دلی کو کب تک بہت دور سمجھا جائے گا


سیلاب کا پانی بستی میں داخل ہو جائے تو بستی والوں کا جان بچانے کے لئے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ جانا مستقل حل تو نہیں لیکن اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی نہیں ہوا کرتا۔ اب اگر سیلابی ریلا اپنے قیام کی طوالت بڑھا دے تو کیا بستیوں والے چھتوں سے محض اس لئے اتر پڑیں کہ آخر وہ کب تک پانی اتر جانے کے انتظار میں اپنی زندگیوں کو عذاب بنائے رکھیں گے۔ کیا پانی ان کو تیرنا سکھا دے گایا وہ پانی میں چھلانگ لگانے کے بعد اپنی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سیلابی پانی خواہ کتنا ہی بلند ہو جائے، بہت طویل عرصے کبھی چڑھا نہیں رہا کرتا اور اپنی خاص بلندی کو چھو لینے کے بعد آخر کار اتر ہی جایا کرتا ہے۔ کورونا کو بھی اگر ایک سیلابی ریلا سمجھ لیاجاتا تو شاید پورا پاکستان اب جس گرداب میں گھر چکا ہے، منظر اس سے مختلف ہوتا۔

جب یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جس فرد کو یہ وبا چمٹ جاتی ہے، دو سے چار ہفتے کے اندر یا تو آر ہو جاتی ہے یا پار اتر جاتی ہے۔ پوری دنیا کو یہ احساس بھی ہے کہ اس وبا سے اموات کی شرح بہت کم ہے اور دوا علاج نہ ہونے کے باوجود بھی صحتیاب ہوجانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ گویا جس مقام پر بھی یہ انسانوں پر حملہ آور ہو وہاں اگر دو سے چار ہفتوں کے لئے ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی جائے تو جو کچھ بھی گل کھلنے ہوں گے وہ دو چار ہفتوں میں کھل کھلا جانے کے بعد زندگی اپنے معمول پر آ جائے گی۔

اس تدبیر کی سب سے اعلیٰ مثال چین نے قائم کی اور جیسے ہی چینی حکومت کے علم میں کروڑوں انسانوں کی آبادی والے شہر ”ووہان“ میں اس وبا کے پھیلنے کا علم ہوا، پورے شہر کی رونقوں کو سناٹے میں تبدیل کر دیا گیا۔ جس شہر میں دیکھتے ہی دیکھتے 80 ہزار سے زیادہ افراد کورونا کا شکار ہو گئے تھے، سخت ترین لاک ڈاؤن نے چند ہفتوں میں اس تعداد کو وہیں کا وہیں روک دیا۔ اس سے نہ صرف پورا ووہان معمول پر آ گیا بلکہ یہ وبا ووہان سے باہر نکل کر چین کے دیگر شہروں کا رخ کرنے میں بھی سخت ناکام رہی۔

پاکستان میں ابتدا کراچی سے ہوئی تھی۔ دیگر شہروں میں بصد مشکل کوئی ایک آدھ واقعہ رپورٹ ہوا ہو تو ہوا ہو۔ جونہی اس وبا کے داخل ہو جانے کا علم ہوا، اگر فوری طور پر ووہان کی طرح پورا کراچی یا جہاں جہاں سے کوئی کیس سامنے آیا تھا، لوگوں کا گھروں سے نکلنا تک بند کر دیا جاتا تو شاید پاکستان میں یہ وبا شدت اختیار نہیں کر پاتی۔

کراچی کی اپنی مستقل آبادی سے کہیں زیادہ آبادی وہ ہے جو بسلسلہ روزگار کراچی میں قیام پذیر ہے۔ وبا کا سنتے ہی لاکھوں کی تعداد میں لوگ کراچی سے نقل مکانی کرنے لگے۔ پاکستان کی کوئی بستی، شہر اور قصبہ ایسا نہیں جہاں کے افراد کراچی میں روزگار کی تلاش میں نہیں آئے ہوئے ہوں۔ شدت کے ساتھ نقل مکانی پورے پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بنی جس کا نتیجہ یہ نکلا اب یہ وبا ایک ایسی خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے جس کا کسی مقام پر ٹھیر جانا ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ لاک ڈاؤن مسئلہ کا حل نہیں، درست ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ لاک ڈاؤن سے معیشت تباہ ہو کر رہ جاتی ہے، یہ بھی غلط نہیں، ان کا یہ فرمانا کہ لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ نقصان دیہاڑی دار طبقے کا ہوتا ہے، مبنی بر حقیقت ہے۔ ان کا یہ فرمانا کہ لوگوں کو بنائے گئے اصولوں پر از خود عمل کرنا چاہیے ورنہ یہ وبا بہت خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے، ایک زمینی حقیقت ہے۔ یہ حوالہ دینا بھی کہ اب دنیا کے بہت سارے ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو ”اسمارٹ“ بنا دیا جائے اپنی جگہ لاکھ درست سہی لیکن ان کے علم میں یہ حقیقت بھی ہونی چاہیے کہ جن جن ممالک میں لوگ ایس او پیز پر عمل کر رہے ہیں اور جن جن ممالک میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، ان کے فوائد و نقصانات بھی دنیا کے سامنے ہیں۔

پاکستان میں لاک ڈاؤن کو ”اسمارٹ“ کرنے کے سارے مناظر ان کے اور پوری قوم کے سامنے ہیں اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد جس تیز رفتای کے ساتھ اس وبا کا پھیلاؤ بڑھا ہے وہ بھی ان کے سامنے ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب ترقی یافتہ ممالک میں ذرا سی رعایت تہذیب یافتہ کھلائے جانے والوں کو وحشی بنا سکتی ہے تو جو قوم پہلے ہی جنگلوں میں رہ رہی ہو ان سے خوشگمانیاں کیا تباہی و بربادی کا سبب نہیں بنیں گی۔

چین سے کہیں آگے نکل جانے کے بعد بھی اگر ذمے داروں کے لبوں پر مسلسل یہی بات ہے کہ پاکستان میں وبا توقع سے کم ہے اور اموات کی شرح ہمارے حساب کتاب سے بہت پیچھے ہے تو جو دلی ابھی تک بہت دور سمجھا جا رہا ہے، بعید نہیں کہ دشمنوں کے نیزوں کی انیوں سے دلی اور دلی والوں کے سینے جا لگیں (خدا نخواستہ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments