آپ پر کھلے بال سوٹ کرتے ہیں


یہ جون 2009 ء کی ایک شام تھی۔ اس روز میرا ڈے آف تھا۔ کام کے عادی شخص کی طرح، گھر میں میرا وقت نہیں گزر رہا تھا۔ سینیئر پروڈیوسر مایا خان کی کال آئی کہ آپ فوراً آفس پہنچیں۔ میں نے کہا، آج میری چھٹی ہے اور میرا کوئی ارادہ نہیں آفس کی شکل دیکھوں۔ در اصل میں نوکری سے اکتا چکا تھا اور بہانہ ڈھونڈ رہا تھا، بس کوئی مجھے استعفا دینے کا جواز مہیا کر دے۔ ملازمت بے وجہ چھوڑی نہ جا رہی تھی، کیوں کہ مجھے تکلفات کا پاس رہتا ہے۔ اس کے لیے ایک جھگڑا ضروری تھا۔ میرے تمام ساتھی پروڈیوسرز کی نسبت، مایا مجھ پر بہت بھروسا کرتی تھی۔ یوں کہ لیجیے، میں اس کو چہیتا تھا۔ احوال یہ تھا کہ میں صبح نو یا دس یا گیارہ بجے بستر سے نکلتا، جلدی جلدی تیاری کرتا اور آفس کی راہ لیتا۔ ابھی میں آدھا راستہ بھی طے نہ کر پاتا تھا کہ مایا کی کال آ جاتی۔

”ظفر، کہاں ہیں، آپ“ ؟

جن دنوں میری سکونت پی اے ایف بیس کورنگی کریک میں تھی، ہمیشہ یہ کال مجھے قیوم آباد فلائی اوور کے قریب پہنچنے پر آتی۔ لگ بھگ گیارہ ساڑھے گیارہ، بارہ بجے کا وقت ہوتا یا کچھ اوپر۔ یہاں سے ’اے آر وائے‘ کے سائٹ ایریا آفس پہنچنے میں گھنٹا تو لگ ہی جاتا تھا۔ ایک وقت یہ آیا کہ قیوم آباد فلائی اوور دکھائی دینے پر میری حالت غیر ہو جاتی کہ اب مایا کی کال آئی، تو اب آئی۔ یہی ہوتا تھا۔ میں لیٹ ہو جاؤں، یا وقت سے پہلے گھر سے نکلوں، مایا کی یہ کال قیوم آباد فلائی اوور کے پاس پہنچتے ہی آتی۔ اب اس میں کیا راز تھا، خدا جانے تو جانے، مجھے نہیں معلوم۔

”کہاں ہیں، آپ“ ؟
”بس میں گھنٹے تک پہنچ جاؤں گا“ ۔

میں یہ کبھی نہ بتاتا، میں کہاں ہوں، بل کہ یہ کہتا، اتنی دیر میں پہنچ رہا ہوں۔ دفتر پہنچتے ہی پہلا پیغام یہ ملتا: مایا نے کہا ہے، آپ ان سے مل لیں۔

اس روٹین میں ساتھیوں کی معنی خیز نظریں، مسکراہٹیں مجھے جز بز کر دیتیں تھیں۔ میں مایا سے چڑنے لگا تھا۔ کئی بار تو ایسا ہوتا کہ پیؤن کو بلانے کے لیے بیل بجتی تو آواز پڑتی:

”ظفر! جاؤ، تمھی کو بلایا ہو گا“ ۔
میں ڈھیٹ بنا بیٹھا رہتا۔ دعا کرتا کہ مجھے نہ بلایا گیا ہو لیکن یہ دعا قبول ہو کے نہ دیتی تھی۔
”جی مایا“ ؟
”آپ دفتر لیٹ کیوں آتے ہیں“ ؟

یہ سوال ایسے خوش دلی سے کیا جاتا، جیسے میری پروموشن کی خبر دی جا رہی ہو۔ میں اس لا یعنی سوال کو گول مول کر جاتا، یا جواباً کہتا:
”آپ پر کھلے بال بہت سوٹ کرتے ہیں، یہ آپ نے اپنے بال اتنے سلکی کیسے کیے ہیں“ ؟

مایا کی ہنسی بہت خوب ہے۔ اب لگتا ہے، میں وہ ہنسی دیکھنے کے لیے ایسا کہا کرتا تھا۔ یا پھر میں مایا سے یوں کہتا:
”ہرا رنگ آپ پر جچتا ہے“ ۔
”باز آ جائیں، آپ“ ۔ سچ میں مایا شرما جاتی تھی۔

مانیے، میں نے کبھی کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کی۔ واقعی مایا پہ ہرا رنگ جچتا تھا۔ اس پہ کھلے بال سوٹ کرتے تھے اور مجھے وہ اس دن سے اچھی لگی تھی، جب اس نے کمبائن کی ایک ڈراما سیریل میں اداکاری کی تھی۔

کسی روز مجھ پر چڑ چڑا پن طاری ہو، تو استفسار پہ یہ کہ دیتا، ”میڈیا کی نوکری کا انتخاب میں نے صبح سویرے اٹھنے کے لیے نہیں کیا“ ۔

مایا کا یہ سوال اتنا اہم ہوتا، نا اسے میرے جواب سے زیادہ غرض ہوتی۔ بس مایا مجھ سے ایسے بات چیت کرتی کہ تاثر ملے، میں اس کے گروپ سے ہوں۔ دفتری سیاست ایک اور طرح کی مصیبت ہوتی ہے اور مجھے اسی لیے ملازمت سے گھن آتی ہے۔ بہ ہر حال میں آج تک کسی گروپ کا حصہ نہ بن سکا، شاید آئندہ بھی کبھی نہ بن پاؤں۔

ستمبر اکتوبر 2007 ء میں میری بیگم کی پوسٹنگ گلگت سے کراچی ہوئی۔ ان دنوں میں لاہور میں تھا، پر مجھے بھی کراچی شفٹ ہونا پڑا۔ ایک وسیلے سے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ میں ملازمت کی پیش کش ہوئی، جسے میں نے یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ میری فیلڈ انٹرٹینمنٹ ہے نیوز نہیں۔ سبھی دوستوں کا کہنا تھا، مجھے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ جوائن کر لینا چاہیے۔ ایک دوست کی دلیل مجھے بھا گئی کہ تم ابھی کراچی کے راستوں سے واقف نہیں ہو، نیوز چینل میں جاؤ گے تو شہر بھر گھوم لو گے۔ راستوں کا علم ہو گا۔ پھر ملازمت چھوڑ دینا۔ بالآخر اپریل 2008 ء، میں نے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ جوائن کر لیا۔ ڈی 20، سائٹ ایریا جو کبھی ’ملت فین‘ کی فیکٹری ہوا کرتی تھی، وہاں ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ کا دفتر اور اسٹوڈیو تھے۔ آج بھی وہیں ہیں۔ اس زمانے میں مارکیٹنگ، سیلز ٹیم اور رپورٹرز مدینہ سٹی مال، صدر میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں نے جاب انٹرویو وہیں دیا تھا۔

کراچی شہر میں میری جو تھوڑی بہت شناسائی تھی، وہ شو بز سے وابستہ افراد سے تھی۔ ’اے آر وائے‘ کے لیے میں اور میرے لیے ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ بالکل اجنبی دنیا تھی۔ تب اس عمارت میں ’اے آر وائے‘ کے اسٹوڈیوز، نیوز روم اور دیگر شعبوں کے دفاتر تعمیر ہو رہے تھے۔ اس زمانے میں نیوز روم دبئی میں تھا، جسے جلد پاکستان منتقل ہونا تھا۔ خبریں اور پروگرام وہیں سے سیٹلائٹ کے حوالے کیے جاتے تھے۔ عارضی طور پر ’انفوٹین منٹ ٹیم ”ایک بڑے سے کمرے میں بیٹھا کرتی تھی، جہاں سب پروڈیوسر، ایسوسی ایٹ، اسسٹنٹ اور انفوٹین منٹ کا ہیڈ یعنی‘ وی پی ’یعنی‘ وائس پریزیڈنٹ ’کی نشست تھی۔

پہلے ہی روز وی پی نے میرے نشست کے سامنے سے گزرتے یہ پوچھا، ”تم سوئچنگ کر لیتے ہو؟“ میرا جواب انکار میں تھا۔
”تم پھر کہاں کے ڈائریکٹر ہوئے“ ؟ یہ کہ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔

سب کے سامنے بے ہودگی کے اس مظاہرے پر میں غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ جی چاہا کہ اٹھ کے ’وی پی‘ کے پیچھے جاؤں اور کہوں، سوئچنگ کرنا ڈائریکٹر کا کام نہیں ہوتا۔ آن لائن ایڈیٹر کی جاب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ میں اسی دن ’اے آر وائے‘ کے دفتر سے باہر ہوتا۔ میری آنکھوں کے سامنے ان دوستوں کی صورتیں گھوم گئیں، جنھوں نے مجھے بہ مشکل قائل کر کے یہ ملازمت کرنے پر راضی کیا تھا۔ انھیں جا کے بتاتا، پہلے دن ہی پھڈا کر آیا ہوں، تو وہ میری نیت پر شک کرتے کہ تم نوکری کرنا ہی نہیں چاہتے تھے، سو بہانہ خوب تلاشا ہے۔

میری زندگی کے ان کم کم لمحوں میں سے یہ ایک ایسا ہی لمحہ تھا، جب میں نے صبر سے کام لیا۔ بعد میں اس صبر کا پھل بہت میٹھا نکلا۔ پھر ایک وہ دن آیا، جب ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ جو بعد میں ’اے آر وائے نیوز‘ کہلایا، وہاں سب شو میں ہی کر رہا تھا اور سوئچنگ کون سی جادو گری تھی، جسے سیکھنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی، سیکھ ہی لی۔ در اصل قصور ’وی پی‘ کا بھی نہیں تھا، جاب انٹرویو کے وقت مجھ سے پوچھا گیا تھا، آپ ڈائریکٹر کی سیٹ پر آنا چاہتے ہیں یا پروڈیوسر کی؟ میں نے فخریہ کہا، میں ڈائریکٹر کہلوانا پسند کروں گا۔ یہیں آ کے پتا چلا، نیوز چینل میں آن لائن ایڈیٹر کو ڈائریکٹر کہا جاتا ہے۔

ابتدا میں، میں روز پوچھتا، کوئی کام بتایا جائے، ہر بار یہی جواب ملتا، وقت آنے پر بتایا جائے گا۔ کرنے کو کوئی نیا شو آتا بھی تو کسی دوسرے کے نام کی آواز پڑتی۔ ایک ہی کمرے میں ہونے کی وجہ سے جلد ہی ہم کار ایک دوسرے سے گھل مل گئے۔ بہت بے تکلف ماحول تھا۔ ہمارا ایک ساتھی پروڈیوسر دن دیہاڑے کمپیوٹر اسکرین پہ پتا نہیں کون کون سی سائٹس کھنگالتا رہتا کہ بعض اوقات پیچھے سے ’وی پی‘ آواز لگاتا، کچھ شرم حیا کر لو، یہ دفتر ہے اور پھر یہاں خواتین بھی ہیں۔

جب میں نے ’اے آر وائے‘ جوائن کیا تو انیق احمد یہاں ’آغاز‘ نامی شو کی اینکرنگ کیا کرتے تھے۔ انیق احمد کا رابطہ براہ راست چینل کے مالکوں سے تھا۔ ذرا سی شکایت کی صورت میں وہ مالک حاجی روف کے کمرے میں چلے جاتے تھے۔ مالک، پروڈیوسر کو اپنے دفتر میں بلا کے ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے۔ میں نے ایسا دیکھا نہیں لیکن یہ قصے سن رکھے تھے۔ نوزائیدہ انفوٹین منٹ ٹیم انیق احمد سے لیے دیے رہتی تھی۔ ایک دن وہ انفوٹین منٹ ڈپارٹ منٹ میں چلے آئے، مجھ پر نظر پڑی تو حیران ہوئے، ’تم یہاں کیسے؟ اور کب سے‘ ؟ مجھے تو وہاں کوئی خاطر ہی میں نا لاتا تھا، انیق احمد کا مجھ سے بات کرنا سب کو تجسس میں مبتلا کر گیا کہ اس لہوریے (پنجابی) کو انیق احمد کیسے جانتے ہیں۔ نا صرف جانتے ہیں بل کہ اپنائیت سے بات کر رہے ہیں۔

انیق احمد سے میری ان ادوار کی دعا سلام ہے، جب نجی ٹی وی چینلوں کا کہیں دور تک پتا نہیں تھا۔ میں جب جب کراچی آتا ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ میں شکیل عادل زادہ سے ملاقات کے لیے جایا کرتا تھا۔ بھائی شکیل تو اپنے مخصوص سوفے پر اپنے مخصوص انداز میں بیٹھا کرتے۔ جب کہ میز کے پیچھے رکھی کرسی پر کبھی انیق احمد کو بیٹھے دیکھا، کبھی ”نکمت پریس“ کے بھائی خالد کو۔ میں شروع شروع میں سمجھا، انیق احمد معروف ادیب اشفاق احمد کے بیٹے ہیں۔ یہی انیق احمد بعد میں جیو نیوز کے ’الف‘ پروگرام سے ناظرین کے سامنے آئے۔ ’سب رنگ ڈائجسٹ‘ میں بڑی بڑی شخصیات کی حاضری معمول تھا، تو وہاں جسے بھی دیکھا اسے بڑا آدمی جان کر ہی احترام کیا۔

میں اپنی کم علمی کے باعث سوال کم کرتا تھا اور خاموش رہتے حاضرین محفل کی سنا کرتا تھا۔ کسی نے میرے بارے میں استفسار کیا بھی، تو شکیل عادل زادہ نے ایسے بڑھا چڑھا کے بیان کرنا، جیسے میں کوئی بہت قابل شخص ہوں۔ جب کہ میں محض ان کا پرستار تھا۔ میں سہم کر مزید چپ بیٹھا رہتا، اندیشوں میں مبتلا کہ ایسا نہ ہو کہیں میری لب کشائی سے بھائی شکیل کے بولوں کا بھرم جاتا رہے۔

اسی طرح ایک دن اداکار و ہدایت کار اینجلین ملک کسی کام سے اے آر وائے آئی، ہمارے بیچ میں سلام دعا کا تبادلہ ہوا تو سبھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ مجھے دیکھتے رہے۔ میں اور اینجلین، اسلام آباد میں جمال شاہ کے ’ہنر کدہ‘ کی ٹی وی سیریل ’کل‘ کی ٹیم کا حصہ تھے اور ایک تھیٹر پرفارمینس بھی ایک ساتھ دی تھی۔

انفو ٹین منٹ ڈپارٹ منٹ میں ایک میں ہی تھا، جس کا ڈرامے کی دنیا سے ناتا تھا۔ پولٹیکل اسٹائر پہ مبنی ایک پروگرام کے لیے میرے نام کا قرعہ نکلا۔ میں نے اس پروگرام کا اسکرپٹ تیار کیا اور ڈائریکٹ بھی۔ یہ اتنا پسند کیا گیا کہ اوپر سے حکم آیا، تم ڈائریکٹر نہیں پروڈیوسر ہو۔ ساتھ ہی بنا مطالبہ کیے میری تن خواہ میں دس ہزار کا اضافہ کر دیا گیا۔ بس وہ دن تھا، جب مجھے پیچھے مڑ کے دیکھنے کی ضرورت نہ پیش آئی۔ میرے ایک اسٹنٹ کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں، ”ظفر بھائی، یہاں سب سمجھ رہے تھے، آپ ’پرچی‘ ہیں، اس لیے آپ کو کوئی کام نہیں دیا جا رہا تھا۔ لہوریوں کو کہاں کام آتا ہے“ ۔

معلوم نہیں انیق احمد یہ چاہتے تھے یا مجھے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ چاہتے ہیں، ’آغاز‘ شو مجھے دے دیا جائے۔ میں نے کھڑے پیر انکار کر دیا، میں انیق احمد کا پروگرام نہیں کرنا چاہتا۔ بات یہ تھی کہ میرے سینیئر بھی نہیں چاہتے تھے، وہ شو میں کروں۔ انفوٹین منٹ ڈپارٹ منٹ کی حال ہی میں بنیاد رکھی گئی تھی اور ’اے آر وائے ون ورلڈ‘ میں اس شعبے کے قیام سے پہلے، یہاں اپنے تئیں ہر کوئی اپنی ذات میں ایک شعبہ تھا۔ ہر اینکر سیدھا مالک سے جا بات کرتا۔ میرے انکار کی وجہ اور کچھ نہیں، محض یہ تھی کہ انیق بھائی اپنے پروگرام کے کرتا دھرتا خود تھے۔ ایڈٹنگ بھی خود کرواتے تھے تو میرے کرنے کو وہاں کچھ کام نہیں تھا۔ میں ایسا شو نہیں کرنا چاہتا تھا، جس کی کمان میرے ہاتھ میں نہ ہو۔ اوپر سے ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا مزاج کسی سے نہیں ملتا۔ میرا ان سے رسمی سا ناتا سہی، میں اس تعلق کو بچائے رکھنا چاہتا تھا۔ ان کے ساتھ کام کر کے جھگڑا مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ ہم دونوں کے بیچ کی کڑی شکیل عادل زادہ تھے۔ اس کڑی کا لحاظ کرنا ہم دونوں پر فرض تھا۔

ایک دن کسی کام سے ایڈٹنگ روم کے سامنے سے گزرا تو انیق احمد نے مجھے آواز دے کے بلا لیا۔ میں ایڈٹنگ روم میں داخل ہوا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ کہنے لگے ”آغاز“ کا ’پرومو‘ فائنل کر رہا ہوں، دیکھ کے بتاؤ اس میں کوئی کمی تو نہیں ہے۔ میں نے پرومو دیکھ کے جو سمجھ آیا، ان سے کہ دیا کہ یہ کچھ تبدیل کر لیں۔ انھوں نے میری بات کو غور سے سنا۔ جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں، انیق احمد کہاں کسی کو اتنی اہمیت دیتے تھے۔ انیق بھائی کا مجھ سے شفقت سے پیش آنا، ان کے پروگرام ایڈیٹر کے لیے اچنبے کی بات تھی۔ رد عمل میں اس نے انیق احمد سے کچھ ایسا کہا، آپ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور ان سے پوچھ رہے ہیں؟ انیق بھائی نے جواب دیا، ”بھئی ہمارے استاد، جس کا استقبال کھڑے ہو کے کرتے ہوں، ہماری کیا مجال کہ ان کا احترام نہ کریں“ ۔ میں ممنونیت و حیا سے لال پڑ گیا، کہ انیق بھائی شکیل عادل زادہ کا حوالہ دے کے مجھ سے از حد عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔

اکتوبر نومبر 2008 ء میں اے آر وائے نے ڈاؤن سائزنگ کی، تو چند ہم کار خدا حافظ کہ گئے۔ ڈاؤن سائزنگ میں وی پی کا جانا ٹھیر گیا تھا، اس کے بعد سینیئر پروڈیوسر مایا خان رند انفوٹین منٹ ڈپارٹ منٹ کی ان چارج ہو جاتی۔ مایا کے قریب ہونے کی وجہ سے میں جانتا تھا، اس ساری دفتری سیاست میں مایا کہاں غلط ہے۔ سو مجھے اس سے چڑ سی ہو گئی۔ میرے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے تھے لیکن باقیوں کی شامت آئی رہتی تھی۔ ایک دو بار میں اپنے ہم کاروں کے لیے اس سے الجھ پڑا، کہ ٹھیک ہے وہ کمپنی کے ملازم ہیں، لیکن ان سے ناروا سلوک درست نہیں۔ ایسے ہی کسی لمحے میں نہ جانے میں نے کیا سخت کہ دیا کہ مایا نے مجھے ای میل کر کے تنبیہ کی، آئندہ آپ اپنے سینیئرز سے اس لہجے میں بات نہیں کریں گے۔ میں نے ای میل کا اس سے بھی سخت جواب دیا، میں آپ کا ذاتی ملازم نہیں، ادارے کا ملازم ہوں۔ اس ای میل میں ’ایس وی پی‘ اور ’سی ای او‘ کو ’سی سی‘ میں رکھا۔ دوسرے دن ’سی ای و‘ عارف حسین نے مجھے اور مایا خان کو مدینہ سٹی مال آفس، صدر میں طلب کر لیا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments