ذات پات اور چھاتی ٹیکس


اسے اپنی ذات کے ہونے کا احساس تھا، وہ اپنے ہونے کو دنیا کے کسی بھی مشروط قانون کے تحت باندھ نہیں سکتی تھی۔ اکھنڈ بھارت میں بسے مختلف دیہاتوں کے لوگ، ذات پات، بھید بھاؤ کی مشکلوں سے نبردآزما رہتے تھے۔ صدیوں پرانی بات ہے کہ اسی اکھنڈ بھارت کے جنوب کے کسی گاؤں میں ناولٹی نام کی خاتون اپنے شوہر ہریش کے ساتھ رہتی تھی۔ اس گاؤں کا ایک بہت ہی عجیب بلکہ ذلت آمیز قانون رائج تھا۔ وہاں پر ذات برداری کے نام پر ظلم و ستم عروج پہ تھا۔ لیکن ناولٹی کو اس سارے المیے پہ اعتراض تھا۔ وہ قانون یہ تھا کہ اونچی ذات کی نسبت نچلی ذات کے لوگوں کو ذاتی آزادی سے جینے کا حق بھی دولت کے توسط سے سے مہیا ہوتا تھا۔ دراصل نچلی ذات کی خواتین کو اپنی چھاتی چھپانے کی اجازت نہیں تھی اور اگر وہ اسے ڈھانپنا چاہیں تو پھر انھیں محصول ادا کرنا پڑتا تھا۔ اب ان بیچارے نیچی ذات والے لوگوں کی آمدنی کتنی ہو گی کہ وہ یہ محصول ادا کر سکیں۔ لہذا انھیں مجبوراً اپنا نچلا دھڑ ہی چھپانا پڑتا۔ اب ایسے میں اونچی ذات کے مردان نچلی ذات کی خواتین کی چھاتیوں میں پر اپنی نظریں گاڑے رہتے جو ان کے لیے مزے کا سامان مہیا کرتا۔ نظروں سے عزت لٹتی رہتی اور یہ برتاؤ ان خواتین کو بہت تکلیف دیتا۔ بالآخر ناولٹی نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق علم بغاوت بلند کیا اور اپنے شوہر کو ا س بات پہ قائل کیا کہ اب وہ اپنے پورا بدن ڈھانپے گی اور موولا کرم (محصول) بھی نہیں دے گی۔ اس کے شوہر نے بھی اس کا ساتھ دینے کے لیے وعدہ کیا۔ پھر ایک داستان ظلم برپا ہوئی۔ اس گاؤں کے مکھیا کو یہ ماجرا پتا چلا تو وہ ناولٹی کے پاس آئے اور اسے ڈرایا دھمکایا کہ تم قانون کو توڑ رہی ہو اور یہ ہمیں منظور نہیں۔

ناولٹی نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ موولا کرم (محصول) نہیں دے گی۔ مکھیا نے اسے ایک مہینے کا وقت دیا کہ وہ محصول اکٹھا کر لے اور پھر وہ ٹھیک ایک مہینے کے بعد موولا کرم وصولنے کے لیے آئیں گے۔ ایک ماہ تک ناولٹی نے پورا بد ن ڈھانپے رکھا اور جب مہینہ پورا ہو گیا تو مکھیا اور باقی لوگ ناولٹی کے گھر آئے۔ مکھیا نے اس کو کہا کہ موولا کرم دینے کے لیے چھاتی کا وزن اور سائز دیکھنا پڑے گا۔

لہذا پہلے چھاتی دکھاؤ۔ ناولٹی نے چھاتی عیاں کی مکھیا نے چھاتی کو ہاتھ میں پکڑا اور دبوچ کر وزن اور سائز کا اندازہ لگایا اور اسے کہا کہ 5000 موولا کرم لگے گا۔ جاؤ لے آؤ۔ ناولٹی گھر کے اندر گئی اور اس نے اپنی چھاتیوں پر تیز دھار چھریوں کے وار کیے اور ان کو کاٹ کر ڈش میں سجا کر اوپر کپڑا رکھ کر باہر لے آئی اور مکھیا کو دے دیے اور کہا کہ،

یہ لو ستھن (چھاتیاں ) ، اس کا موولا کرم چاہیے تمھیں؟ اب نہ یہ ستھن ہوں گے نا ہی تم محصول مانگو گے۔ اس کے اس عمل کو دیکھ مکھیا اور باقی لوگ ہڑبڑاہٹ کا شکار ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ ناولٹی گر گئی اور اس کی روح تو پہلے ہی مر چکی تھی مگر اب اس کے بدن نے بھی دنیا سے آزادی پا لی تھی۔ ہریش جو کہ اس وقت گھر پہ موجود نہ تھا، جیسے ہی گھر پہنچا اس نے اپنی عورت کو اس حال میں مرا ہوا پایا۔ ناولٹی کی چتا کو آگ لگائی گئی اور ہریش بھی اس آگ میں ستی ہونے کے لیے کود گیا۔

اس طرح دنیا کی دوسری بڑی آبادی والے سیکولر ملک کی سیکولرازم میں ایک مرد ستی ہوا جہاں پر پہلے صرف خواتین ہی ستی ہوا کرتی تھیں۔ ناولٹی کی قربانی رنگ لے آئی۔ وہ مر تو گئی مگر زندہ لوگوں میں اپنا نام لکھوا گئی۔ اور مذہب، ذات پات کے نام پہ بنے قانون کا گلا گھونٹ گئی۔ یو ں موولا کرم (محصول برائے چھاتی) کا کینسر بھی مر گیا۔

https://www.bbc.com/news/world-asia-india-36891356


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments