اور وبا گھر تک آ پہنچی


شیخ صاحب کو اپنی قوت مدافعت پر بہت ناز تھا۔ ان کے بیٹے کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تو مجبوراً انہیں بھی ٹیسٹ کروانا پڑا۔ حیران کن طور پر رپورٹ مثبت آئی اب شیخ صاحب حیران کہ انہیں کوئی علامات نہیں تو رپورٹ مثبت کیونکر آئی۔ دو لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروایا لیکن دونوں کا رزلٹ مثبت آیا۔ غصے میں شیخ صاحب گھر سے نکلے اور مارکیٹ میں جا پہنچے اور خوب خریداری کی۔ گھر والوں نے بہت سمجھایا کہ انہیں قرنطینہ ہو جانا چاہیے مگر شیخ صاحب کی یہی ضد کہ جب انہیں علامات ہی نہیں تو وہ کیونکر قید تنہائی کے ساتھی بنیں۔

اگلے روز شام میں اچانک سے شیخ صاحب کا سانس بگڑ گیا۔ گھر والے بھاگے بھاگے انہیں لے کر ہسپتال پہنچے۔ وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا۔ شیخ صاحب چونکہ دل کے مریض بھی تھے۔ اس لئے ان کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ چند دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد شیخ صاحب چل بسے اور یوں ذرا سی بے احتیاطی سے شیخ صاحب زندگی کی بازی ہار گئے۔ کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے سے لے کر بالاآخر کرونا نے پھیلنا ہے ہم اسے پھیلنے سے نہیں روک سکتے تک کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔

میرا شہر لاہور کرونا کے چند پسندیدہ شہروں میں سے ایک شہر قرار پایا ہے۔ لاہور شہر کے آس پاس کی آبادیوں کو بھی یہ وائرس بری طرح جکڑ چکا ہے۔ وبا کے دنوں میں عید ہم لاہوریوں نے بھرپور طریقے سے منائی۔ یوں لگتا تھا جیسے حکومت نے اس سلسلے میں وبا کو خصوصی پرمٹ جاری کیا تھا کہ عید کے دنوں میں وہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو شکار کر سکے۔ اول تو پورے ملک میں شروع دن سے سمارٹ لاک ڈاؤن کے نام پر ایک تماشا شروع کیا ہوا تھا جس میں سوائے چند مخصوص شعبہ جات کے علاوہ نقل و حرکت کی کوئی پابندی نہیں تھی۔

ان دنوں وبا ہمارے لوگوں کو دیکھ کر مسکرایا کرتی تھی اور سوچتی تھی جب وہ باقاعدہ ان لوگوں پر حملہ کرے گی تو کس قدر آسانی سے یہ تمام قوم اس کے جال میں پھنس جائے گی۔ ان دنوں یا تو بہت زیادہ احتیاط کی جا رہی تھی یا پھر وبا کے ساتھ اٹکھیلیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کچھ عرصے بعد بہت زیادہ احتیاط کرنے والے بھی تھک گئے اور عید کے دنوں میں انہوں نے بھی گھوم پھر کر اپنی تھکن اتاری۔ عید کے دنوں میں شہر میں ٹریفک کا رش دیکھ کر لگتا تھا کہ شہر کی رونقیں لوٹ آئی ہیں اور وبا کا نام ونشان نہیں ہے لیکن وبا کے وار جاری تھے اور شہری ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے سمارٹ لاک ڈاؤن کے اس موسم سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے۔

جو باہر نہیں گئے انہوں نے اپنے گھروں میں ہی ملنے ملانے کی تقریبات کا اہتمام کر لیا۔ اب ہر طرف رقص کرونا جاری ہے۔ شہریوں کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ وبا نے ایک بار ہر ایک وجود میں اپنی محبت کے نشان ضرور چھوڑنے ہیں اس لئے جن کے وجود وبا کی اس مہک سے محروم ہیں وہ قطار میں کھڑے اپنی باری کے منتظر ہیں کہ کب وہ کرونا کے لاک اپ میں قید ہو کر اپنی مدت پوری کریں اور بیماری یا پھر زندگی کی قید سے رہائی پائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments