بوٹا اور مختارا


افسر شاہی اور سیاسی بودوباش کے وزیروں اور وڈیروں کا اپنا الگ ہی جہان ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بھی ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورت بھی۔ کبھی افسر شاہی اپنی زندگی آسان اور عوام کو دور رکھنے کے لئے وڈیروں کا سہارا لیتی ہے تو کبھی وڈیروں کو افسر شاہی کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ عوام میں اپنا بھرم اور نام نہاد رعب و دبدبہ رکھ سکیں۔ عوام الناس اور افسر شاہی کے درمیان یہ چھننی کبھی کبھی چھلنی کا بھی کام کر جاتی ہے۔

ایسے معاشروں میں جہاں طبقاتی تقسیم اپنی اصل بدصورتی کے ساتھ موجود ہو وہاں بوٹا اور مختارا جیسے کردار اپنی زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کے لئے ہمیشہ سماج کی چکی میں پستے رہتے ہیں اور اس نام نہاد چھننی سے چھلنی بھی ہوتے رہتے ہیں۔ بوٹا اپنی کم فہمی اور کم مائیگی سے مار کھاتا ہے تو مختارا اپنی کج فہمی سے۔ روز و شام ایک سے نقارے اور ایک سی نفیری سے بھی دونوں کی طبیعت مقدر نہیں ہوتی۔

بوٹا معاشرے کی اس طبقے کی علامت ہے جو سکول کی تعلیم سے بے بہرا اور اپنی زمین کے ہنر میں یکتا ہے۔ وہ علی الصبح اٹھ کے کولہو کے بیل کی طرح اپنے روزمرہ کے کاموں میں جت جاتا ہے اور اپنی فہم کے مطابق اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل بھی کرتا رہتا ہے ’پانی کی باری ہو‘ کھاد کا مسئلہ ہو ’جانور بیمار ہوجائیں‘ گھر کی لپائی ہو یا ایسا ہی کوئی اور کام وہ اس کی کوئی نہ کوئی تدبیر کر ہی لیتا ہے ’لیکن جونہی اسے اپنے کسی بھی کام کے لئے سرکاری ہرکارے کی مدد کی ضرورت آن پہنچے تو۔ ۔ ۔

پہلے تو کوشش ہوگی کہ معاملے کا مکو باہر ہی ٹھپا جا سکے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ 15 دن ایک ہی راستے پہ چل کے اس کا بیل بھی گھر اور کھیت کا راستہ سیکھ گیا ہے اور جو 70 سال سے صرف ایک ہی کام پہ کاربند رہیں ہوں وہ بھلا کیسے بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی بھی طرح معاملہ حل نہیں ہوا پھر وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی مجبوراً وہ راستہ اختیار کرتا ہے جہاں مہذب معاشروں میں شنوائی یقیناً ہوتی ہے لیکن یہ بوٹا بیچارہ اپنا سب کچھ داؤ پہ لگا کے بھی صرف نئی تاریخیں ہی حاصل کر پاتا ہے اور آخر میں سوائے گالیاں بکنے کے اس کے پاس کوئی اور کام نہیں رہ جاتا۔

دوسری طرف مختارا وہ استعارہ ہے جو دو کلاسیں تو پڑھ گیا لیکن لوگوں میں اپنے ٹشن کے لئے وڈیروں اور زمینداروں کی چاپلوسی اختیار کی تاکہ وقتاً فوقتاً لوگوں پہ اپنے بے معانی اثر و رسوخ کا بھی رعب رکھ سکے اور ناجائز ہمدردیاں سمیٹ کے دونوں فریقین کے آگے سچا بھی ثابت ہو سکے۔ مختارا اوور ایفیشنسی میں یہ بھول جاتا ہے کہ وقت بدلنے پر اور بدلتے وقت پہ ہر کوئی ہر کسی کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ اپنی وفاداری ثابت کرنے میں وہ کچھ ایسے کام بھی کر جاتا ہے جو بعد میں اسی کے گلے کا پھندا بن جاتے ہیں۔ مختارا چوں کہ روز نت نئے لوگوں سے ملتا ہے ’اپنے مشاہدے سے وہ یہ جان لیتا ہے کہ بوڑھے شیر کی طرح اس کا انجام بھی اسی کی جنس کے ہاتھوں ہی لکھا ہے تووہ اس خوف سے‘ چپ کر دڑ وٹ جا ’والی پالیسی پہ کاربند ہو جاتا ہے۔

جیسے ریلوے کی دونوں پٹڑیاں متوازی چلتی ہیں ایسے ہی یہ کردار ہمارے معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بوٹا مختارے کا مرہون منت ہے کہ اگر کبھی کہیں سرکار کی مداخلت چاہیے تو مختارا عین موقعے پہ دغا نہ دے جائے۔ مختارے کو بوٹے کی خبر گیری کرنی پڑتی ہے کہ پانچ سال بعد جب سیاہی لگانے کا وقت آئے تو وہ سیاہی مطلوبہ خانے میں ہی لگے نا کہ بوٹا وہ سیاہی ان کے چہرے پہ مل دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments