مڈغاسکر، آئے آئے (2)۔


Author: Douglas Adams
مترجم: اظہر سعید

آئے آئے کو دیکھ کے میں کچھ چکرا سا گیا تھا۔ مجھے اچانک احساس ہوا، کہ ایک ایسی مخلوق کا فرد ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے ایک لیمر کو دیکھنے آیا ہے جس کے اجداد نے لیمروں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ نیویارک سے پیرس اور پھر پیرس سے انتناناراؤو ائرپورٹ تک میں ایک جیٹ طیارے کے ذریعے پہنچا تھا۔ وہاں سے ڈیجو سوریز تک ہم ایک نے کھڑکھڑاتے ہوئے پنکھوں والے جہاز میں سفر کیا۔ اس کے بعد مارونٹسٹرا تک ہم اس سے بھی قدیم ایک ٹرک میں پہنچے۔

وہاں سے ہم ایک ایسی کشتی میں سوار ہوئے جو اتنی خستہ حال تھی کہ اس پہ دریا میں ازخود بہنے والی کسی بوسیدہ لکڑی کا گمان ہوتا تھا۔ اس کشتی نما تختے پہ زندہ سلامت نوزی مینگابے کے جزیرے تک پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ اور یہاں پہنچ کے دینا کے قدیم ترین بارانی جنگلات میں سے ایک میں پیدل مارچ کرتے ہوئے ہم بالآخر لیمر سے آن ملے۔ مجھے یوں لگا کہ میں وقت کے پہیے کو الٹی طرف گھما کے ان سارے زمانوں میں سے گزر کے آیا ہوں جب کروڑوں سال پہلے لیمروں اور بندروں کے درمیان اپنی بقا کے لیے وسائل پہ تصرف کی کشمکش شروع ہوئی تھی، اور ساری تاریخ آئے آئے اور میری مشترکہ میراث ہے۔

اگلی صبح، مارک اور میں جھونپڑی کی باہر دھوپ میں بیٹھے اپنے اپنے نوٹس لکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ کل رات کے تجربے کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ مارک نے بتایا کہ پہلے سارا مڈغاسکر لیمروں کے لیے بندروں سے پاک ایک محفوظ پناہ گاہ تھا۔ لیکن پھر وہاں بھی بندر پہنچ گئے اور اب صرف نوزی میگانبے ہی ایک ایسی جگہ بچی ہے جہاں لیمر بندروں سے محفوظ ہیں۔ وقت کے ساتھ لیمروں کی پناہ گاہیں سکڑتی جارہی ہے۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہاں بھی لیمر، بندروں سے محفوظ نہیں کیونکہ دو بندر نوزی مینگابے کے وسط میں بیٹھے ہوئے آئے آئے کی کہانی لکھ رہے ہیں۔ مارک نے کہا کہ مڈغاسکر اور نوزی مینگابے میں ایک اہم فرق اور بھی ہے۔ مڈغاسکر کا لیمروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن جانا محض ایک اتفاق تھا لیکن نوزی مینگابے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس کو بندروں نے از خود لیمروں کی پناہ گاہ بنایا ہے۔

میں نے کہا، ”اس کا صاف مطلب تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری ذہانت اور طاقت میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس طاقت کے استعمال کے نتائج کو بھی اب ہم پہلے سے بہتر سمجھتے ہیں“ ۔ مارک نی کہا، ”تمہاری بات کسی حد تک درست ہے۔ اس وقت مڈغاسکر میں لیمروں کی اکیس اقسام ہیں جن میں آئے آئے نایاب ترین ہے، جس کا مطلب ہے کہ آئے آئے معدومی کی فصیل کے سب سے زیادہ قریب ہے اور ذرا سی غفلت، یعنی ایک ہلکا سا دھکا اس کو فصیل کے دوسری جانب پھینکنے کے لیے کافی ہوگا۔

ایک وقت تھا جب یہاں ان کی چالیس اقسام تھیں۔ ان میں سے تقریباً نصف پہلے ہی فصیل کے دوسرے جانب پہنچ چکی ہیں۔ یہ صرف لیمروں کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ مڈغاسکر میں پائے جانے والے جانور دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے اور ان میں سے نوے فی صد پہلے ہی معدوم ہو چکے ہیں۔ اور یہ تو صرف مڈغاسکر کی کہانی ہے۔ تم کبھی افریقہ گئے ہو؟

”نہیں“ ، میں نے کہا۔

”وہاں کے حالات اور بھی بدتر ہیں۔ ایک کے بعد ایک جانور ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مثلاً اس وقت صرف بیس شمالی سفید گینڈے زندہ ہیں اور ان کوناجائز شکاریوں سے بچانے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ معرکہ زائر میں جاری ہے جہاں پہاڑی گوریلوں کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ تمہیں کاکاپو کا پتہ ہے؟“ ۔

”کس پو کا؟“ میرے منہ سے نکلا۔

”کاکاپو۔ نیوزی لینڈ میں پایا جانے والا دنیا کا سب سے موٹا طوطا جو اڑنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ میرے خیال میں یہ دنیا کا سب سے عجیب الخلقت پرندہ ہے اور اگر یہ معدوم ہوگیا تو“ ڈوڈو ”کی طرح مشہور ہو جائے گا۔“

”ابھی تک کتنے کاکاپو بچے ہوئے ہیں؟“
” صرف چالیس اور مزید کم ہورہے ہیں۔ تم دریائے یانگزٹے کی ڈولفن کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟“ ۔
”نہیں“
”اور کوموڈو ڈریگن کے بارے میں؟“

” ایک منٹ۔ ایک منٹ۔ میں ذرا یہ سب کچھ لکھ لوں۔ بات یہ ہے کہ فی الحال تو میں دو تین ناولوں پہ کام کر رہا ہوں لیکن 1988 کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“ ۔

”منظور ہے“ ۔ مارک نے جواب دیا۔

اس کے تین سال بعد سب سے پہلے ہم جسے دیکھنے کے لیے نکلے وہ کوموڈو ڈریگن تھا جو چھپکلی یا گرگٹ کی نسل کا ایک خونخوار جانور ہے۔ اس مہم میں ہم نے جن جانوروں کو دیکھنا تھا ان سب کے بارے میں میری معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں، بشمول کوموڈو ڈریگن کے۔ تاہم مجھے اس کے بارے میں جو واحد بات معلوم تھی وہ مجھے قطعاً پسند نہیں آئی یعنی یہ کہ وہ آدم خور ہے۔ آدم خوری ویسے تو کوئی اتنی بری بات نہیں ہے۔ شیر اور چیتے بھی آدم خور ہوتے ہیں، اس لیے ہم ان کے زیادہ قریب نہیں جاتے لیکن پھر بھی ہم انہیں کافی پسند کرتے ہیں۔

ہم ان کا نوالہ بننا تو پسند نہیں کرتے لیکن ان کی اس جبلت کی وجہ سے ہمیں ان سے کچھ خاص مخاصمت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہو کہ وہ بھی ممالیہ ہیں اس لیے ان کے ساتھ ہماری کچھ نہ کچھ قرابت داری ہے۔ لیکن گرگٹ اور آدم خور، یہ ناقابل برداشت ہے۔ اور یہی معاملہ مچھلیوں کا بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شارک کے نام پہ ہم جس طرح خوف سے سن ہو جاتے ہیں، اس طرح شیر کے ذکر پہ نہیں ہوتے۔

شارک کی طرح کموڈو ڈریگن بھی بہت بڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی بڑے۔ اس وقت سب سے بڑا کموڈوڈریگن لگ بھگ بارہ فٹ لمبا اور تین فٹ اونچا ہے۔ یہ ایک گرگٹ کے لیے انتہائی نامناسب سائز ہے، خاص طور پہ جب وہ آدم خور بھی ہو اور اسی جزیرے پہ رہتا ہو جس پہ آپ جانے والے ہیں۔

ویسے سچ تو یہ ہے کہ کموڈو ڈریگن صرف نام کے ہی آدم خور ہیں کیونکہ انہیں اس عیاشی کا موقع کم کم ہی ملتا ہے۔ ان کی گزر اوقات عموماً بکری، سور اور ہرن وغیرہ کے گوشت پہ ہوتی ہے اور ان پہ بھی وہ صرف اس صورت میں حملہ کرتے ہیں جب انہیں کوئی پہلے سے مری مرائی چیز کھانے کو نہ مل سکے۔ یہ جانور بنیادی طور پہ مردار خور ہے اور اس کو پرانا، گلا سڑا گوشت زیادہ پسند ہے۔ مجھے گلا سڑا گوشت قطعاً پسند نہیں اور نہ ہی وہ پسند ہیں جو اس طرح کے گوشت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اس ڈریگن کے بارے میں میری رائے شروع سے ہی کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی۔

مارک نے پچھلے تین سال میں کافی وقت ہماری آنے والی مہمات کے انتظامات کرنے میں صرف کیا تھا۔ ہم میلبورن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں ملے اور سب سے پہلے اپنے سفر کے لیے مختص سازوسامان کا جائزہ لیا۔ ہم سے مراد ہے، مارک، میں اور گینور جو بی بی سی میں پروڈیوسر تھا اور جس نے ہمارے سفر کی روداد کو بی بی سی ریڈیو کی ایک ڈاکومنٹری کے لیے ریکارڈ کرنا تھا۔ ہمارے سامان میں کیمرے، ٹیپ ریکارڈر، خیمے، سلیپنگ بیگ، انواع و اقسام کی ترپالیں، مچھر مار ادویات، مچھر دانیاں، جوتے، چاقو، ٹارچیں اور کرکٹ کا ایک بیٹ شامل تھے۔

کرکٹ بیٹ سامان میں کیسے شامل ہوگیا، یہ ہم تینوں میں سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہوٹل کی انتظامیہ سے پوچھا تو وہ بھی اس کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ پھر ہم نے بیئر منگوائی اور بیٹ بیئر لانے والے بیرے کو دینا چاہا لیکن اس نے بھی معذرت کرلی۔ جاتے جاتے اس نے کہا، ”میں آپ کی جگہ ہوتا تو بیٹ کے بغیر ایسے خطرناک جزیرے پہ ہرگز نہ جاتا۔ اگر ڈریگن حملہ کردے تو بیٹ کم از کم آپ کے سیب کاٹنے والے چاقو سے تو بہتر ہتھیار ثابت ہوگا“ ۔

خیر ہم نے بیٹ کو پلنگ کے نیچے رکھا، بیئر کی بوتلیں کھولیں اور مارک سے کہا کہ شروع ہو جائے۔ مارک نے کہا، ”صدیوں سے چینیوں نے منہ سے آگ برسانے والے گرگٹ کی شکل کے آدم خور درندوں کی کہانیاں مشہور کر رکھی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ محض قصے کہانیاں ہی تھیں۔ جہازرانوں کو جب کوئی جزیرہ کسی وجہ سے پسند نہ آتا تو اپنے نقشے پہ یہ لکھ کے کہ یہاں ڈریگن پائے جاتے ہیں، آگے بڑھ جاتے۔ پھر بیسویں صدی کے شروع میں ایک ولندیزی ہواباز انڈونیشیا کے جزائر کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے آسٹریلیا جا رہا تھا کہ اس کا ہوائی جہاز خراب ہوگیا اور اسے مجبوراً کموڈو نامی جزیرے پہ کریش لینڈنگ کرنا پڑی۔ وہ تو بخیرت لینڈ کر گیا لیکن اس کا جہاز تباہ ہوگیا۔ اس جزیرے پہ ادھر ادھر پانی کی تلاش میں پھرتے ہوئے اس کی نظر ایک دس فٹ لمبے آدم خور ڈریگن پہ پڑی، اور ہم اسی کو دیکھنے جا رہے ہیں“ ۔

”پائلٹ کا کیا بنا؟“

”وہ کسی نہ کسی طرح بچ نکلا لیکن اس کی شہرت نہ بچ سکی۔ وہ باقی زندگی لوگوں کو قسمیں کھا کھا کے اس مخلوق کے بارے میں بتاتا رہا لیکن کسی نے اس کی باتوں کا یقین نہ کیا۔“

”کیا یہی ڈریگن چینی ڈریگنز والی کہانیوں کی بنیاد ہیں؟“ ۔

”یقین سے نہیں کہا جاسکتا، تاہم ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ یہ چینی ڈریگن کی طرح بڑا ہے، آدم خور ہے اور اگرچہ اس کی سانس شعلہ بار نہیں، لیکن اس سے زیادہ متعفن سانس کسی ذی روح کی نہیں ہوتی۔ اور ہاں، تمہیں اس جزیرے کے بارے میں ایک اور بات بھی معلوم ہونی چاہیے“ ۔

”کیا؟“
”فی مربع میٹر، دنیا میں سب سے زیادہ زہریلے سانپ کموڈو میں پائے جاتے ہیں“

اتفاقاً، پروفیسر سٹران جس نے سارے زندگی زہریلے سانپوں اور زہر پہ تحقیق کی ہے، میلبورن میں ہی رہتا تھا۔ ٓاگلی صبح جب ہم ٹیپ ریکارڈر اور نوٹ بکس وغیرہ سے لیس ہو کے اس سے ملنے گئے، تو اس نے کہا، ”میں یہ باتیں کر کر کے بہت بور ہوچکا ہوں۔ یہ تمام زہریلی مخلوقات، سانپ، بچھو، مکڑیاں، چیونٹیاں اور نہ جانے کیا کچھ۔ لعنت ہو ان پہ۔ یہ بلاوجہ لوگوں کو کاٹتی رہتی ہیں اور لوگ میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ میں ان کو ان کے بارے میں بتاؤں۔ میں بھلا کیا بتا سکتا ہوں، سوائے اس کے کہ خدا کے بندو، ان سے دور رہو تاکہ یہ تمہیں نہ کاٹیں۔ دفع کرو، کوئی اور بات کرتے ہیں۔ آبی زراعت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ زمین، مٹی اور کھاد کے بغیر سبزیاں اگانا کس قدر دلچسپ ہے۔ ہم مریخ پہ اس ٹیکنیک کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ویسے تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟“

”کموڈو“

”کیا ضرورت ہے وہاں جانے کی؟ وہاں سانپ سے نہ ڈسوا لینا۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو میرے پاس نہ بھاگے آنا کیونکہ تم یہاں تک زندہ پہنچ ہی نہیں سکو گے۔ اور پھر میرے پاس وقت ہی کہاں ہے۔ ہر وقت زہریلی بلاؤں میں گھرا رہتا ہوں۔ یہ سامنے والے مرتبان میں معلوم ہے کیا ہے؟ آتشیں چیونٹیاں، زہر سے بھری ہوئی، اب ان کا کوئی کیا کرے۔ اور وہ بڑا ریفریجریٹر انواع و اقسام کے زہروں سے بھرا ہوا ہے، میں نے اس کا نام زہریلا فرج رکھ دیا ہے۔ تم لوگ کچھ چائے اور کیک وغیرہ تو لو۔ کیک پتہ نہیں کہاں گئے لیکن یہیں کہیں ہوں گے۔ تم سب ابھی تک کھڑے کیوں ہو؟“ ۔

ہم نے ادھر ادھر دیکھا لیکن اس زہر کدے میں بیٹھنے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نظر نہ آئی۔5

”اچھا تو تم لوگ کموڈو جا رہے ہو۔ وہاں پندرہ اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں سے نصف زہریلے ہوتے ہیں۔ لیکن جان لیوا صرف تین اقسام ہیں، رسلز وائپر، انڈین کوبرا اور بیمبو وائپر۔ انڈین کوبرا دنیا کے مہلک ترین سانپوں میں پندرہویں نمبر پہ ہے اور اس سے اوپر کی ساری کمبخت اقسام یہاں آسٹریلیا میں پائی جاتی ہیں۔ اب تم ہی بتاو، جس کے چاروں طرف اتنے زہریلے سانپ رینگ رہے ہوں، اس کو آبی زراعت کے لیے فرصت کیسے ملے؟

اور پھر مکڑیاں۔ فنل سپائڈر یہاں کی سب سے زہریلی مکڑی ہے جو ہر سال لگ بھگ پانچ سو افراد کو ڈس لیتی ہے، جن میں سے اکثر مر جاتے تھے۔ اس لیے ہمیں اس کے زہر کا تریاق بنانا پڑا۔ کئی سال لگے اس کام میں، لیکن اب وہ آسٹریلیا میں ہر جگہ دستیاب ہے، اس لیے آج کل مجھے آئے دن مریضوں کا علاج نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے بعد ہم نے سانپ کے کاٹے کو جانچنے والی کٹ بنائی۔ ویسے تو اگر سانپ آپ کو ڈس لے تو آپ کو کسی کٹ کے بغیر خود ہی معلوم ہوجاتا ہے۔

یہ کٹ تو صرف اتنا بتاتی ہے کہ آپ کو کس قسم کے سانپ نے ڈسا ہے تاکہ اس کے مطابق آپ کا علاج کیا جاسکے۔ میرا خیال ہے کچھ کٹس زہریلے فرج میں ہیں۔ دکھاوں؟“۔ فرج کھولتے ہی پروفیسر کے منہ سے نکلا، ”دھت تیرے کی، تو کیک یہاں پڑے ہوئے ہیں۔ ابھی تک بالکل تازہ ہیں۔ میں نے خود بنائے ہیں۔“ اس کے بعد اس نے ہم تینوں کو ایک ساتھ کیک اور کٹس تھما دیں۔ میں نے کٹ کا معائنہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا، ”آپ کو کتنی مرتبہ سانپوں نے ڈسا ہے؟“ ۔

”کبھی نہیں۔ زہریلی مخلوقات سے ڈسوانا میرا شعبہ نہیں ہے۔ یہ کام دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ تم نے میری کتاب کے گرد پوش پہ درج میرے مشاغل کی فہرست نہیں پڑھی؟ باغبانی۔ ۔ ۔ دستانے پہن کے، مچھلی کا شکار۔ ۔ ۔ لمبے بوٹ پہن کے، سیر و تفریح۔ ۔ ۔ احتیاط کے ساتھ۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے تو تم نے سنا ہوا ہوگا لیکن میرا کہنا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ تمہارے لیے میرا مشورہ ہے کہ لمبے بوٹوں کے علاوہ موٹے کپڑے کی ڈھیلی ڈھالی پتلونیں بھی پہن لینا اور بہتر ہے کہ آٹھ دس لوگ زور زور سے پاؤں پٹختے ہوئے ہوئے تہمارے آگے آگے چلتے جائیں۔ سانپ زمین میں ارتعاش محسوس کرکے تمہارے راستے سے ہٹتے جائیں گے۔ ابھی تک تم نے کیک نہیں کھائے۔ جلدی کرو بھئی، زہریلا فرج ان سے بھرا پڑا ہے۔ کیک ختم ہوں تو کسی اور چیز کے لیے جگہ بنے“ ۔

” ایک کٹ ہمیں مل سکتی ہے؟“ ہم نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔

”کیوں نہیں مل سکتی؟ ایک نہیں، پچاس لے جاؤ۔ لیکن ان کا کرو گے کیا؟ کیونکہ یہ کموڈو میں تو تمہارے کسی کام آئیں گی نہیں۔ یہ صرف آسٹریلین سانپوں کا زہر شناخت کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ویسے میں دو سے تین سال میں تمہارے لیے بھی ایسی کٹس بنا سکتا ہوں۔ تم کب جا رہے ہو؟“ ۔

”کل صبح۔ اگر وہاں ہمیں کوئی انتہائی مہلک چیز ڈس لے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ ۔
پروفیسر چند لمحے مجھے یوں حیرت سے دیکھتا رہا جیسے میں دنیا کا احمق ترین شخص ہوں۔
پھر بولا، ”ظاہر ہے فوت ہو جانا چاہیے۔ انتہائی مہلک کا اور کیا مطلب ہوتا ہے؟“

پھر ہماری حالت دیکھ کے شاید اس کو کچھ ترس آ گیا۔ کہنے لگا، ”دیکھو میرے بھائی، میں تمہیں صرف ایک ہی نصیحت کر سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کسی بھی چیز سے ڈسوانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ سانپ تو کچھ بھی نہیں۔ جن چیزوں سے زیادہ خوف زدہ ہونے کی ضرورت ہے وہ تو سمندر میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً، اسٹون فش۔ یہ جس کو کاٹ لے، وہ زہر کا اثر ہونے سے پہلے، درد کی شدت سے نجات حاصل کرنے کے لیے خود کشی کر لیتا ہے۔ سمندر بھرا پڑا ہے ان بلاؤں سے۔ اپنا خیال رکھنا۔ خدا حافظ“ ۔

(جاری ہے )

اس سیریز کے دیگر حصےقسط 1 مڈغاسکر ، آئے آئےبالی، بیما، لبوان باجو (قسط 3 )۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments