امی، کیا میری جان ان کے طوطوں میں بند تھی؟


پیاری امی جان!

جس وقت تمہیں یہ خط وصول ہوگا، اس وقت میں آپ سے اور اس بے حس دنیا سے بہت دور جا چکی ہوں گی، مگر یہ خط لکھنا بہت ضروری تھا اس لئے میں نے یہاں ایک فرشتے سے خاص طور پر درخواست کر کے یہ خط لکھوایا ہے کیونکہ ابو نے تو ہم سب کو اسکول کی کبھی شکل دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی ورنہ میں یہ خط خود لکھتی۔

امی میں یہاں بہت خوش ہوں اور اللہ میاں نے مجھے بہت سے اور بچوں کے ساتھ جنت میں رکھا ہے اور ہماری خدمت کے لئے فرشتے اور حوریں ہر وقت پیش پیش رہتی ہیں۔ امی ہمیں یہاں پر جو کھانے کھلائے جاتے ہیں وہ کھانے اور پھل تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ امی ہم سب بچے ہر وقت یہاں پر یا تو آرام کرتے ہیں یا پھر کھانا کھاتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔ ہم سب بچے یہاں کوئی بھی کام نہیں کرتے اور فرشتے ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں۔ امی! کاش میں یہاں بہت پہلے آجاتی تو اتنے ظلم تو نہ سہنے پڑتے۔ یہ جگہ واقعی ایک جنت ہے اور تمہاری دنیا ایک جیتا جاگتا جہنم۔

اور امی! میں یہ خط خاص طور پر چھوٹی کی وجہ سے لکھ رہی ہوں جو ابھی چار سال کی بھی نہیں ہے اور جب وہ میری طرح سات آٹھ سال کی عمر میں آ جائے گی تو اسے بھی تم ابا کے کہنے پر، میری ہی طرح کسی گھر میں کام پہ لگا دو گی۔ امی! میں تمہیں اللہ پاک کا واسطہ دیتی ہوں، چھوٹی کو کبھی بھی اس جہنم میں نہیں بھیجنا۔ کہتے ہیں ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے پھر تم ہمیں آخر اس دوزخ میں کیوں بھیجتی ہو؟ امی ان گھروں کے مالک انسان نہیں ہوتے بلکہ جانور ہوتے ہیں، اور یہ گھر ان امیروں کے لئے گھر ہوں گے مگر ہم غریبوں کے لئے یہ گھر کسی جہنم سے کم نہیں ہیں۔

ان گھروں کے مالک ہم غریب بچوں کو کتوں سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔ ہم سارا دن مشینوں کی طرح کام کرتے ہیں مگر ان کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے اور رات کو بڑی مشکل سے چند گھنٹے آرام کی اجازت ملتی ہے وہ بھی شدید گرمی میں بغیر پنکھے کے زمین پر لیٹ کر پتہ نہیں کیسے نیند آجاتی ہے؟ شاید اس لئے کہ سارا دن جانوروں کی طرح کام کر کر کے جسم میں جاگنے کی طاقت ہی نہیں رہتی۔ امی! خدا کے لئے چھوٹی کو ان ظالموں کے گھر کام کرنے کے لئے کبھی بھی نہیں بھیجنا ورنہ یہ بھیڑیے اسے بھی میری طرح مار مار کے سچ مچ میں مار دیں گے۔

امی! یہ لوگ جانوروں اور پرندوں سے تو بہت پیار کرتے ہیں مگر ہم غریب بچوں سے ان کو پتہ نہیں کون سی نفرت ہوتی ہے جو ہر وقت ان کے سینوں میں آگ بن کر دہک رہی ہوتی ہے۔ ہم سے اگر ایک شیشے کا گلاس بھی ٹوٹ جائے تو یہ لوگ ہمارا گلا دبا دیتے ہیں۔ امی! تم نے مجھے جو جو کام سکھائے تھے میں ویسے ہی سارے کام کرتی تھی، برتن اور کپڑے دھونا، صفائی کرنا، میں سارے کام ویسے ہی کرتی تھی جیسے تم نے بتائے تھے۔ مگر یہ لوگ پھر بھی مجھے ہر وقت مارتے پیٹتے رہتے تھے۔

امی تم نے ساری چیزیں سمجھائیں تھیں مگر ایک چیز تم نے نہیں بتائی تھی امی! اس دن میں نے غلطی سے ان کے طوطوں کے پنجرے کا دروازہ کیا کھول دیا، ان لوگوں نے مار مار کے میری جان ہی نکال لی اور مجھے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امی کیا میری جان ان کے طوطوں میں بند تھی؟

فقط تمہاری زہرہ
ساکن جنت الفردوس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments