ہتھنی کیوں مری؟ بارش کیوں ہوئی؟ آندھی کیوں آئی؟ مجرم مسلمان


ہتھنی کیوں مری؟ مجرم مسلمان
بارش کیوں ہوئی؟ مجرم مسلمان
آندھی کیوں آئی؟ مجرم مسلمان

یہ نیا ہندوستان ہے، جہاں آنکھیں موند کر تمام الزامات مسلمانوں پر ڈال دیے جاتے ہیں۔ بابری مسجد انہدام معاملہ کی عدالت میں گواہی چل رہی ہے۔ اب ہنسی آتی ہے۔ کیا اس کی کوئی ضرورت ہے؟ فیصلہ آ چکا۔ کہہ دیا گیا کہ یہ ہندوتو کی جیت ہے۔ پھر ہندوتو کی فتح کا جشن منانے والے ملزمان کہاں سے ہو گئے؟ ان گواہیوں سے کیا ہو گا جبکہ رام مندر تعمیر کا راستہ بھی کھل چکا ہے۔ اور یہ تعمیر کا معاملہ بھی جے پی کے منشور کے عین مطابق ہے۔

پھر اس جرح، مقدمہ یا گواہی کا مطلب کیا ہے؟ راہل گاندھی نے کہا، لاک ڈاؤن سے ہماری معیشت تباہ ہو گئی۔ اگر کوئی حقیقت میں تباہ ہوا ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ جو مزدور بھی ہیں، تاجر بھی، غریب طبقہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور مڈل کلاس میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم جس شاہین باغ احتجاج کو کامیابی کی ضمانت سمجھ رہے تھے، لاک ڈاؤن کے بہانے سے حکومت حمایت کرنے والے تمام افراد پر شکنجہ کس رہی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کے فیصلے کے خلاف بولنا جرم ہے۔

ذرا پیچھے لوٹتے ہیں۔ چاند اور مریخ پر آبادی بسانے کے خواب کے باوجود امریکہ ہو یا ہندوستان، کھوکھلی ہوتی معیشت نے دونوں کو، بلکہ اس وقت پوری دنیا کو مضحکہ خیز بونسائی حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ معیشت کو تباہ کیا ہے وائرس نے، جنگوں نے۔ بے روزگاری، روزگار، نوکری، سرمایہ کی فراہمی سے جنگ لڑنے والے چھوٹے بڑے ممالک نا معلوم اور خوفناک جنگوں میں جھونک دیے گئے۔ عالمی سطح پر امن کے خواب غائب ہو گئے صرف جنگوں کا سہارا ملا۔

ہتھیاروں کی ریس میں دنیا کی معیشت تباہ ہوتی رہی۔ امن کی تلاش میں سکوں اور عام زندگی متاثر ہوتی رہی۔ اسی لئے اس عہد کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو انتساب ویلین حکمرانوں کے نام ہوگا۔ ہم دو خطرناک اور برے آدمیوں میں ایک کم برے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ہندوستان میں بھی ہوا۔ ہم نے اچھے اور خوش حال دنوں کا تصور کیا اور ہمیں ہمیں فرقہ پرستی اور نفرت کی جنگ میں ڈھکیل دیا گیا۔ امریکہ میں بھی یہی تماشا ہوا۔

امریکیوں نے ایک جابر، ظالم، عیاش، مسخرہ اور ایک ایسے نا تجربہ کار، نا اہل کو حکومت سونپ دی جس کے بارے میں لگاتار امریکی میڈیا چیختا رہا۔ اور ٹرمپ کے امریکی صدر بن جانے کے باوجود میڈیا کی مخالفت میں کوئی نرمی یا کمی نہیں آئی امریکی جانتے تھے کہ ظالم بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا 11 / 9 کے بعد اسلامی دہشت گردی کے خوف سے پبلک اب تک باہر نہیں آئی تھی۔ سینئر بش سے جونیئر بش اور اوباما تک امریکی فوج دوسرے ممالک سے نہ ختم ہونے والی جنگوں میں جھونک دی گی تھی۔

یہ اندر خانے بڑے انقلاب کی تیاری تھی اور ٹرمپ نے ٹھیک اسی جگہ سٹروک لگایا۔ مسلمانوں کو ملک سے نکال باہر کرنا اور ایسی جگہ چوٹ کی، جس سچ سے انکار کرنا مشکل تھا۔ یہ امریکی آج ٹرمپ سے ناراض ہیں اور جانتے ہیں کہ مسلح مسلمان نہیں بلکہ ٹرمپ کی سیاست ہے جس نے امریکہ کو چین اور روس سے بھی کمزور کر دیا ہے۔ کورونا نے امریکی معیشت کی پول کھول دی ہے۔

امریکہ میں یہ میڈیا اب ٹرمپ کی مخالفت کر رہا ہے۔ ہندوستان میں میڈیا ابھی بھی حکومت کی گود میں ہے؟ یہ بات ہندوستانی میڈیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے عوامی فکر میڈیائی فکر سے کہیں مختلف ہوتی ہے۔ غور کریں تو ٹرمپ کے سامنے اس وقت ہلیری کلنٹن تھیں۔ ہلیری کلنٹن بھی کچھ کم نہیں تھیں۔ کیا سیریا کو تباہ کرنے جیسا بیان دینے والی ہلیری کے آنے سے یہ دنیا خوبصورت ہو جاتی؟ جنگیں ہمارا ہدف ہیں تو مثالی اور خوبصورت دنیا کا تصور بھی کسی جرم سے کم نہیں۔

مغرب کا لبرل ماڈل زمیں دوز ہو چکا ہے۔ اب صرف نفرتیں باقی ہیں۔ مغربی تہذیب و ثقافت کے ٹھیک سامنے میکسیکو سے زیادہ بلند اسلامی دیوار تھی جس کے لئے اسرائیل سے ہندوستان تک کھل کر سامنے آ گئے۔ یہ قیاس لگانا مشکل نہیں کہ عراق، افغانستان، لیبیا کی تباہی کے ساتھ ہی تیسری جنگ عظیم ہمارے دروازوں پر دستک دے چکی ہے۔ اب یہ جنگیں زیادہ آزادی کے ساتھ اور کھل کر ہمارے سامنے کھیلی جا رہی ہیں اور ہم خاموش گواہ ہیں۔

جب یہ دنیا کورونا وائرس کا کارڈ کھیل رہی تھی، ، چین اور روس میں بھی مسلمانوں پر مظالم ہو رہے تھے۔ امریکہ میں نسل پرستی عام تھی۔ ہم ایک ایسے کھلے کھیل کے گواہ تھے جہاں ہندوستان میں مسلم سبزی فروشوں، اور داڑھی رکھنے والوں پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھی۔ مسجدوں کو مسمار کیا جا رہا تھا۔ مسلم نشانیوں کو تبدیل کیا جا رہا تھا۔ بھارت کو ماں کا درجہ دینے والے، ایک ماں کو زمین پر گھسیٹ رہے تھے۔ مہاجر مزدوروں کے درد کے آگے مسلمانوں کے درد کو نظر انداز کیا گیا۔ آنے والے دن اداس کرنے والے ہیں۔ ملی تنظیمیں خاموش ہیں۔ ہمارے پاس کوئی میڈیا نہیں۔ اب بہت سے لوگ میڈیا میڈیا کی آواز بلند کر رہے ہیں، جن کو پتہ بھی نہیں کہ کیسا میڈیا ہماری ضرورت ہے۔

اس وقت مسلمان مجرم ہیں اور مسلمانوں کو مجرم ٹھہرانے کے لئے میڈیا کو آزاد کر دیا گیا ہے۔ اس وقت تمام ملی تنظیموں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ہم ذرا بھی کمزور ہوتے ہیں تو حکومت اور میڈیا کی گرفت مسلمانوں پر سخت ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments