سنتھیا ڈی رچی کی ”آخری خواہش“ دیکھیے کہ وہ کہتی ہیں کہ اگر بلاول بھٹو ان سے معافی مانگیں تو وہ اپنا ٹویٹ ہٹانے کے لئے تیار ہیں، واہ شیر کی بچی واہ۔ ۔ ۔ ہمارے ملک کی اعلیٰ شخصیات پر کیچڑ تم اچھالو، حساس اداروں کو بدنام کرو اور معافی بھی تم سے بلاول بھٹو مانگیں، لیکن کس بات کی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments