افغانستان کی پیچیدہ صورتحال


عید الفطر کے موقع پر طالبان کی طرف سے تین دن کے لئے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا جس کا افغان حکومت نے خیر مقدم کیا اور جذبہ خیر سگالی کے تحت 2000 طالب قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا جس میں سے 710 قیدی اب تک رہا ہوچکے ہیں۔ اس طرح رہائی پانے والے طالبان کی کل تعداد 2700 ہوگئی ہے۔ طالبان نے بھی عید کے موقع پر حکومت کے 73 قیدیوں کو رہا کیا۔ فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے کیا گیا تھا، کہ افغان حکومت بین الافغانی مذکرات شروع ہونے سے پہلے 5000 طالب قیدیوں کو رہا کرے گی، لیکن اشرف غنی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ ان مذاکر ات میں افغان حکومت براہ راست فریق نہیں اور یہ اشرف غنی کے لئے کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے۔

غنی کو شروع ہی سے طالبان امریکہ مذاکرات سے مسئلہ تھا، کیونکہ اس کو اور اس کے ساتھ پورے افغان اشرافیہ کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ یہ وہی لوگ جن کو افغانستان اور اس کے غریب عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ سارے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی نیشنلٹی ہولڈرز ہے یہ آج ادھر ہوں گے کل انہوں نے جانا ہے اس لیے مذاکرات کے راستے روڑے اٹکا رہے ہیں۔

اب یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مکمل جنگ بندی ہوتی ہے تو کیا طالبان کے فیلڈ کمانڈر اور جنگجو اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوں گے؟ نچلے لیول پہ اگر کسی طالب سے بات کی جائے تو ان کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ نہ نکلے ان کے مطابق اگر امریکی فوجی یہاں سے نکلتے ہیں تو وہ جہاد کن کے ساتھ کریں گے؟ طالبان جو لمبے عرصے یا مکمل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طالبان لیڈر شپ زیادہ عرصے تک اپنے جنگجوؤں کو لڑے بغیر فیلڈ میں نہیں رکھ سکتے۔

امریکہ طالبان امن معاہدہ بنیادی طور پر دو وجوہات کی بنا پر ہواہے۔ پہلا یہ کہ واپسی کو محفوظ بنایا جاسکے، ان کے فوجی قافلوں پر طالبان حملے نہ کریں۔ دوسری افغانستان میں نوے کے عشرے والی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔ سوویت یونین نے افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑا جس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی۔ اور پھر طالبان دور میں القاعدہ جیسی امریکہ مخالف تنظیموں کو جگہ مل گئی جنہوں نے نائن الیون کر ڈالا۔ اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایسا کوئی سیٹ اپ بن جائے جو امریکہ مخالف نہ ہو۔

صدر ٹرمپ الیکشن سے پہلے تمام فوجیوں کا انخلا کا خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنے اس عمل کو الیکشن میں کیش کر سکے، اس کے مطابق امریکہ افغانستان میں فوج رکھنے پر جو خرچ اٹھاتا ہے وہ اربوں ڈالرز اپنے ملک میں خرچ کرنا چاہیے۔ اس وقت ٹرمپ اور ڈیفنس اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک کشمکش چل رہی ہے، کیونکہ پینٹاگون فوج کے اتنی جلدی اور فوری انخلا سے خوش نہیں ہے۔ اس کے مطابق ایسا کرنے سے طالبان کو ایک نفسیاتی برتری ملے گی جو ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ دوسری یہ بات کہ وائٹ ہاؤس اس چیز کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ افغانستان کی سرزمین دوبارہ امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔

اب آتے ہیں افغانستان کی اندرونی صورتحال کی طرف، افغانستان میں ستمبر 2019 میں ہونے والے متنازع انتخاب کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے افغان قیادت کے طور پر منتخب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اور اپریل 2020 میں دونوں نے حلف برداری تقریبات بھی منعقد کیں اور متوازی حکومتوں کا اعلان کیا۔ امریکہ ان کے اس اقدام سے کافی ناخوش تھا۔ امریکی خصوصی نمائندے زلمئی خلیلزاد نے دونوں کے درمیان صلح کرانے کی کافی کوشش کی لیکن یہ نہیں مانے۔

اس کے بعد مارچ میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغانستان آئے، انہوں نے بھی دونوں رہنماؤں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہے۔ افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد پومپیو نے افغانستان کی مالی امداد میں ایک بلین ڈالر تک کمی کا اعلان کیا۔ وزارت خارجہ سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ افغان رہنما: اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کابل میں حکومت سازی پر اتفاق رائے پیدا نہ کر سکے۔ مائیک پومپیو کے مطابق ان کی اس ناکامی سے جہاں امریکہ اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچا ہے، وہیں اس سے ان افغان، امریکیوں اور اتحادیوں کی بھی بے توقیری ہوئی جنھوں نے افغانستان کے لیے جانی اور مالی قربانیاں دیں ہیں۔

اس اعلان کے بعد افغان رہنما کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے اور بلآخر 17 مئی کو دونوں رہنماؤں کے درمیان اقتدار میں شرکت کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت اشرف غنی ہی ملک کے صدر رہیں گے، جبکہ دونوں فریق مساوی تعداد میں اپنے اپنے وزیر منتخب کریں گے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ عبداللہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی رہنمائی کریں گے۔

یہاں پر اصل توجہ طلب بات یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ جو کہ ایک تاجک ہے نے سارا ڈرامہ اس بات کے لئے رچایا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں غیر پشتون کو کوئی خاص نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔ ان کے مطابق سارے معاملات پشتونوں کے درمیان طے پا رہے ہیں کیونکہ طالبان بھی پشتون ہیں اور حکومت کی طرف سے جو مذاکراتی ٹیم ہے اس میں بھی اکثریت پشتون کی ہے، تو ایسا نہ ہو کہ غیر پشتون کو نظر انداز کیا جائے۔ افغانستان میں نسل پرستی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ 1880 میں خان عبد الرحمن خان نے اقتدار سنبھالا تو سب سے پہلے اس نے غیر پوشتون کو زیر کرنا شروع کر دیا۔ اس کے دور میں ایک لاکھ سے زائد غیر پوشتونوں کا قتل عوام ہوا۔ اور بہتوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پڑے۔ یہی سے افغانستان کی تباہی کے دن شروع ہوگئے۔

اب بھی اصل مسئلہ یہی ہے کہ امریکہ کے جانے بعد کون حکومت کرے گا؟ کس طرح کرے گا؟ کیا افغانستان پھر ایک اور خانہ جنگی کی طرف جائے گا؟ موجودہ حکومت تو امریکی معاونت اور سپورٹ کے بغیر زیادہ عرصہ کنٹرول نہیں رکھ سکتی۔ ان سارے سوالات کے جوابات وقت دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments