وبا کے دن یا سزا کے دن!


عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ دنیا کو فی الحال کرونا کے ساتھ ہی جینا ہو گا ظاہری بات ہے کہ جب اس وبا کی کوئی دوا ہی تیار نہیں ہوئی تو اس وبا کے خاتمے کی کوئی بھی پشین گوئی قبل از وقت ہے۔ یہ حقیقت تو اب واضح ہو چکی ہے کہ کرونا وبا کا خاتمہ مستقبل قریب میں ہونے والا نہیں اور نہ کوئی دوا بننے والی ہے۔ ماضی میں بھی جب کوئی وبا پھیلی تو اس کی ویکسین سال دو سال کے بعد ہی تیار ہوئی غرض اگر اس وبا کی کوئی دوا تیار ہو بھی جاتی ہے تو بھی اس وبا پر قابو پانے میں وقت لگے گا۔

کرونا وبا کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اسی لاکھ کے قریب افراد دنیا بھر میں اس وبا کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور چار لاکھ کے قریب افراد کو یہ وبا نگل چکی ہے یقیناً ایسے وقت میں کوئی بھی تنظیم یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اب تک پوری دنیا کو کرونا وبا اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے البتہ اس کے علاقے تبدیل ہو رہے ہیں اور جہاں جہاں یہ وبا اپنے قدم جما چکی ہے وہاں کی اقتصادی صورتحال بھی تبدیل ہو رہی ہے اور سماجی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

جس رفتار کے ساتھ کرونا پھیل رہا ہے اس سے حتمی اعداد و شمار طے کرنے میں بھی دشواری ہے اب اس حقیقت کو بھی ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس وبا کے خوف نے انسان کو نفسیاتی بیماری میں مبتلا کر دیا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے جنم لینے والی اس وبا کا اب جرمنی ’اٹلی‘ فرانس اور اسپین میں قہر کم ہونا شروع ہوا ہے امریکہ میں ایک خاص علاقے میں کرونا کا زور رہا اور وہاں اموات بھی کافی تعداد میں ہوئیں۔ اب روس اور دیگر ایشیائی ممالک میں کرونا وباکے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے اب تمام تر طبی معائنہ اور تحقیقی اداروں کی رپورٹ میں اس وبا کا علاج صرف احتیاط کو ہی قرار دیا گیا ہے۔

سماجی فاصلہ اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے ہی اس وبا سے بچا جا سکتا ہے اور دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ جن معاشروں میں احتیاط برتی جا رہی ہے وہاں اس وبا کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی ہے جنوبی کوریا یا دیگر ممالک میں اگر اس وبا کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہاں سو فیصد آبادی کی جانچ پڑتال کی گئی اور عام لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ کون سے لوگ اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں اور اس لئے دوسرے لوگ اس وبا کے دباؤ سے باہر نکل آئے ہیں۔

پاکستان میں یا دیگر متاثرہ ممالک میں جانچ پڑتال نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں پاکستان میں اس وقت یہ وبا نچلی سطح تک پھیل چکی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آ رہی کہ عوام کو اس نفسیاتی دباؤ سے کیسے نکالا جائے۔ عالمی سطح پر اب اس بات پر غور و فکر کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کہ اس کرونا وبا پر صرف طبی معائنہ اور ویکسین کی ایجاد ہی ضروری نہیں بلکہ انسانی وسائل کو بھی مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور لوگوں کو اس وبا کے ذہنی دباؤ سے نکالنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کیے جانے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے۔

ماضی میں جتنی وبائیں آئیں تو ان وباؤں سے جتنی اموات ہوئیں ان میں سے بیشتر اموات اس لئے بھی واقع ہوئی کہ وبا کے دوران لوگوں کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی کہ اس وبا سے کون کون متاثر ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے طبی مشیر جو کہ ایک دہائی سے این آئی اے آر ڈی کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں ڈاکٹر اینتھنی فوچی نے بھی ہوشیار کیا تھا کہ جو وبا پھیل رہی ہے اس کے طبی علاج سے زیادہ نفسیاتی دباؤ سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

پاکستان میں ابھی تک عوام کو اس وبا کے دباؤ سے نجات دلانے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات سامنے نہیں آرہے ضرورت ہے کہ جو لوگ پاکستان میں غربت و بے روزگاری سمیت انسانی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اس طبقہ پر خصوصی توجہ دی جائے حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ متوسط طبقہ بھی نچلے درجہ پر آ چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ معاشرے کے اس پسے طبقے کے لئے عملی طور پر میدان میں آئے اور حکومت سمیت معاشرے کے متمول افراد بھی اس مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھیں کیونکہ کرونا نے کسی نہ کسی شکل میں معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا ہے۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ پاکستان کی عوام کو گھبرانا نہیں کہ مشورہ سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس وبا کے دباؤ سے نجات دلانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔ حکومت کی جانب سے یہ عندیہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس وبا نے پھیلنا ہے اس لئے عوام خود احتیاط کریں یقیناً یہ وبا مزید پھیلے گی لیکن یہ حکومت کا کام ہے کہ اس وبا سے متاثرہ افراد کے اعداد و شمار بھی عوام کے سامنے لائیں جائیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات ہونے چاہیے کہ اس وبا سے کون سے لوگ متاثر ہیں تاکہ لوگ نفسیاتی دباؤ سے باہر نکل کر مفلوج کاروبار زندگی کو دوام دے سکیں۔

حکومت کی جانب سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہ آنے کے باعث پورا معاشرہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو چکا ہے ایسی صورتحال میں ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار معاشرہ اس وبا سے کیسے بچ سکتا ہے عوام تو اس وبا سے بچنے کے لئے احتیاط برت سکتی ہے لیکن جو اس وبا کا خوف انسان کے دماغ پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً ہر دوسرا انسان کھانسی ’زکام‘ بخار ’گلہ درد دیگر بیماریوں کا شکار ہے ایسے میں حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث جو امراض انسان کو لاحق ہو رہے ہیں وبا اور ان امراض کے بیچ درست سمت کا تعین کرتے ہوئے اس کرونا وبا کی وجہ سے چھائے خوف میں کمی لائی جائے۔

اس وبا کے دنوں میں عوام سزا کے طور پر زندگی کے ایام بسر کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی بھی واضح حکمت عملی سامنے نہ آنے کی وجہ سے یہ سزا کے دن طویل ہوتے جا رہے ہیں۔ ملکی سیاست‘ معیشت اور یہ معاشرہ اس وبا کے باعث عدم استحکام کا شکار ہے اگر صورتحال بد ستور قائم رہی اور حکومت کی جانب سے اس چھائے خوف کو کم کرنے کے لئے اقدامات سامنے نہ آئے تو اس بات پر یقین کر لینا چاہیے کہ جو بچ جائیں گے انہیں بھی اس نفسیاتی دباؤ سے نکلنے میں وقت درکار ہو گا اور یہ سزا ایسی ہے جس کی فی الحال کوئی مدت مقرر نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments