بہن پر مضمون نہیں، بس گالی


علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پرچے میں بہن پر مضمون کو اخلاق باختگی قرار دیا گیا تو ایک واقعہ یاد آگیا ۔\"jamshed
کوئی دو چار برس پرانی بات ہے  ہمیں خبر ملی کہ ہمارے ایک دوست کی بڑی بہن کا انتقال ہوگیا ہے ۔ دوست اپنے آبائی گھر سے اسلام آباد واپس آئے تو ہم ان کے ہاں تعزیت کے لئے پہنچے ۔ بہن کے انتقال پر افسوس کیا تو ان کی آنکھ میں آنسو آگئے ۔ ہم ان کی تر آنکھوں کو بہن سے محبت کا اظہار سمجھے تو وہ کہنے لگے کہ یہ افسوس کے نہیں ملامت کے آنسو ہیں ۔ آنسو پونچھتے ہوئے شدت ِ غم میں انہوں نے چند جملے ایسے ادا ہوئے جو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔
’’ میں ، میرے بھائی اور اکلوتی بہن ایک ہی گھر میں رہے لیکن ہم اپنی اکلوتی بہن کے ساتھ کھل کر بات بھی نہیں کرسکے۔ وہ گھر میں ایسے رہتی رہی جیسے برہمنوں درمیان کوئی اچھوت ۔ جیسے گناہوں کی پوٹلی ۔ ہم اس پر شرمندہ ہوتے رہے ، پھر ایک دن یہ پوٹلی جلدی میں کسی کے سر لاد دی اور نربھار ہوگئے ۔
بعد میں پتہ چلا کہ وہ اچھی خاصی خوش شکل تھیں ، ان کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا ۔ ہم نے ان کی آنکھوں کا رنگ اُس وقت دیکھا جب اُس میں کوئی چمک نہیں رہی تھی۔مجھے دُکھ اس بات کا ہے کہ میری اس سے کوئی یاد وابستہ نہیں ۔ مجھے دُکھ اس بات کا ہے کہ میں نے ا س کی موت سے پہلے اس کے وجود کے اعتراف کو بھی گناہ سمجھا ‘‘ ۔
وہ ایک بار پھر رونے لگے اور کمرے میں موجود ہر ایک کی آنکھ نم ہوگئی ۔
ہمارے یہ دوست ایک نامور لکھاری اور معروف دانشور ہیں جو ان جملوں میں وہ بات کہہ گئے جو بہن پر مضمون کو چند لوگوں کے نزدیک اخلاق باختہ بناتی ہے ۔ وہ بات یہ ہے کہ ہم نے عورت کی ہستی کو جنس زدہ آنکھ سے دیکھ اپنی شہوانیت سے آلودہ (sexualize) کر رکھا ہے ۔ اب ہمیں عورت کے آئینے میں کچھ اور نہیں اپنی شہوانیت کا عکس دکھائی دیتا ہے اور ہم اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں ۔ ہم نے اس سے دیگر تمام اوصاف نوچ کر اُسے گناہوں کی ایک پوٹلی سمجھ لیا ہے ۔
اب ہم اس پوٹلی پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ بات کرنا ایک مکمل انسان کے طور پر اس کے وجود کو تسلیم کرنا ہے ۔ ہم اسے نظر اندا ز کرنا چاہتے ہیں لیکن اس پر مضمون لکھنا  ہمیں اس کے وجود کا معترف ہونے پر مجبور کررہا ہے ۔ مضمون لکھنا تو اس پر توجہ کا تقاضا کرتا ہے اور ہماری توجہ اس کی ہستی ، اس کی ضروریات اور خوابوں کو تسلیم کرنے کی طرف دلاتا ہے ۔
اوپن یونیورسٹی کے ممتحن سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ وہ ایک ایسے سماج میں یہ سوال کر بیٹھا ہے جو گائے بھینس پر مضمون لکھ سکتا ہے بہن پر نہیں کیونکہ اس کے نزدیک بہن پر گالی کے علاوہ کوئی مضمون نہیں باندھا جاسکتا ۔
قابلِ صد احترام ممتحن ! مہذب دنیا کے سوالات ہم سے مت پوچھیں ! یہاں اکثریت بہن کا نام محض گالی گلوچ میں سنتی اور استعمال کرتی ہے ۔ یاد رکھیں ۔ جس نے جو انڈیلا ہے وہی قے کرتا ہے۔ لہٰذا بہن پرگالی کی بجائے کسی تخلیقی کاوش کا تقاضا کریں گے تو شریف لوگ آپے سے باہر ہوجائیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments