کچھ عقیدے کے ضمن میں


\"wajahat1\"ہم ایک خوش قسمت قوم ہیں۔ ہمارے ملک میں زبان عقیدے، رہن سہن اور سیاسی خیالات کے اعتبار سے تنوع کے ساتھ ساتھ شائستہ اختلاف رائے کی مضبوط روایت بھی موجود رہی ہے۔ دلیل دینے اور مخالف رائے پر غور وفکر کی یہ روایت ہماری قوم کے اہم ترین اثاثوں میں سے ایک ہے۔ مناسب راستہ بھی یہی ہے کہ اپنی بات کہی جائے، دوسروں کی سنی جائے اور پھر اپنے ضمیر کے مطابق ایک نکتہ نظر اختیار کیا جائے۔ پاکستان کا آئین اظہار کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے ملک کے معروف دانشور، مورخ، استاد اور صحافی ہیں۔ خلیفہ عبدالحکیم، شیخ محمد اکرام، ڈاکٹر محمد سرور، سبط حسن اور وارث میر کی روایت کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے اتفاق یا اختلاف باعث افتخار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے \”روشن خیالی کے شاخسانے\” کے عنوان سے (گیارہ نومبر 2016، روزنامہ جنگ) ایک کالم لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے چند در چند اختلافات کی گنجائش موجود ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے روشن خیالی کو ایک حالیہ مہم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ روشن خیالی کو مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خلاف رد عمل قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ کا کینوس کچھ زیادہ ہی محدود کر دیا۔ انسانی تاریخ میں جہالت، امتیاز، تشدد اور استحصال کے خلاف ہر جدوجہد روشن خیالی کی تحریک کا حصہ ہے۔ طاقت، علم اور ضابطے کے نام پر قائم مقتدر بندوبست کے خلاف نئے علم اور نئے خیالات کی مدد سے انسانوں کے لئے زیادہ انصاف، امن، سہولت اور خوشیوں کے لئے کاوش روشن خیالی ہے۔ سوال کی آزادی کے نام پر زہر کا پیالہ پینے والا سقراط پر تاریک خیالی کی تہمت مناسب نہیں ہوگی۔ امام حسین اور ان کے رفقا کی حریت کو روشن خیالی ہی کہا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی غلامی سے لے کر رنگ و نسل کی عصبیت تک، جنسی امتیاز، ذات پات کی تقسیم، بادشاہ کی مطلق العنانی، نازی فسطائیت اور اشتراکی جبر کے خلاف جدوجہد روشن خیالی کا حصہ ہے۔ روشن خیالی تو شاخساروں کی نمو اور چھاو ¿ں کے پھیلاو ¿ کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب انہیں شاخسانے لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب روشن خیالی کو رد عمل قرار دیتے ہیں۔ عمل اور رد عمل کی بحث موضوعی ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ صرف ایک نکتے پر غور کر لیجئے کہ نشاة ثانیہ کے بعد سے جدید علوم سے استفادہ کرنے پر کون مجبور ہوا ہے؟ کون ہے جو جدید کی ناگزیریت کے سامنے قدامت کے احیا کا بند باندھنا چاہتا ہے۔ علم اور ٹیکنالوجی جدید ہیں تو اقدار اور سیاسی بندوبست بھی جدید ہوں گے۔ حالیہ صدیوں میں انسانیت کی کشاکش کو عہد وسطیٰ کی تحریک اصلاح پسندی جیسے ردعمل سے منسوب کرنا مناسب نہیں۔ جدید علم کا منہاج جیت چکا۔ جدید علوم کی مدد سے قدیم نمونے کی بازیافت پر کمربستہ حلقے رد عمل کا شکار ہیں۔ دہشت گردی تو ایک فکری نہج کا نتیجہ ہے۔ اختلاف دہشت گردی کے واقعات کی مذمت پر نہیں کیونکہ اب تو ڈاکٹر صاحب بھی تیس برس پہلے کے جہاد کے بارے میں بہت سلجھے ہوئے خیالات پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس فکری رویے پر نظر ثانی کے لئے تیار نہیں ہیں جس نے فکر کی حتمیت اور اختلاف رائے کے یکسر استرداد سے دہشت گرد نفسیات کو جنم دیا۔

ڈاکٹر صفدر محمود صاحب جیسے فاضل عالم سے \”مادر پدر آزادی\” کی اصطلاح جیسے مسامح کی توقع نہیں کی جاتی۔ آزادی ایک دستوری تصور ہے اور اس کی حدود کا تعین قانون تعزیرات میں کیا جاتا ہے۔ جرم کی حدود سے ماورا منطقہ انسانی انتخاب کی آزادی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی تحدید نہیں کی جا سکتی۔ ڈاکٹر صاحب مذہب اور سیاست کے تعلق کے ضمن میں \”الحاد\” کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے آئین کی شق 20 میں عقیدے کی آزادی دیتے ہوئے کسی عقیدے کی تخصیص نہیں کی گئی۔ الحاد کا لفظ ہماری آئینی لغت کا حصہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم صفیروں کے اسی غیر محتاط لہجے سے تکفیر کی خرابی نے جنم لیا ہے۔ آزاد ریاست میں عقیدے کی پیروی کا حق مسلمہ ہے لیکن کسی شہری کو دوسرے شہری کے عقیدے پر حکم لگانے کا اختیار نہیں۔ یہ بحث پرانی ہے کہ کیا قومی ریاست کا سیاسی بندوبست مذہب کے تابع ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ قائداعظم نے کبھی سیکولرازم کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ حضور قائد اعظم نے کبھی خود کو ان معنوں میں اسلامسٹ بھی تو نہیں کہا جو سید مودودی کی فکر کا نصب العین ہے۔ گیارہ اگست 1947 کی تقریر پر بہت مباحث ہوچکے لیکن اس جملے کا جواب نہیں مل رہا کہ عقیدے کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ یکم فروری 1948 کو امریکی عوام سے ریڈیائی خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا ”بہرصورت پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں ملاﺅں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو، مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے جو دیگر شہریوں کو دیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت میں اپنا کماحقہ کردار ادا کرنے کا پورا موقع ملے گا۔“ 19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشریاتی تقریر میں قائداعظم نے واضح اعلان کیا کہ ’پاکستان کی ریاست میں ملاﺅں کی حکومت (Theocracy) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ ‘

ارلینڈ جینسن (Jansson Erland ) نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالہ بعنوان ’پاکستان، بھارت یا پختونستان‘ میں لکھا ہے کہ ’پیر مانکی شریف نے انجمن آصفیہ کے نام سے تنظیم بنا رکھی تھی۔ اس تنظیم نے اس شرط پر مسلم لیگ کی حمایت کا وعدہ کیا کہ پاکستان میں شریعت نافذ کی جائے گی۔ قائد اعظم نے اس مطالبے سے اتفاق کر لیا۔ اس پر پیر مانکی شریف نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیا اور اپنے پیروکاروں کو 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنے کا حکم دیا۔ ‘پیر مانکی شریف کے نام قائداعظم کا خط پاکستان دستور ساز اسمبلی کے مباحث (جلد پنجم) میں موجود ہے۔ انہوں نے لکھا تھا۔ Sharia will be applied to the affairs of the Muslim commnuity. (مسلمانوں کے امور میں شریعت کا اطلاق کیا جائے گا۔) ”مسلمانوں کے امور میں“ شریعت کا اطلاق کرنے اور \”ریاست میں شریعت نافذ“ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ قائد اعظم نے جمہوریت کا وعدہ کیا تھا۔ جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی مساوات ہے، اکثریت کا جبر نہیں۔ قائد اعظم اپنے وعدے کا پاس رکھتے تھے، ڈاکٹر صفدر محمود سے تو ملک الشعرا طہرانی کا شعر ہی عرض کیا جا سکتا ہے۔

وفا و عہد مودّت ز گل رخاں مطلب

من ایں معاملہ را کردم و زیاں کردم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments