کرونا کے ایک مریض کی موت اور تدفین


آج صبح پہلی خبر جس نے میرا دل ہلا دیا، ایک قریبی دوست فوزیہ کے متعلق تھی جس کا بڑا بھائی کرونا سے وفات پا گیا اور اس کے بھائی کی فیملی کے دیگر افراد کے ٹیسٹ بھی مثبت آئے تھے۔ اب آج کل کے حالات کے پیش نظر کسی کے گھر جا کر تعزیت کرنا تو گویا خواب و خیال ٹھہرا۔ لہذا فون پر ہی افسوس کیا جاسکتا تھا لیکن اس سے پہلے بہت سی منفی سوچوں نے میرے دماغ کا گھیراؤ کر لیا جن میں سب سے زیادہ یہ خیال مجھے ہولا رہا تھا کہ جانے فوزیہ کے بھائی کو کرونا تھا بھی کہ نہیں، کہیں انہیں اسپتال والوں نے جھوٹے کرونا میں نہ مار دیا ہو بلکہ اب تو ایسا محسوس ہورہا تھا۔

مجھے لگتا تھا کہ جیسے حقیقت میں کسی سازش کے تحت اسپتال انتظامیہ مریض کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے اور یقیناً ایسا ہی ارشد بھائی کے ساتھ ہوا ہوگا، اب مجھے لگ رہا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل خبریں درست ہیں اور لازمی طور پر مرنے کے بعد تابوت میں لاش کی جگہ روئی بھر دی گئی ہوگی یا خالی تابوت دفنا دیا گیا ہوگا، کیونکہ لاش تو یقیناً ڈبلیو ایچ او کو بیچی جائے گی کیونکہ یہ 3500 امریکی ڈالرز کا سوال تھا اور امید تھی کہ اگر یہ ہی صورتحال رہی تو جلد ہمارا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہونے لگے گا لیکن اس روپے کی خاطر اتنی انسانی تذلیل، جو بھی تھا جب تک فوزیہ سے میری بات نہ ہوتی کوئی حتمی رائے قائم کرنا قدرے مشکل تھا۔ ویسے بھی میں ایک عینی شاہد سے بات کر کے اپنے دل کے ہر وسوسہ کی تصدیق چاہتی تھی۔

لہذا فارغ ہوتے ہی میں نے فوزیہ کو وڈیو کال کی جس میں حسب روایت پہلے اس کے بھائی کی ناگہانی موت پر اظہار تعزیت کیا گیا جوابا مجھے امید تھی کہ فوزیہ کی زبان حکومت کے خلاف زہر اگلے گی اور ڈاکٹرز کو موردالزام ٹھیرایا جائے گا۔ جیسے کہ اب تک سننے میں آیا تھا۔ مگر خلاف توقع وہ بالکل مطمئن اور خاموش تھی جب مجھے میرے اندر کی بے چینی نے سوال کرنے پر مجبور کر دیا۔

تمھارا بھائی کس اسپتال میں تھا؟
”وہ گھر پر ہی آئسولیشن تھا“ فوزیہ نے جواب دیا۔

اوہ تم لوگوں کو کیسے علم ہوا کہ ارشد بھائی کو کرونا ہے؟ اور کیا موت سے قبل تم اپنے بھائی سے ملی تھیں؟
میں نے تیزی سے سوالات کیے کیونکہ میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔ وہ سب جس نے ایک عام آدمی کو ان دنوں خوف زدہ کر رکھا تھا۔

”ہاں“ فوزیہ کا سابقہ اطمینان برقرار تھا۔ ”میں عید سے کچھ دن پہلے اپنے بھائی سے ملنے گئی تو ان کی کمر میں درد تھا جسے چک سمجھ کر علاج کیا جا رہا تھا اور ابھی بھی وہ نماز کے لئے مسجد گئے ہوئے تھے۔ تقریباً پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئے تو ان کا بہت زیادہ سانس پھول رہا تھا اور چہرہ پر کمزوری طاری تھی جب میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اپنا کرونا ٹیسٹ کروا لیں حالانکہ ان میں کوئی علامات ظاہر نہ ہو رہی تھیں لیکن پھر بھی ان کے تیز تیز چلتے سانس نے مجھے پریشان کر دیا جس پر میں نے انہیں کرونا ٹیسٹ کا مشورہ دیا اور میری بھتیجی نے فوراً حکومتی ہیلپ لائن پر فون بھی کر دیا جس کے بعد میں اپنے گھر واپس آ گئی اور رات تک مجھے فون پر اطلاع ملی کہ تمام گھر کا کرونا ٹیسٹ کرنے کے بعد پوری فیملی کو آئسولیشن کر دیا گیا ہے اور تقریباً دو دن کے اندر ان سب گھر والوں کا ٹیسٹ پازیٹو آ گیا اور یہ خبر مجھے لرزا گئی۔ ایک تو بھائی کی فیملی کا انفیکٹڈ ہونا دوسرا میں بھی ان سے مل کر آئی تھی اور اب ضروری تھا کہ میں بھی اپنا ٹیسٹ کرواتی جو الحمدللہ منفی آیا لیکن پھر بھی بھائی کے گھر کی پریشانی اپنی جگہ تھی“ ۔

فوزیہ یہاں تک پہنچی تھی کہ میں نے جلدی سے کہا ”شکر کرو تمھارے بھائی گھر تھے ورنہ تو آخری پل چہرہ بھی نہ دیکھ پاتے“ ۔
ایسا نہیں تھا۔

فوزیہ نے جواب دیا ”آئسولیشن کے چار دن بعد اچانک رات میں میرے بھائی کا سانس اکھڑ گیا تو گھر والے ایمبولینس کروا کر انہیں قریبی اسپتال لے گئے مگر افسوس ہمیں گیٹ سے اندر نہیں جانے دیا گیا اور کہا گیا کہ ہم کرونا کا مریض نہیں لے رہے، پھر ایک کے بعد دوسرا اسپتال جہاں آدھی رات میری بھتیجی اور بھابھی تنہا ایمبولینس میں بھائی کو لے کر پھر رہی تھیں مگر ہر دروازہ بند تھا۔ ڈاؤ ہیلتھ یونی میں جگہ نہ تھی۔ سول اسپتال میں بھی جگہ کی کمی کا عذر پیش کر کے بیرونی گیٹ سے واپس کر دیا گیا“ فوزیہ کی آواز بھرا گئی تھی اور اب وہ رو رہی تھی جب کہ میں حیران تھی۔ لاش تو ڈالرز میں بیچی جا رہی ہے تو پھر مریض داخل کرنے سے انکار کیوں؟

یہ گورکھ دھندا میری سمجھ سے باہر ہوگیا تھا۔ فوزیہ بتا رہی تھی کہ جب دو تنہا خواتین جو خود بھی کرونا پازیٹو تھیں اس طرح ایک مریض کو لئے سڑکوں پر رل رہی تھیں تو شاید قدرت کو ان کی حالت پر ترس آ گیا اور جناح اسپتال نے وینٹی لیٹر نہ ہونے کے باوجود مریض کو داخل کر کے آکسیجن ماسک لگا دیا اور بھابھی، بھتیجی کو ساتھ لئے نیچے جا بیٹھیں جب بھائی نے خود فون کر کے انہیں اوپر بلایا جن کا سانس بالکل اکھڑ چکا تھا اور قریب موجود ڈاکٹر اپنے اسٹاف کے ساتھ میرے بھائی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت وہ جس طرح مریض بچانے میں ہلکان تھا۔ یقیناً وہ ایک قابل ستائش عمل تھا۔ مگر اگلے چند لمحوں میں ہی اس ڈاکٹر کی ہر کوشش ناکام ہو گئی اور میرے بھائی نے موت سے شکست مانتے ہوئے اپنی جان مالک کائنات کے سپرد کر دی ۔

تو کیا یہ عمل آکسیجن کم یا زیادہ کر کے کیا گیا یا کوئی انجکشن؟ مجھے امید تھی کہ فوزیہ کچھ چھپا رہی ہے۔
نہیں میرا بھائی اپنی موت آپ مرا کیونکہ اس کی سانس گھر ہی ہی اکھڑ گئی تھی اور ہمیں امید تھی کہ ان کے بچنے کی امید کم ہے۔

اچھا پھر جنازہ کا کیا ہوا؟
میں کچھ منفی پروپگنڈہ تلاش کرنا چاہ رہی تھی۔

ہم نے کہا تھا کہ تدفین اور جنازہ ہم خود کریں گے جس پر اسپتال انتظامیہ کو کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ یہ مرحلہ مقامی تھانے کو حل کرنا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کا رویہ ہمارے ساتھ نہایت نرم اور بہترین تھا۔ ایس ایچ او نے بڑی ہمدردی سے میری بھابھی کو سمجھایا کہ آپ کے محلے کی کوئی مسجد جنازہ نہیں پڑھائے گی۔ نہ کرونا کا خوف کسی کو تدفین میں شرکت کرنے دے گا۔ اس لئے اپنے خاندان کے سات مرد ہمارے ہمراہ کر دیں ہم پوری عقیدت و احترام کے ساتھ آپ کے شوہر کی تدفین کر دیں گے اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔

ایمبولینس، پولیس موبائل، گھر کے مرد قبرستان جا کر تدفین کر آئے جس کے بعد ایک بار پھر بھائی کی فیملی کا کرونا ٹیسٹ ہوا، دوبارہ پورے گھر اور گلی میں اسپرے کیا گیا۔ سب کو پوری ہدایات کے ساتھ آئسولیٹ کر دیا گیا اور گلی سیل کردی گئی اب ماشاءاللہ چودہ دن بعد سارے گھر کا ٹیسٹ منفی آیا ہے لیکن احتیاط وہ سب ابھی بھی آئسولیشن میں ہیں۔

میں حیران تھی کیونکہ فوزیہ مطمئن تھی۔ کہیں زبردستی کی موت نہ تھی۔ عالم نزاع میں گھر والے ساتھ تھے۔ تدفین بھی گھر کے مرد کر کے آئے تو پھر وہ کون سے اسپتال ہیں جو لاش پر تجارت کر رہے ہیں؟ اور یہ لاشیں خرید کر ڈبلیو ایچ او نے کیا کرنا ہے؟ ایک لاش کا کیا فائدہ ہے جس پر 3500 ڈالرز کی خطیر رقم مل رہی ہے جب کہ حقیقت وہ ہے جو میں نے آپ کو فوزیہ کی زبانی سنائی تو خدارا غلط خبریں پھیلانے سے گریز کریں کیونکہ ان وجوہات کی بنا پر مریض اسپتال جاتے ہوئے ڈر رہے ہیں تو سوچیں گھروں میں قید، بنا کسی علاج کے خود کو موت کے حوالے کرنے والوں کا خون کس کے سر ہے؟ یہ وہ وقت ہے جس میں احتیاط زندگی ہے۔ منفی پروپگنڈہ سے بچیں اور اپنا، اپنے پیاروں کا خیال رکھیں آپ سب کی زندگی آپ لوگوں کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اس سے دوسروں کو کھیلنے مت دیں، خدارا اس کی حفاظت کریں۔

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments