پشاور۔ ایک داستانِ لازوال


\"naqeeb-lawoon\"

ہزاروں قتل عام اس شہر کے حصے میں آئے۔ کہی حملہ آور یہاں اپنا زور بازو آزما کے چلے گئے۔ بہت سے کربلا اس شہر کے لوگوں کے صبر کا امتحان لیتے رھیں۔ لیکن ہزاروں سال سے یہ شہر اپنی عظیم الشان تہذیب وتمدن اپنے سینے سے لگائے شان وشوکت سے زندہ و تابندہ ہے۔ اور لوگ اسی وقار سے جی رہے ہیں جس طرح سے جیتے تھے۔

خون بہتا رہا لوگ قربان ہوتے رھے۔ بڑے سپہ سالار ہارتے رہے۔ لیکن زندگی یہان کبھی نہیں ہاری۔ خوشی پھر بھی ویسے منائی جاتی رہی جیسے یہاں مناتے تھے۔ رباب کی مردہ و بے جان تاروں سے آج بھی زندگی کی حسین سازیں بنائی جاتی ہیں۔ آج بھی غزل ہو یا ٹپہ لوگ محبوب کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ وطن، گودر(وہ مخصوص جگہ جہان سے عورتیں پانی بھرتی ہے) مازیگر(عصر اور مغرب کے بیچ کا وقت)اور جانان (محبوب) آج بھی ہر غزل اور نطم کے بنیادی ضروریات ہیں۔ رباب اور منگئی اب بھی ہر حجرے کی دلکشی کا بنیادی سامان سمجھا جاتا ہے۔

\"islamia_college_university_peshawar_nightview\"

تاریخ ایسی کہ ہمالیہ بھی پشاور کی تاریخ کے آگے اپنی بلندی پہ شرمندہ ہوجاہے۔ اس شہر کا ہر درہ پختونوں کی غیرت و بہادری کی ہزاروں داستانوں کی گواہی ادا کرے گا۔ احمد شاہ ابدال کی حربی و سیاسی تاریخ ہو یا شیر شاہ کے غیرت کے قصے یا خوشحال خان کی داستان ان سب کے تانے بانے یہیں سے ملیں گے۔ برصغیر پاک و ہند میں عدم تشدد اور برداشت کی لازوال مثال، سوا چھ فٹ کا غفار خان (باچا خان) کا مرکز سیاست بھی پشاور شہر تھا۔ یہ ان بہت ناموں میں بہت تھوڑے نام ہیں جن کو دنیا کا کوئی تاریخ دان نظر انداز نہیں کرسکتا ہے۔

پختونوں کی تہذیب وتمدن کا ذکر بغیر پشاور کے مکمل نہیں ہوسکتا۔ پشاور کا قلعہ بالاحصار آج بھی ہندوستان پر ہمارے دور حکومت کی یاد دلاتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں تحریک آزادی کے دوران سب سے زیادہ تحریکیں دیکھنے والا قصہ خوانی بازار اج بھی اتنی شان وشوکت سے کھڑا ہے۔ چوک یادگار کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔ اسلامیہ کالج بھی پچھلی ایک صدی سے اس ملک کو معمار دے رہا ہے

\"qilla-bala-hisar-peshawar\"

پشتو آدب کا مرکز بھی ہمیشہ سے پشاور ہی رہا ہے۔ یہیں پر رحمان بابا پوری شان و شوکت سے سفید غلاف اوڑھے اپنے مقبرے میں آرام فرما رہے ہیں۔ خوشحال خٹک بھی اسی شہر میں اپنے حربی و ادبی کمالات دیکھاتے رہتے تھے۔ حمزہ شنواری نے بھی جوانی ان گلیوں میں کاٹی۔ جبکہ غنی خان بھی پشاور میں ادب کی لازوال خدمت کرتے رھے۔ ادب کی آبیاری آج بھی اسی شہر سے ہوتی ہے۔

کہتے ہیں ہر پشتون کے دو شہر ہوتے ہیں ایک اس کا اپنا اور ایک پشاور۔ جو یہاں آتا ہے یہی کا ہوجاتا ہے، یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ جب بھی ملیں گے مسکرا کے ملیں گے۔ رستہ ایسے بتائیں گے جیسے برسوں کی جان پہچان ہو، مہمان نوازی کا تو سب کو پتہ ہے۔ بس مرچ مصالحے زیادہ کھانے والے پشاور آتے وقت کچھ دن کے لئے یہ عادت ترک کرلیں۔ اگر آپ میری طرح کوئٹہ کے پشتون ہوں تو تیار رہا کریں یہ دو بار ملیں گے، ایک ملاقات کے وقت اور دوسری بار تعارٖف کے بعد، وہ بھی گلے لگ کر۔ محبت کے اظہار میں کافی شرمیلے ثابت ہوتے ہیں اس لئے اگر کبھی ایسی ضرورت پیش آے تو پہل کیا کرو ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔

\"abdul-ghaffar-bacha-khan\"

اس شہر میں بلا کی ذہانت ہے۔ یہ اپنے وقت کا مصر بن سکتا ہے۔ علم و فن میں اس زمانے کا یونان ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آپ کو ارسطو۔ سقراط اور نیوٹن دے سکتا ہے۔ یہاں کے مکین آپ کو ایسے عجوبے بنا کے دے سکتے ہیں۔ جن کے سامنے اہرام مصر بھی ریت کا ذرہ لگیں گی۔ بس شرط ایک ہے۔ شرط بہت سادہ ہے لیکن یہ شرط بہت بنیادی ہے۔ بس اس شہر کو کچھ آرام دو۔ جنگوں سے نفرتوں سے، ان قاتلوں سے، ان انسانیت کے دشمنوں سے۔ اس شہر کو بس اب امن دو لازوال امن، بے پناہ امن۔ بس اتنی سی شرط ہے بس اتنی سی۔ بس اب جنگ نہ ہو بس۔ بس اتنا سا، صرف اتنا سا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments