رمضان نے ہمیں کیا دیا؟


خلق خدا سے محبت!

”قرآن کا مشن“، ”تعمیر انسان“ اور ”تعمیر جہان“ ہے۔ ایک خاص طرز کا انسان اور ایک خاص طرز کا جہان۔ قرآن اور صاحب قرآن (ﷺ) نے ایسے ”انسان“ و ”جہان“ کی خوبصورت وضاحت کی ہے اور فرمایا ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اس میں اس خاص قسم انسان و جہان کی جھلک بھی ہے اور اس مشن کی یاد دہانی بھی۔

وہ مطلوب انسان یہ ہے یعنی ایک ایسا انسان جو نہ صرف خالق کو اپنی ذات و صفات کے ساتھ جاننے اور ماننے والا ہو اور ان کے تمام تر احکامات پر دل و جان سے عمل کرنے والا ہو بلکہ اس خالق کی مخلوق کے حقوق کو جاننے و ماننے والا اور مکمل طور پر اس کی ادائیگی کرنے والا بھی ہو۔ وہ خود اگہی اور معرفت رب کی دولت سے بھی مالا مال ہو اور خلق خدا اور خاص کر بندگان خدا کے ساتھ محبت و ہمدردی کی جذبے سے بھی مزین ہو۔ وہ زمین میں فساد کرنے والا نہیں بلکہ امن کا پیامبر ہو۔

”ان کے ہاتھ اور زبان سے بندگان خدا محفوظ ہو“ الحدیث

ان کی سرشت میں تخریب نہیں بلکہ بلکہ تعمیر ہے اسی واسطے قرآن اور صاحب قرآن کا روڈ میپ یہی ہے ”تطہیر و تعمیر افکار، تنظیم، اصلاح معاشرہ اور اصلاح نظام“ ۔

مقصود ایک خاص جہان کی تعمیر ہے ایک خاص انسان کے ذریعے انسانیت ہی کے لیے۔ خوبصورت دنیا، کامیاب آخرت
”ربنا آتنا فی الدنیا حسنةً وفی الآخرة حسنةً“

خوبصورت دنیا کامیاب آخرت کی کھیتی ہے۔ ایک ایسا جہاں قرآن کا مقصود ہے جہاں امن ہے، خوشحالی ہے، عدل ہے، انصاف ہے، تہذیب ہے، تعلیم ہے، مقصد ہے اور نیکی کا چلن اور ہر برائی کا سدباب ہے۔ ایک ایسے جہان کی آبادی کے لیے معاشرے کی تطہیر اور تعمیر لازمی ہے اور یہ سب کچھ ایک جدوجہد اور احساس ذمہ داری کا متقاضی ہے ان پاکیزہ نفوس کے ذریعے جو ایک خاص طرز کا انسان ہے اور ان کے اخلاق، کردار اور سیرت کی تعمیر ہو چکی ہے اور یہ سب کچھ ایک منظم تنظیم اور اجتماعیت کے ذریعے ہی ہو پائے گا۔

ماہ رمضان دراصل اسی مشن کی یاد دہانی اور تیاری کا مہینہ ہوتا ہے۔ ایک فرد کی اصلاح کی جاتی ہے اور رب کے ساتھ ان کا تعلق جوڑ دیا جاتا ہے۔ تقوی اسی احساس سے عبارت ہے کہ بندہ ہر قسم کی الائشوں سے دور رہے اور اپنے نفس کا تزکیہ کر لے۔ رمضان میں پورے اہتمام کے ساتھ بندوں کو بندگی رب کا حقیقی مفہوم سکھایا جاتا ہے اور بندگان خدا کے ساتھ خیرخواہی کا عملی مظاہرہ کروایا جاتا ہے۔ اس مہینے میں پابندی ہوتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ہر قسم شر سے محفوظ رہ سکے یعنی جھگڑوں سے احتراز، غیبت، جھوٹ، بہتان، الزام اور گالم گلوچ سے مکمل پرہیز۔

اسی طرح ہمدردی، خیر خواہی، تعاون، محبت اور فرائض کی ادائیگی کا بھرپور درس ہے۔ بھوکے انسانوں کے بھوک کا احساس دلانا ہے تاکہ پڑوس میں، خاندان میں اور محلے میں کوئی بھوکا بے اسرا نہ رہے اس لیے انفاق فی السبیل اللہ کی عملی مشق کرائی جاتی ہے اور صدقات، خیرات اور فطرانے کی صورت عملی مظاہر کروائے جاتے ہیں۔

خلاصہ یہ رہا کہ رمضان کا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالی کے بندے اچھے اخلاق و کردار کے مالک ہو کر بندگی رب میں عافیت جانے اور مخلوق خدا کو خیر و نفع پہنچانا اسی بندگی کا تقاضا جانے۔ بندگان خدا کو نہ صرف اپنے شر سے محفوظ رکھے بلکہ ان کے ساتھ بھلائی، نیکی اور خیر خواہی کا رویہ اور طرزعمل رکھا کرے۔

اگر اسی احساس نے حساسیت پائی ہے تو سمجھ لیجیے کہ رمضان کی ریاضتوں نے کچھ اثر ڈالا ہے وگرنہ بہت سارے ایسے ہیں جنھیں دن بھر کے بھوک و پیاس اور رات کی تھکاوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ملا۔

رب کی معرفت اور انسانیت و خلق خدا کے ساتھ محبت اور خیر خواہی کے جذبات کی بیداری رمضان المبارک کے خصوصی تحائف ہیں اور یہی اس کا بنیادی مقصد و فلسفہ ہے۔ اسی پر کاربند رہنے سے ہی وہ ”خاص قسم کا جہاں“ وجود میں آئے گا جو رب کو مطلوب ہے۔
خوبصورت دنیا اور کامیاب آخرت مطلوب و مقصود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments